”ثقہ راوی کی زیادتی“ سے مراد یہ ہے کہ ایک جماعت ایک حدیث کو ایک سند نیز ایک متن سے روایت کریں اور اس کی سند یا متن میں بعض روات کوئی ایسا اضافہ کریں جو دوسرے روات بیان نہ کرتے ہوں۔ [شرح علل الترمذي لابن رجب الحنبلی:۲/۶۳۵]
اسی اضافے کو محدثین کی اصطلاح میں ”زیادۃ الثقہ“ کہا جاتا ہے۔
محدثین کرام کے یہاں اس ”زیادتی“ کو قبول یا رد کرنے کا منہج کیا ہے اسی سے متعلق یہ مختصر مضمون ہے۔
بعض حضرات کو دیکھا جاتا ہے وہ ”ثقہ راوی کی زیادتی“ مطلقا قابل قبول مانتے ہیں۔ حالانکہ ثقہ کی زیادتی مطلقا قابل قبول ہو یہ کبھی محدثین کا منہج نہیں رہا ہے۔ اسے مطلقا قابل قبول کہنا بعض حضرات کا شاذ منہج ہے۔ محدثین کسی حدیث میں وصل وارسال، رفع ووقف یا کسی لفظ کی زیادتی میں اختلاف کی صورت میں قرائن کا اعتبار کرتے ہیں اور انھیں ہی سامنے رکھ کر زیادتی کے قبول یا رد کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ عِلَل کی کتابیں ان مثالوں سے بھری ہوئی ہیں۔
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ نے ”شرح علل الترمذی“(۲/۶۳۰-۶۴۳) میں اس مسئلہ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور متعدد مثالوں سے محدثین کا منہج واضح کیا ہے کہ ہر حدیث میں قرائن کے اعتبار سے زیادتی کے قبول ورد کا فیصلہ کرنا ان کا منہج ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والذي يجري على قواعد المحدثين أنهم لا يحكمون عليه بحكم مستقل من القبول والرد، بل يرجحون بالقرائن [النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر:۲/۶۸۷]
یعنی محدثین کے قواعد کے مطابق جو بات نکلتی ہے وہ یہ کہ وہ نہ زیادتی کے قبول کے سلسلے میں کوئی مستقل حکم صادر کرتے ہیں اور نہ ردکے سلسلے میں، بلکہ قرائن کی روشنی میں ترجیح کا طریقہ اپناتے ہیں۔
علامہ علائی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”نظم الفرائد لما تضمنہ حدیث ذی الیدین من الفوائد“میں اسے بہترین انداز میں بیان کیا ہے، فرماتے ہیں:
أئمة الحديث المتقدمون منهم: كيحيى بن سعيد القطان وعبد الرحمن بن مهدي، ومن بعدهم كعلي بن المديني، وأحمد بن حنبل، ويحيى بن معين وهذه الطبقة، وكذلك من بعدهم: كالبخاري، وأبي حاتم وأبي زرعة الرازيين، ومسلم، والنسائي، والترمذي وأمثالهم، ثم الدارقطني، والخليلي، كل هؤلاء يقتضي تصرفهم من الزيادة قبولاً ورداً الترجيح بالنسبة إلى ما يقوى عند الواحد منهم في كل حديث، ولا يحكمون في المسألة بحكم كلي يعم جميع الأحاديث، وهذا هو الحق والصواب [نظم الفرائد: ص۳۷۶-۳۷۷]
(متقدمین ائمہ حدیث جیسے یحیی بن سعید القطان، عبد الرحمن بن مہدی اور ان کے بعد علی بن مدینی، احمد بن حنبل، یحیی بن معین اور ان کا طبقہ، اسی طرح ان کے بعد جو ہیں جیسے بخاری، ابو حاتم رازی، ابوزرعہ رازی، مسلم، نسائی، ترمذی اور ان جیسے محدثین، پھر دار قطنی اور خلیلی زیادتی کے قبول ورد کرنے کے متعلق ہر ایک کا تصرف اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر حدیث میں انھیں جو قوی معلوم ہو اس کی ترجیح کا اعتبار کیا جائے۔ یہ حضرات کوئی ایسا کلی حکم صادر نہیں کرتے جسے تمام احادیث پر فٹ کیا جا سکے۔ اور یہی برحق ودرست بھی ہے)
یہ ہے محدثین کا منہج کہ وہ نہ کلی طور پر زیادتی کو قبول کرتے ہیں اور نہ کلی طور پر رد۔ بلکہ ترجیح کا راستہ اپناتے ہیں اور جس حدیث میں جو قوی معلوم ہو اسے راجح قرار دیتے ہیں، چاہے وہ زیادتی ہو یا عدم زیادتی۔
علامہ علائی ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
إنّ الجماعة إذا اختلفوا في إسناد حديث كان القول فيهم للأكثر عدداً أو للأحفظ والأتقن … ويترجح هذا أيضًا من جهة المعنى بأن مدار قبول خبر الواحد على غلبة الظن وعند الاختلاف فيما هو مقتضى لصحة الحديث أو لتعليله يرجع إلى قول الأكثر عددًا لبعدهم عن الغلط والسهو, وذلك عند التساوي في الحفظ والإتقان، فإن تفارقوا واستوى العدد فإلى قول الأحفظ والأكثر اتقاناً، وهذه قاعدة متفق على العمل بها عند أهل الحديث [نظم الفرائد: ص۳۶۷]
(اگر ایک جماعت کا کسی حدیث کی سند میں اختلاف ہو تو زیادہ تعداد والوں کی بات مانی جائےگی، یا زیادہ حفظ واتقان والوں کی… معنی کے اعتبار سے بھی یہی راجح معلوم ہوتا ہے کہ خبر واحد کا قبول کرنا ظن غالب کی بنا پر ہے۔ اور اختلاف کے وقت حدیث کی تصحیح یا تعلیل کا تقاضا یہ ہے کہ زیادہ تعداد والوں کی طرف رجوع کیا جائے کیونکہ ان سے بھول چوک ہونا بعید ہے۔ یہ اس وقت ہے جب سب کے سب حفظ واتقان میں برابر ہوں، لیکن اگر ان میں تفاوت ہو اور عدد برابر ہو تو زیادہ حفظ واتقان والوں کی بات راجح ہوگی۔ محدثین کے نزدیک اس قاعدے پر عمل کرنے پر اتفاق ہے)
علامہ علائی رحمہ اللہ کا مذکورہ قول اس مسئلہ میں قول فیصل کا درجہ رکھتا ہے جس میں انھوں نے یحیی بن سعید القطان اورعبد الرحمن بن مہدی سے لے کر ابو یعلی الخلیلی تک کے محدثین کا بالاتفاق منہج نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ کی زیادتی نہ مطلقًا قبول کرتے ہیں اور نہ مطلقا رد کرتے ہیں، بلکہ قرائن اگر قبول کرنے کا تقاضا کرتے ہوں تو قبول کرتے ہیں اور رد کرنے کا تقاضا کرتے ہوں تو رد کرنے میں ذرہ برابر تأمل نہیں کرتے، کیونکہ کسی ثقہ راوی سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور وہ بھی بطور وہم کوئی حدیث روایت کر سکتے ہیں۔ بلکہ محدثین کرام نے بہت ساری احادیث میں ثقہ روایوں کی بعض غلطیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔ لہذا اگر قرائن کسی خاص حدیث میں ان کی کسی وہم پر دلالت کرتے ہوں تو قرائن کے مطابق ہی فیصلہ کیا جائےگا اور صرف اس لیے کہ اسے روایت کرنے والا ثقہ ہے آنکھ بند کرکے قبول نہیں کر لیا جائےگا۔ ابھی حال ہی میں ایک مضمون ”إزالة الوَلَه عن وهَم الحافظ الثقة“ میں میں نے اسے مع مثال بیان کیا ہے جو فری لانسر کے عربی پورٹل ”الأقلام الحرہ“میں شائع شدہ ہے۔ جس کا لنک یہ ہے:
اس پورٹل پر میری اور بھی کئی حدیثوں کی تخریج میں اس کی مثالیں آپ کو مل جائیں گی۔ مثلا”هل تسوك النبي صلى الله عليه وسلم وهو صائم؟“
جس کا لنک یہ ہے:
”هل أمر عمر بن الخطاب رضي الله عنه في عهده بقيام رمضان بعشرين ركعة؟“
اس کا لنک یہ ہے:
”هل قيام رمضان يكفر الذنوب المؤخرة مع المقدمة؟“
اس کا لنک یہ ہے:
هل قِيَام رمضان يُكَفِّرُ الذُّنوبَ المُؤَخَّرَةَ مع المُقَدَّمَةِ؟
ان احادیث کی تخریج سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائےگا کہ ثقہ راوی سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ لہذا جمع طرق کے بعد اس کی تحقیق ودراسہ کی اور دلائل کی روشنی میں فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی محدثین کرام کا متفقہ منہج ہے۔
در اصل ثقہ راویوں کی احادیث میں مخفی علت تک پہنچنا ہی اصل فن ہے اور اسی لیے فن حدیث کو سب سے مشکل فنون میں شمار کیا جاتا ہے۔ ورنہ جس حدیث کی سند میں رفع ووقف، یا وصل وارسال یا الفاظ کی زیادتی وغیرہ کا کوئی اختلاف نہ ہو اور اس میں کوئی مشہور ضعیف یا کذاب راوی ہو اس کی علت تک پہنچنا کیا مشکل ہے؟
آج کل سوشل میڈیا پر بہت سارے متعالمین وبردرس احادیث پر صحت وضعف کا حکم لگا نے میں جو ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں وہ ایسی ہی احادیث کا انتخاب کرتے ہیں جن میں کوئی اختلاف نہ ہو، جن کی اسانید روشن دن کی طرح صحیح یا ضعیف ہوں، وہ ایسی نہایت آسان احادیث پر حکم لگا کر اپنے خادم حدیث الرسول ہونے کا زعم پالے ہوئے ہیں، حالانکہ ابھی وہ علم حدیث کی باریکیاں تو دور کی بات اس کے ظاہری وواضح امور سے بھی نا واقف ہیں۔ اور ان آسان اسانید پر حکم لگانے میں بھی ایسی فاش قسم کی غلطیاں کرتے ہیں جو اہل فن کے نزدیک نہایت ہی مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔
البتہ سادہ لوح عوام اورایسے طلبہ علم کے نزدیک انھیں تھوڑی بہت پذیرائی ضرور مل جاتی ہے جنھیں علم حدیث کی باریکیوں کا علم نہیں، جو تمام احادیث کی بحث وتحقیق کو یکساں سمجھتے ہیں۔ حالانکہ معاملہ در حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اعلم أن ّ معرفة صحة الحديث، وسقمه تحصل من وجهين:
أحدهما: معرفة رجاله وثقتهم وضعفهم، ومعرفة هذا هين؛ لأن الثقات والضعفاء قد دُوِّنوا في كثير من التصانيف، وقد اشتهرت بشرح أحوالهم التواليف.
والوجه الثاني: معرفة مراتب الثقات وترجيح بعضهم على بعض عند الاحتلاف، إما في الإسناد، وإما في الوصل والإرسال، وإما في الوقف والرفع ونحو ذلك، وهذا هو الذي يحصل من معرفته وإتقانه وكثرة ممارسته الوقوفُ على دقائق علل الحديث[شرح علل الترمذي:۲/۶۶۳]
(جان لو! حدیث کی صحت وضعف کی معرفت دو طریقوں سے ہوتی ہے:
پہلا طریقہ: اس کے روات کی ثقاہت وضعف کی معرفت کے ذریعہ۔ اس کی معرفت آسان ہے، کیونکہ ثقہ وضعیف روات کو بہت ساری کتب میں مدون کر دیا گیا ہے اور ان کے احوال کی تفصیلات کے متعلق کئی کتابیں مشہور ہیں۔
دوسرا طریقہ: ثقہ روات کے مراتب کی معرفت اور اختلاف کے وقت ان میں سے بعض کو بعض پر ترجیح دینے کے ذریعہ، چاہے یہ اختلاف اسناد میں ہو، یا وصل وارسال میں، یا وقف ورفع میں، یا اسی طرح کا کوئی دوسرا اختلاف ہو۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کی معرفت، اتقان اور کثرت مشق کے ذریعہ علل حدیث کی باریکیوں کو جانا جا سکتا ہے)
اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(وهذا النوع من أجلها) أي أجل أنواع علوم الحديث وأشرفها وأدقها وإنما (يتمكن منه أهل الحفظ والخبرة والفهم الثاقب) ولهذا لم يتكلم فيه إلا القليل كابن المديني وأحمد والبخاري ويعقوب بن شيبة وابي حاتم وأبي زرعة والدارقطني۔ [تدريب الراوي:۱/۲۵۱]
(یہ قسم علوم حدیث کے اقسام میں سے سب سے جلیل القدر، شریف اور دقیق قسم ہے۔ اس میں حفظ، تجربہ اور گہری سمجھ رکھنے والے ہی مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے بہت کم لوگوں نے اس نوع کے بارے میں کوئی کلام کیا ہے، جیسے ابن المدینی، احمد، بخاری، یعقوب بن شیبہ، ابو حاتم، ابو زرعہ اور دارقطنی ہیں)
اور امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إنما يُعَلَّل الحديث من أوجُه ليس للجرح فيها مَدخَل، فإن حديث المجروح ساقطٌ واهٍ، وعلة الحديث يَكثُرُ في أحاديث الثقات, أن يُحدِّثوا بحديث له علة، فيَخفَى عليهم عِلْمه، فيَصير الحديث معلولًا، والحُجَّة فيه عندنا الحفظ، والفهم، والمعرفة, لا غير۔[معرفۃ علوم الحديث: ص۱۱۲]
(ایسے طریقوں سے بھی حدیث معلول قراردی جاتی ہے جس میں جرح کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مجروح راوی کی حدیث –تو واضح طور پر- ساقط اور واہی ہے۔ -اصل میں- حدیث کی علت ثقہ راویوں کی احادیث میں زیادہ ہوتی ہے، بایں طور کہ وہ کوئی حدیث روایت کریں اور اس میں کوئی علت ہو جس کی معرفت ان پر مخفی رہ جائے، اس سے حدیث معلول ہو جاتی ہے۔ اور اس تعلیل کے باب میں ہمارے نزدیک حجت صرف حفظ، فہم ومعرفت ہے، کوئی دوسری چیز نہیں۔ -یعنی ہمارے نزدیک قابل حجت صرف وہ ناقدین ہیں جو حفظ، فہم اور معرفت والے ہوں، دوسرے نہیں)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنے مذکورہ قول میں ایک بہت بڑی حقیقت کو بیان کیا ہے، وہ یہ کہ جس حدیث کی سند میں کوئی مجروح راوی ہو وہ تو واضح طور پر ساقط اور مردود ہے، اس کی علت تک پہنچنا کوئی کمال نہیں، اصل کمال تو یہ ہے کہ ثقہ رایوں سے بعض احادیث میں جو وہم ہوا ہے ان اوہام کو دلائل کی روشنی میں بیان کیا جائے۔
اس لیے آپ علل کی کتابیں مثلا ”علل الدار قطنی“وغیرہ اٹھائیں ان میں آپ کو ایسی احادیث کم ہی ملیں گی جن کے روایت کرنے میں کذاب یا ضعیف جدًا روات متفرد ہیں۔ بلکہ اکثر ایسی احادیث ملیں گی جن کی سند یا متن میں وصل وارسال، یا رفع ووقف، یا بعض الفاظ کی زیادتی کا اختلاف واقع ہوا ہے۔ اور اس کے روایت کرنے والے ثقہ وصدوق روات ہیں، یا ایسے روات جن کا ضعف معمولی ہے۔
اسی طرح آپ امام ابن ابی حاتم رزای کی ”علل“اٹھائیں، اس میں بہت ساری احادیث آپ کو صحیحین کی ملیں گی جن کے روایت کرنے میں کسی دوسرے طریق میں (یعنی خارج صحیحین) کسی راوی سے وہم ہوا ہے، حالانکہ وہ ثقہ وحافظ ہیں۔ بطور مثال میرا ”إزالة الوله عن وهَم الحافظ الثقة“والا مضمون ہی پڑھ لیں۔ وہ حدیث صحیحین میں ہے، لیکن لیث بن سعد جیسے جلیل القدر امام سے اسے روایت کرنے میں وہم ہوا ہے جیسا کہ امام ابو زرعہ رازی نے کہا ہے۔ [علل ابن ابی حاتم:۲/۶۰۶]
اللہ تعالی سے دعا ہے ہمیں محدثین کرام کے معروف ومشہور منہج کی صحیح فہم عطا کرے اور اس کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔
جزاک اللّٰه خیرا
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ مختصر جامع مضمون ہے
جزاکم اللہ خیرا الجزاء و بارک اللہ فیکم