کتاب معرفت: حق وباطل کا ملغوبہ

حسان عبدالغفار تعارف و تبصرہ

عصر حاضر میں جو لوگ اپنے مخصوص افکار و نظریات سے مشہور ہیں ان میں ایک معروف شخصیت مولانا وحید الدین خان کی ہے ۔انھوں نے متعدد موضوعات پر سو سے زائد کتابیں تحریر فرمائی ہیں اور اپنی منفرد قوت بیان ، مخصوص طرز فکر اور سائنسی نقطہ نظر سے بہتوں کو متاثر بھی کیا ہے ۔
ان کی کتاب ’کتاب معرفت‘ کا مطالعہ کرنے سے چار باتیں شدت سے محسوس ہوتی ہیں:
(۱)وہ پہلے کوئی عقیدہ اور نظریہ قائم کرتے ہیں پھر اسی کی روشنی میں قرآن وحدیث کا مطالعہ کرتے ہیں اگر ان کو ایسی آیتیں یا حدیثیں مل جاتی ہیں جن سے ان کے عقیدے اور نظریے کی تائید ہوتی ہو تو وہ اس کی تاویل کرکے انھیں اپنے عقیدے اور نظریے سے ہم آہنگ کر لیتے ہیں اور اگر صحیح دلائل سے ان کے فکر اور عقیدے کی ترجمانی نہیں ہو پاتی ہے تو ضعیف اور منکر روایتوں کا سہارا لیتے ہیں یا پھر ان آیتوں کی تفسیر یا احادیث کی تشریح میں صحابہ یا تابعین سے منقول ضعیف یا مجروح اقوال کو جمع کرتے ہیں ، پھر اس نظریے اور عقیدے کو اس قدر جامع ، خوبصورت اور سہل ممتنع اسلوب میں بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والا یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ کوئی قرآنی عقیدہ اور نظریہ پڑھ رہا ہے ۔
(۲)سائنسی علوم پر ان کا مطالعہ انتہائی وسیع اور گہرا ہے اور وہ عقل پر مبنی سائنس اور وحی پر مبنی اسلام کو اس خوبصورتی کے ساتھ ملا کر پیش کرتے ہیں گویا دونوں کا منبع اور مصدر قدرے ایک ہو ۔
(۳)عموماً وہ اپنے نظریے اور عقیدے کی وضاحت کھل کر اور واضح انداز میں نہیں کرتے ہیں ۔
(۴)وہ ایک ہی بات کو مختلف پیرایے اور اسلوب میں بیان کرتے ہیں اور عموماً پہلے اسلوب کا مفہوم دوسرے اسلوب اور پیرایے کے مفہوم سے قدرے متضاد اور مختلف نظر آتا ہے جس کی وجہ سے قاری کا کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہوتا ہے ۔
مولانا وحید الدین خان کی یہ کتاب جو چھ سو چوبیس صفحات پر مشتمل ہے ، اس میں کئی جگہ حق وباطل ایک ساتھ خلط ملط ہو گیا ہے ۔لہذا مناسب معلوم ہوا کہ ان جگہوں کی طرف اشارہ کر دیا جائے ۔
موصوف کتاب شروع کرتے ہوئے صفحہ نو پر فرماتے ہیں:
’’علماء نے معرفت کو واجب اول بتایا ہے ، زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ معرفت مقصد انسانیت ہے ۔ موت سے پہلے کی زندگی آغاز معرفت ہے اور موت کے بعد کی زندگی تکمیل معرفت کی زندگی، موجودہ دنیا میں ایک انسان ابتدائی دریافت کے درجے میں خدا کی معرفت حاصل کرتا ہے ۔ آخرت کی دنیا میں وہ کامل دریافت کے درجے میں خدا کی معرفت حاصل کرے گا ، حقیقت یہ ہے کہ معرفت خداوندی ایک فکری عمل ہے ۔ یہ فکری عمل موجودہ دنیا میں شروع ہوتا ہے اور وہ پھر ابدی طور پر آخرت کی دنیا میں جاری رہے گا۔
قرآن کی سورۃ الزاریات میں بتایا گیا ہے کہ جن وانس کو صرف اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ (۵۶:۵۱ ) اس آیت میں عبادت سے مراد معرفت الہی ہے، آیت کی یہ تفسیر عبداللہ بن عباس اور علی بن ابی طالب کے قول پر مبنی ہے ۔ یہی معرفت الہی جن وانس کا مقصد تخلیق ہے اس مقصد کا تقاضا تھا کہ جن وانس کو وہ صلاحیت کمال درجے میں عطا کی جائے جس کے ذریعے وہ اعلی درجے میں معرفت خداوندی کو حاصل کر سکیں۔‘‘(کتاب معرفت: ص۹)
’’قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان یا معرفت کے دو درجے ہیں – ابتدائی معرفت اور اعلی معرفت ۔۔۔‘‘ ( ص ۱۱)
’’جنت کی سب سے بڑی خوشی حصول معرفت کی خوشی ہے حصول معرفت کا یہ سفر جنت میں ابدی طور پر جاری رہے گا ، اس کے علاوہ جنت میں جو مادی نعمتیں ملیں گی وہ در اصل ضیافت ربانی کے طور پر ملیں گی۔‘‘ ( ص ۱۴)
’’توحید کا آغاز معرفت (realizasion)سے ہوتا ہے ، یعنی خدا کو خالق ومالک کی حیثیت سے دریافت کرنا، کسی انسان کو جب خدا کی یہ معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کا حال کیا ہوتا ہے اس کو قرآن میں تفصیل سے بتایا گیا ہے ، اس سلسلے میں ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے:
اور جب وہ اس کو سنتے ہیں ۔۔۔‘‘(۸۳:۵-۸۵)
یہ ایک عجیب المیہ ہے کہ پوری تاریخ میں صرف چند مخلص انسانوں کے سوا کوئی بھی شخص اللہ کی عظمت کو دریافت نہ کرسکا، چنانچہ پوری انسانی تاریخ میں جو چیز سب سے کم پائی جاتی ہے وہ خدا کی اعلی معرفت ہے ، اعلی معرفت اعلی عظمت سے جڑی ہوئی ہے جب انسان خدا کی اعلی عظمت کو دریافت نہ کر سکا تو اس کے بعد لازما یہی ہونا تھا کہ وہ خدا کی اعلی معرفت سے بھی محروم رہے۔‘‘ ( ص۳۶)
قبل اس کے کہ ہم موصوف کے نظریے کا جائزہ لیں یہ جان لینا فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ بعینہ یہی نظریہ بہت سارے باطل فرقوں مثلا اشاعرہ، متکلمین اور صوفيوں کا بھی رہا تھا اور ہے ۔( شرح جوهرة التوحيد : ص۳۷)
معرفت الہی کے مسئلہ میں قول فیصل یہ ہے کہ معرفت کے داعی اور مدعی یا تو توحید الوہیت کی حیثیت اور مقام سے نا آشنا ہیں یا پھر آشنا تو ہیں مگر اپنے افکار اور عقائد کی ترویج کے لیے قصدا اسے ظاہر نہیں کر رہے ہیں ۔کیونکہ اگر معرفت کے داعی توحید الوہیت کے مفہوم سے واقف ہوتے تو معرفت کو اول واجب یا کم از کم مقصد انسانیت قطعا قرار نہ دیتے ۔وہ اس وجہ سے کہ توحید الوہیت ہی وہ توحید ہے جس کی طرف دعوت دینے کے لیے رب العالمین نے اپنے تمام نبیوں اور رسولوں کو زمین پر بھیجا:
وَلَـقَدۡ بَعَثۡنَا فِىۡ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ وَاجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ‌ۚ
(النحل:۳۶)اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا (جو انھیں یہی کہتا تھا) کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔
يٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ مَا لَـكُمۡ مِّنۡ اِلٰهٍ غَيۡرُهٗ
(الاعراف:۶۵)اے میری قوم کے لوگو!اللہ کی عبادت کرو جس کے علاوہ تمھارا کوئی معبود نہیں۔
یہی واجب اول ، مقصد انسانیت ہے اور اس دین حنیف کا طرہ امتیاز ہے کہ بندہ ’ أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمداً رسول الله‘ کا دل وزبان سے اقرار واعتراف کرے کہ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﯾﮏ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻌﺒﻮﺩ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺫﺍﺗﯽ ﻭ ﺻﻔﺎﺗﯽ نام اور ﮐﻤﺎﻻﺕ ﺑﺮﺣﻖ ﮨﯿﮟ، وہ اکیلا ہی عبادت کا مستحق ہے۔ اور ﻣﺤﻤﺪ ‏صلی اللہ علیہ وسلم اس ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﮨﯿﮟ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﺻﺎﺩﻕ ﻭ ﻣﺼﺪﻭﻕ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب، دین اسلام، امور غیب، احکام شرعیہ وتمام جزئیات دین کے متعلق جو خبر دی ہے اور ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﺳﻨﺖ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﺩﯾﻦ ﻭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ہم تک پہنچایا ہے ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﻘﺎﻧﯿﺖ ﻭ ﺻﺪﺍﻗﺖ ہر قسم کے شکوک وشبہات سے بالا تر ہے۔ پھر اسے اپنے اذہان وقلوب میں اس طرح بٹھا لے کہ اس کے اثرات اس کے کردار وسلوک اور اعضاء و جوارح پر ظاہر ہو جائیں اور پھر اسی کے مطابق اعمال کی انجام دہی کرے۔
معرفت الہی واجب اول یا مقصد انسانیت ہرگز نہیں ہے کیونکہ اگر اقرار واعتراف اور اعتقاد سے پہلے معرفت واجب ہوتی تو قرآن و حدیث میں کم از کم ایک بار ہی اس کا ذکر آیا ہوتا، جبکہ توحید الوہیت کی دعوت سے پورا قرآن بھرا پڑا ہے ۔
موصوف کا کہنا کہ’’علماء نے معرفت کو واجب اول بتایا ہے ، زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ معرفت مقصد انسانیت ہے‘‘ چند وجوہات کی بنا پر درست نہیں ہے۔
پہلی وجہ:
معرفت الہی سے اگر ذات الہی کی معرفت مراد ہے تو یہ محال ہونے کی وجہ سے باطل ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا
(طہ:۱۱۰)
یہ وضاحت اس لیے کہ معرفت کو اول واجب قرار دینے والے اکثر حضرات اللہ تعالی کی صفات کے قائل نہیں ہیں جیسے اشاعرہ وغیرہ ۔لہذا وہ جس معرفت کو اول واجب قرار دیتے ہیں وہ در حقیقت ’ذات الہی‘ کی معرفت ہے ۔اور اگر اس کے افعال واسماء وصفات یا اس کی آیات کے ذریعے اس کی معرفت مراد ہے _ جیسا کہ خان صاحب صفحہ نمبر چھبیس پر لکھتے ہیں کہ توحید کا آغاز معرفت (realizasion) سے ہوتا ہے ، یعنی خدا کو خالق ومالک کی حیثیت سے دریافت کرنا … _ تو بھی درست نہیں ہے۔کیونکہ لوگ فطری طور پر اللہ کو خالق ومالک اور رازق مانتے ہیں ، لہذا جو چیز انسان کی فطرت میں داخل ہو ، انسان اسے تسلیم بھی کرتا ہو اس کی طرف دعوت دینے یا اسے اول واجب قرار دینے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟
نیز اللہ رب العالمین کو خالق ومالک کی حیثیت سے جاننا اور دریافت کرنا ’ توحید ربوبیت‘ میں داخل ہے جس کے قائل ہر دور کے مشرکین بھی رہے ہیں ۔اللہ رب العزت فرماتا ہے:
وَلَئِنۡ سَاَلۡتَهُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ لَيَـقُوۡلُنَّ اللّٰهُ‌
(لقمان:۲۵)اور اگر تو ان سے پوچھے گا کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو یقینا کہیں گے کہ اللہ نے۔
قُلۡ مَنۡ يَّرۡزُقُكُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ اَمَّنۡ يَّمۡلِكُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصَارَ وَ مَنۡ يُّخۡرِجُ الۡحَـىَّ مِنَ الۡمَيِّتِ وَيُخۡرِجُ الۡمَيِّتَ مِنَ الۡحَـىِّ وَمَنۡ يُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ‌ؕ فَسَيَـقُوۡلُوۡنَ اللّٰهُ‌ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ
(یونس:۳۱) کہو، آسمان اور زمین سے تمھیں رزق کون دیتا ہے، یا وہ کون ہے جو آنکھوں اور کانوں کا مالک ہے ، اور کون ہے جو مردہ سے زندہ کو اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے ، اور کون ہے جو کائنات کا نظام چلا رہا ہے ؟ وہ ضرور بول اٹھیں گے کہ اللہ، تو کہو، پھر تم اس سے ڈرتے کیوں نہیں ۔
ان آیات کے علاوہ اور بھی آیتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار ومشرکین اللہ رب العزت کو خالق، مالک، محیی وممیت، مدبر اور صاحب تصرف مانتے تھے اور اس کی ربوبیت کی کسی بھی صفت کے منکر نہ تھے پھر بھی وہ کافر اور مشرک تھے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید ربوبیت کے اقرار یعنی اللہ کو خالق، مالک، محیی وممیت، مدبر اور صاحب تصرف جان لینے سے کوئی شخص موحد یا مسلم اور مؤمن نہیں ہو سکتا ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ توحید الوہیت کا اقرار واعتراف کرے ۔ بصورت ديگر کفار ومشرکین بھی کامل موحد نہ سہی آدھے موحد ضرور قرار پاتے۔
خلاصہ یہ نکلا کہ خان صاحب کی مذکورہ توحید کم از کم ’ وہ توحید نہیں جس کی دعوت دینے کے لیے رب العزت نے اپنے نبی اور رسول بھیجے تھے ۔‘نیز موصوف نے اپنے اس ’ مذعومہ‘ عقیدہ پر سورہ مائدہ کی جس آیت کے ترجمہ سے استدلال کیا ہے وہ آیت ان کے اس عقیدہ پر دلالت نہیں کرتی ہے ۔
پہلے آیت اور اس کا ترجمہ دیکھیں:
وَاِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَى الرَّسُوۡلِ تَرٰٓى اَعۡيُنَهُمۡ تَفِيۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُوۡا مِنَ الۡحَـقِّ‌ۚ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰهِدِيۡنَ
‏(المائدہ:۸۳)اور جو کچھ رسول کی طرف نازل کیا گیا ہے جب اسے سنتے ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لے آئے لہذا ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
اس آیت میں ’مِمَّا عَرَفُوۡا مِنَ الۡحَـقِّ‌‘سے خان صاحب نے ’معرفت خدا‘ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔جو درست نہیں ہے ۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ آیت میں’ سَمِعُوۡا‘ کی ضمیر’ھم‘ کا مرجع اس سے پہلے والی آیت میں مذکور ’نصاری‘ کے قسیسین و رھبان کی طرح راجع ہے ۔ اور ان کی صفت یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ تکبر نہیں کرتے بلکہ حق بات کو جاننے کے بعد قبول کر لیتے ہیں ۔اور نصاری کا یہ عقیدہ تھا کہ عیسی علیہ السلام ’خدا‘ ہیں اور ان کے اندر الوہیت کی صفت موجود ہے ۔جبکہ ’حق‘ کی تعیین میں کئی احتمالات نظر آتے ہیں ۔کیونکہ ’ حق‘ اللہ تعالی کی بھی صفت ہے، قرآن کی بھی صفت ہے، دین اسلام کی بھی صفت ہے اور تمام دینی احکامات کی بھی صفت ہے۔
لہذا:
۱۔مراد یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام اور ان کی ماں مریم دونوں اللہ کے بندے ہیں اور ان کے اندر ’الوہیت‘ کی کوئی بھی صفت موجود نہیں ہے ۔
مطلب یہ ہوا کہ ان کی آنکھوں میں جس حق کی معرفت کے نتیجے میں آنسو رواں ہوئے تھے وہ یہ تھا کہ عیسی اور ان کی ماں مریم علیہما السلام تو صرف اللہ کے بندے اور مخلوق ہیں ، ربوبیت یا الوہیت کی کوئی صفت ان کے اندر موجود ہی نہیں ہے بلکہ وہ تو خود توحید الوہیت کی دعوت دے رہے تھے ۔
۲۔مراد یہ ہے کہ قرآن مجید کا اللہ کی طرف سے نازل ہونا ’ حق‘ اور یقینی ہے۔
مطلب یہ ہوا کہ ان کی آنکھوں میں جس حق کی معرفت کے نتیجے میں آنسو رواں ہوئے تھے وہ یہ تھا کہ انھیں اس بات کی معرفت ہو گئی تھی کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس نے اپنے نبی پر نازل فرمائی ہے ۔
۳۔مراد یہ ہے کہ انھوں نے قرآن سننے کے بعد یہ جان لیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یقینا وہی نبی ہیں جن کی بشارت عیسی علیہ السلام اور ان سے پہلے کے نبیوں نے دی تھی۔ لہذا اس حق بات کو جان لینے کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔
البتہ پہلا احتمال راجح نظر آتا ہے وہ اس وجہ سے کہ مذکورہ آیت سے پہلے ’ دس‘ آیات میں نصاری کا یہ باطل عقیدہ اور نظریہ بیان کیا گیا ہے جو وہ کہتے تھے کہ اللہ حقیقت میں ’ مسیح ابن مریم‘ ہے یا اللہ ’ثالث ثلاثۃ‘ ہے پھر ان کے اس عقیدے اور نظریے کی تردید کی گئی، پھر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان میں کچھ ’قسیسین اور رھبان‘ ہیں جو حق بات جاننے کے بعد تکبر نہیں کرتے ہیں بلکہ اسے تسلیم کر لیتے ہیں اور جب وہ قرآن سنتے ہیں اور یہ جان لیتے ہیں کہ عیسی اور ان کی ماں مریم محض اللہ کے بندے اور رسول ہیں تو ان کی آنکھیں بہہ پڑتی ہیں۔
دوسری وجہ:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں اس بات کی دعوت نہیں دی کہ سب سے پہلے ’معرفت الہی‘ حاصل کرو یا پھر اللہ کو ’ خالق و مالک‘ کی حیثیت سے دریافت کرو بلکہ اس کے برعکس سب سے پہلے جس چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دی وہ شہادتین’أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمداً رسول الله‘ ہے اور اسی کی طرف بلانے کا حکم اپنے صحابہ کرام کو بھی دیا ۔جیسا کہ معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجتے وقت فرمایا:
ادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ
(صحيح البخاری:۱۳۹۵) انھیں اس کلمہ کی گواہی کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ، اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو پھر انھیں بتانا کہ۔۔۔
یہی روایت الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ اس طرح بھی آئی ہے:
فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ عِبَادَةُ اللَّهِ، فَإِذَا عَرَفُوا اللَّهَ …
( صحيح البخاری:۱۴۵۸)سب سے پہلے انھیں اللہ کی عبادت کی دعوت دینا ، پس جب وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں۔۔۔
لہذا حدیث کے اس ٹکڑے ’فَإِذَا عَرَفُوا اللَّهَ ‘ سے بعض لوگوں نے استدلال کیا کہ ’معرفت الہی‘ واجب اول ہے یا مقصد انسانیت ہے ۔مگر یہ استدلال اسی صورت میں درست ہو سکتا تھا جب اس سے پہلے کے فقرے میں ’ عِبَادَةُ اللَّهِ ‘ کے بجائے ’ معرفة الله‘ ہوتا ۔یعنی :
فليكن أول ما تدعوهم إليه معرفة الله

اور اس کے علاوہ کوئی اور لفظ وارد نہ ہوتا ۔جب کہ یہاں پر کئی الفاظ وارد ہوئے ہیں ۔
چنانچہ صحیح بخاری کے رمز شناس ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’فإذا عرفوا الله أو عرفوا ذلك‘
سے معرفت کے وجوب پر استدلال اسی وقت صحیح ہو سکتا ہے جب یہ کنفرم ہو جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی الفاظ استعمال فرمائے ہیں ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے ان الفاظ کا صدور محل نظر ہے، اس لیے کہ واقعہ ایک ہے اور راویوں نے اس واقعے کو مختلف الفاظ میں بیان ہے جس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سا لفظ استعمال فرمایا تھا ، لہذا جب اس لفظ کی روایت میں راویوں کے تصرف کا احتمال ہو گیا تو پھر ’فإذا عرفوا الله‘ سے معرفت الہی کے وجوب پر استدلال بھی درست نہیں رہ گیا، نیز میں نے کتاب الزکاۃ کے اواخر میں یہ واضح کر دیا ہے کہ اکثر رواۃ نے اس حدیث کی روایت میں ’ فادعهم إلى شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، فإن هم أطاعوا لك بذلك‘ کا ذکر کیا ہے، جبکہ بعض راویوں نے ان الفاظ ’فادعهم إلى أن يوحدوا الله، فإذا عرفوا ذلك‘ کا ذکر کیا ہے اور بعض کی روایت ان الفاظ میں ہے’فادعهم إلى عبادة الله، فإذا عرفوا الله‘۔ ان تمام الفاظ میں جمع وتطبیق کی صورت یہ ہے کہ ’ عبادۃ‘ سے مراد ’توحید‘ ہے اور توحید سے مراد ’ شہادتین‘ کا اقرار ہے اور ’ ذلك ‘ سے توحید کی طرف اشارہ ہے اور ’فإذا عرفوا الله‘ سے ’عرفوا توحيد الله‘ مراد ہے مطلب یہ کہ وہ اللہ کی توحید کو جان لیں اور ’ معرفۃ‘ سے اقرار وفرماں برداری مراد ہے، اس طرح ایک ہی روایت کے مختلف الفاظ میں جمع وتطبیق ہو جاتی ہے۔ (فتح الباری:۱۳/۳۵۴)
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ، حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ
(صحيح البخاری:۲۵)مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ اس بات کا اقرار نہ کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔
لہذا اگر ’معرفت‘ واجب اول یا مقصد انسانیت ہوتی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف ضرور دعوت دیتے یا پھر فرماتے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ اللہ کو پہچان نہ لیں ، مگر امر واقعہ اس کے برعکس ہے۔
تیسری وجہ:
تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی دعوت کی ابتدا توحید الوہیت سے کی ہے اور کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! سب سے پہلے اللہ کو پہچانو، یا خالق ومالک کی حیثیت سے اسے دریافت کرو کیونکہ معرفت اصلا فطرت ہی سے حاصل ہو جاتی ہے بلکہ اس کے برعکس اللہ رب العزت نے نوح، ھود، صالح ، شعیب اور عیسی علیہم السلام وغيرهم کی دعوت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سب نے اپنی قوم سے کہا:
ٱعۡبُدُوا۟ ٱللَّهَ
(اللہ کی عبادت کرو)[ المائدۃ:۷۲، ۱۱۷ ، هود:۸۴، ۶۱، ۵۰ ،النحل:۳۶، النمل:۴۵ ، المؤمنون:۳۲،۲۳،نوح:۳]
چوتھی وجہ:
بفرض محال اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ معرفت واجب اول ہے تب بھی ایک اعتراض پیدا ہوگا کہ ’معرفت‘ صرف غور وفکر اور استدلال سے حاصل ہوتی ہے لہذا پہلا فرض ’ غور وفکر‘ ہونا چاہیے نہ کہ معرفت الہی ۔جیسے نماز فرض ہے مگر نماز بغیر وضو کے ناقص نہیں ہے لہذا نماز سے پہلے وضو کرنا فرض ہوتا ہے ۔
پانچویں وجہ:
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ’ معرفت الہی‘ مقصد انسانیت یا واجب اول ہے تو ایسی صورت میں اگر کوئی کافر آپ کے پاس اسلام قبول کرنے کے لیے آئے تو آپ کو لازما کہنا پڑے گا کہ ’’ پہلے آپ غور وفکر اور استدلال کرو تاکہ اللہ کو پہچان سکو پھر اس کے بعد اس کی صفات کو پہچانو اس کے بعد آکر ’ شہادتین‘ کا اقرار کرو اور اسلام میں داخل ہو جاؤ ۔‘‘
موصوف ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’ موت سے پہلے کی زندگی آغاز معرفت ہے اور موت کے بعد کی زندگی تکمیل معرفت کی زندگی۔(کتاب معرفت: ص۹)
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موت کے بعد کی زندگی تکمیل معرفت کی زندگی کیسے ہو سکتی ہے؟نیز یہ دنیا ’ دار العمل‘ ہے اور آخرت کی زندگی ’ دار الجزاء‘ ہے ، انسان جو کچھ اس دنیا کے اندر کرے گا اسی کا بدلہ آخرت میں پائے گا، آخرت نہ تو عمل کی جگہ ہے اور نہ ہی اللہ رب العزت وہاں ہم سے کسی چیز کا مطالبہ کرے گا پھر آخر کس طرح آخرت کی زندگی’ تکمیل معرفت کی زندگی‘ ہو سکتی ہے؟نیز کیا اس معرفت کی تکمیل میں پوری انسانیت – بشمول انبیاء کرام – داخل ہوگی ؟
اگر ہاں تو کیا انبیاء کرام بھی دنیا کے اندر مکمل معرفت حاصل نہ کرسکے جو وہ موت کے بعد حاصل کریں گے؟یا پھر وہی لوگ ’ معرفت‘ کی تکمیل کریں گے جو دنیا کے اندر مکمل معرفت حاصل نہ کر سکے بلکہ کچھ کمی رہ گئی؟یا پھر دنیا کے اندر مکمل معرفت ممکن ہی نہیں ہے؟نیز موت کے بعد کی زندگی میں تکمیل معرفت کا طریقہ کیا ہوگا؟
موصوف مزید فرماتے ہیں:
’’ قرآن کی سورۃ الزاریات میں بتایا گیا ہے کہ جن وانس کو صرف اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔(۵۶:۵۱) اس آیت میں عبادت سے مراد معرفت الہی ہے آیت کی یہ تفسیر عبداللہ بن عباس اور علی بن ابی طالب کے قول پر مبنی ہے ۔ یہی معرفت الہی جن وانس کا مقصد تخلیق ہے۔‘‘(کتاب معرفت: ص۹)
تو عرض ہے کہ یہ تفسیر نہ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے اور نہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ۔معلوم نہیں یہ تفسیر موصوف نے کہاں سے نقل کی ہے ۔
امام بغوی کہتے ہیں کہ ’ إلّا لِيَعْبُدُونِ‘ کی تفسیر علی رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں کی ہے :
أيْ إلّا لِآمُرَهُمْ أنْ يَعْبُدُونِي وأدْعُوَهُمْ إلى عِبادَتِي ۔يُؤَيِّدُهُ قَوْلُهُ تعالى : وما أُمِرُوا إلّا لِيَعْبُدُوا إلَهًا واحِدًا
(التَّوْبَةِ: ۳۱)[معالم التنزيل للبغوي :۴/۲۸۸،مجموع الفتاوى لابن تيمية: ۸/۵۲]تاکہ میں انھیں اپنی عبادت کا حکم دوں اور اپنی عبادت کی طرف بلاؤں۔اس کی تائید اللہ تعالی کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ : انھیں صرف ایک الہ کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔
جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
إلّا لِيَعْبُدُونِ . أي : إلّا لِيُقِرُّوا بِالعُبُودَةِ طَوْعًا وكَرْهًا
( تفسير الطبری:۲۱/۵۵۴)وہ خوشی نا خوشی میرے معبود برحق ہونے کا اقرار کریں۔
ابن جریر رحمہ اللہ ’ لیعبدون‘ کی تفسیر میں اقوال نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وأولى القولين في ذلك بالصواب القول الذي ذكرنا عن ابن عباس، وهو : ما خلقت الجنّ والإنس إلا لعبادتنا، والتذلل لأمرنا
( تفسير الطبری:۲۱/۵۵۴)
یاد رہے کہ خان صاحب نے اپنی من مانی تفسیر کی تائید میں ایک موضوع اور من گھڑت روایت کا بھی سہارا لیا ہے ۔ روایت یہ ہے:
كنت كنزًا مخفيًا فأحببت أن اعرف فخلقت الخلق
(كشف الخفا :۲/۱۰۱۱ بحوالہ کتاب معرفت:ص۴۷) میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا لہذا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، سو اسی لیے مخلوق کو پیدا فرما دیا۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إنه ليس من كلام النبي صلى الله عليه وسلم ، ولا يعرف له سند صحيح ولا ضعيف، وتبعه الزركشي وشيخنا
( يعني : ابن حجر)[المقاصد الحسنة للسخاوی: ص۵۲۱]یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کوئی صحیح یا ضعیف سند معلوم ہے یہی بات امام زرکشی اور ابن حجر نے بھی کہی ہے۔
معلوم ہوا کہ موصوف نے جس تفسیر کو ابن عباس اور علی بن ابی طالب کی طرف منسوب کیا ہے بالکل بھی درست نہیں ہے بلکہ ان دونوں سے اس کی دوسری تفسیر وارد ہے ۔
مولانا وحید الدین ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان یا معرفت کے دو درجے ہیں – ابتدائی معرفت اور اعلی معرفت ۔۔۔‘‘ ( ص۱۱)
سوال یہ ہے کہ قرآن کریم میں کس جگہ ’ معرفت‘ کا تذکرہ ہے نیز کس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ معرفت کے دو درجے ہیں؟
مزید لکھتے ہیں:
’’ جنت کی سب سے بڑی خوشی حصول معرفت کی خوشی ہے حصول معرفت کا یہ سفر جنت میں ابدی طور پر جاری رہے گا ، اس کے علاوہ جنت میں جو مادی نعمتیں ملیں گی وہ در اصل ضیافت ربانی کے طور پر ملیں گی ۔‘‘ ( ص۱۴)
سوال یہ ہے کہ جنت میں کون سی معرفت کا حصول سب سے بڑی خوشی قرار پائے گی؟ کیا ’ معرفت‘ سے ان کا مقصود ’ رؤیت باری تعالی‘ ہے جو کہ جنت کی سب سے بڑی نعمت ہوگی اور سب سے زیادہ جنتیوں کو محبوب بھی ہوگی ، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ – قَالَ – يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى : تُرِيدُونَ شَيْئًا أَزِيدُكُمْ ؟ فَيَقُولُونَ : أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنَا ؟ أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ، وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ ؟ “. قَالَ : ” فَيَكْشِفُ الْحِجَابَ، فَمَا أُعْطُوا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَى رَبِّهِمْ عَزَّ وَجَلَّ
(صحيح مسلم:۱۸۱)جب جنتی جنت میں داخل ہو جائیں گے اس وقت اللہ تعالی فرمائے گا کیا تم کچھ اور چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے : کیا تو نے ہمارے چہرے سفید نہ کیے، ہم کو جنت میں داخل نہیں کیا ، جہنم سے نہ بچایا (لہذا اب اور کیا چاہیے)پس پردہ اٹھ جائے گا، اس وقت جنتیوں کو ملی ہوئی کوئی بھی چیز اپنے پردگار کی طرف دیکھنے سے زیادہ محبوب نہیں ہوگی۔
لہذا اگر ’ معرفت‘ سے موصوف کی مراد ’رؤیت باری تعالی‘ ہے تو یہ خود ان ہی کے قول کے مخالف ہے کیونکہ ان کے بقول ’’موت سے پہلے کی زندگی آغاز معرفت ہے اور موت کے بعد کی زندگی تکمیل معرفت کی زندگی ہے۔‘‘
لہذا یہ لازم آئے گا کہ موت سے پہلے کی زندگی میں ’ رؤیت باری تعالی‘ ممکن ہے بلکہ اسی زندگی سے انسان اللہ کو دیکھنا شروع کر دیتا ہے ۔ جو محال ہے ۔
نیز اگر حصول معرفت سے ان کی مراد ’ رؤیت باری تعالی‘ نہیں ہے تو پھر جنت میں کون سی معرفت کا حصول ہے جو جنتیوں کو ’ رؤیت باری تعالی‘ سے زیادہ خوش کرے گی؟یا پھر دنیاوی معرفت الگ ہے اور جنت والی معرفت الگ؟
ایک اور جگہ موصوف لکھتے ہیں:
’’ یہ ایک عجیب المیہ ہے کہ پوری تاریخ میں صرف چند مخلص انسانوں کے سوا کوئی بھی شخص اللہ کی عظمت کو دریافت نہ کرسکا، چنانچہ پوری انسانی تاریخ میں جو چیز سب سے کم پائی جاتی ہے وہ خدا کی اعلی معرفت ہے ، اعلی معرفت اعلی عظمت سے جڑی ہوئی ہے جب انسان خدا کی اعلی عظمت کو دریافت نہ کر سکا تو اس کے بعد لازما یہی ہونا تھا کہ وہ خدا کی اعلی معرفت سے بھی محروم رہے ۔‘‘ ( ص۳۶)
ایسا لگتا ہے موصوف دھیان نہیں دیتے ہیں کہ وہ کیا لکھ چکے ہیں اور کیا لکھ رہے ہیں، وگرنہ اس قدر تضاد اور الجھاؤ پیدا نہیں ہوتا ۔سوال یہ ہے کہ موصوف کو کیسے معلوم ہوگیا کہ پوری تاریخ انسانیت میں صرف چند لوگ ہی اللہ کی عظمت کو دریافت کر سکے؟ کیا یہ نص سے ثابت ہے یا پھر تدبر وتفکر کے بعد معلوم ہوا ہے؟نیز ان ’ چند لوگوں‘ سے مراد کون ہیں؟
اگر چند لوگوں سے مراد صرف انبیاء ورسل ہیں تو ان کے علاوہ بقیہ ’ اصحاب رسل، صدیقین، شہداء، صالحین، مؤمنین نیز وہ تمام لوگ جن کی صفات کو اللہ رب العزت نے قرآن مقدس میں بیان فرمایا ہے سب کے سب خدا کی معرفت سے محروم رہے؟
خلاصہ یہ کہ جس قدر آپ اس کتاب ’ کتاب معرفت‘ کو پڑھتے جائیے اسی قدر الجھتے جائیے۔وہ اس وجہ سے کہ کتاب میں موصوف کا اسلوب کافی متضاد اور مبہم ہے نیز اس میں غیر واضح تعبیر کی کثرت ہے ، من مانی استدلال ہے جس سے قاری یا تو بہک سکتا ہے یا پھر الجھن کا شکار ہو سکتا ہے ۔کیونکہ جو شخص بھی منہج سلف کو چھوڑ کر عقل کی وادی میں گھس جاتا ہے تو پھر اس سے باہر نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

آپ کے تبصرے

3000