کیا علامہ البانی-رحمہ اللہ- نے کسی مدرسہ یا استاد سے علم حاصل نہیں کیا تھا؟

فاروق عبداللہ نراین پوری تنقید و تحقیق

گزشتہ کئی سالوں سے الحمد للہ بردرس کی نقل وحرکت قریب سے دیکھ رہا ہوں۔ ایک وہ دور بھی تھا جب میں خود ان کا بڑا مداح تھا اور ان کے خلاف ایک لفظ سننا گوارا نہیں کرتاتھا۔ بعض ساتھیوں کے ساتھ خوب بحثیں بھی ہوتی تھیں،وہ ان کے انحرافات دکھلاتے اور میں ان کے فضائل گناتا تھا۔ پھر اللہ کے فضل وکرم سے یہاں مدینہ طیبہ کے سلفی مشایخ کے دروس سے استفادے کا سلسلہ شروع ہوا۔ طلب علم، نشر علم اور دعوت وتبلیغ میں سلف صالحین کا منہج ان سے پڑھا اور بردرس کی دعوت کو کتاب وسنت اور سلف صالحین کے منہج کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کیا تو ان دونوں منہج میں جو بُعد المشرقَین تھا واضح ہونا شروع ہوا۔
میں نے بردرس کے خلاف لکھنا تب شروع کیا جب اس باب میں سلف صالحین کا منہج اور بردرس کا اس منہج سے انحراف بالکل واضح ہو گیا۔ اس لیے میرے جو خیر خواہ چاہتے ہیں کہ میں بھی ان کی طرح بردرس کا حامی بن جاؤں وہ کتاب وسنت اور منہج سلف سے ان کی حقانیت ثابت کر دیں بہ صد شکریہ ان کی بات قبول کر لوں گا۔
گزشتہ ایام میں جب بردرس کی گمراہیوں کو میں نے بیان کرنا شروع کیا تو کئی بار بعض حضرات نے بردرس کی حمایت اور دفاع میں علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا نام بطور ڈھال استعمال کرنا چاہا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انھوں نے بھی محض ذاتی مطالعے سے علم حاصل کیا ، کسی استاد سے یا مدرسے میں نہیں پڑھا۔بلکہ حیرت کی بات تو یہ کہ بعض بردرس انھیں اپنی جماعت میں شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم علامہ البانی رحمہ اللہ کے ہی نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔ واللہ المستعان۔
اس لیے اس شبہ کا ازالہ کرنا ضروری محسوس ہوا کہ”کیا علامہ البانی رحمہ اللہ نے کسی مدرسہ یا استاد سے علم حاصل نہیں کیا تھا؟“
در حقیقت یہ شیخ رحمہ اللہ پر بہت بڑا بہتان ہے کہ انھوں نے کسی مدرسہ یا استاد سے علم حاصل نہیں کیا تھا۔ شیخ رحمہ اللہ ہماری ہی طرح عجمی تھے، ان کی مادری زبان عربی نہیں تھی۔نو سال کی عمر میں جب انھوں نے البانیا سے دمشق (سوریا) کی طرف ہجرت کی تھی اس وقت عربی زبان سے واقف نہیں تھے۔ بلکہ انھیں عربی لکھنا پڑھنا تک نہیں آتا تھا۔
خود شیخ رحمہ اللہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں:
”وكان عمري في ذلك الوقت تسع سنوات، وما كنت أعرف من اللغة العربية شيئًا، فعندما ذهبنا إلى دمشق ما كنا نعرف القراءة والكتابة باللغة العربية۔“
(میری عمر اس وقت نو سال تھی۔ میں عربی زبان کا کچھ بھی نہیں جانتا تھا،جب ہم دمشق گئے تو عربی میں ہمیں لکھنا پڑھنا تک نہیں آتا تھا)
سوریا آنے کے بعد ایک پرائیویٹ مدرسہ”جمعیۃ الاسعاف الخیری“میں آپ نے داخلہ لیا اور مسلسل چار سال تک وہاں تعلیم حاصل کی۔مدارس میں جو علوم آلہ پڑھائے جاتے ہیں ان تمام علوم سے اپنے آپ کو لَیس کیا۔ واضح ہو کہ نہایت ذہین ہونے کی وجہ سے پہلے دو سال کا کورس آپ نے ایک سال میں ہی ختم کر دیا تھا۔ اس لیےگرچہ مذکورہ مدرسے میں صرف چار سال تھے لیکن یہ کورس چار سال سے زیادہ کا تھا جو آپ نے وہاں پڑھا۔آپ عربی زبان وقواعد میں اس طرح ماہر ہو چکےتھے کہ عربی طلبہ جن مسائل کو حل نہیں کر پاتے تھے استاد آپ کی طرف متوجہ ہوتے اور کہتے :
”ما ذا تقول يا أرناؤطي عن هذه الجملة؟“
(اے ارناؤطی-یعنی البانی-تم اس جملہ کے بارے کیا کہتے ہو؟)
شیخ صحیح جواب دیتے اور استاد عرب طلبہ کو عار دلاتے کہ دیکھو تم عرب ہو اور یہ عجمی ہیں لیکن صحیح جواب انھوں نے دیا ہے۔ [صفحات بیضاء من حیاۃ الامام الالبانی لابی اسماء عطیۃ المصری: ص۲۰]
اس کے بعد ان کے والد نے انھیں مدرسہ سے نکال لیا اور گھر میں ان کے لیے ایک نہایت منظم کورس تیار کیا اور وہیں ان کی آگے کی تعلیم جاری رہی۔ ان کے والد خود بہت بڑے حنفی عالم تھے اوراس علاقے میں انھیں مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔ شیخ نے ان کے پاس علم الصَرف اور فقہ حنفی پڑھا، ساتھ ہی ان کے پاس تجوید کے ساتھ حفص عن عاصم کی قرأت میں پورا قرآن ختم کیا۔
وہیں شیخ نے دمشق کی مشہور مسجد، مسجد بنی امیہ کے امام شیخ سعید البرہانی کے پاس بھی فقہ حنفی پڑھا۔ جس میں فقہ حنفی کی مشہور کتاب ”مراقی الفلاح شرح نور الایضاح“نامی کتاب بھی تھی۔ ان سے شیخ نے خصوصی طور پر علم النحو اور علم البلاغہ کی تعلیم حاصل کی۔
وہیں شیخ نے حلب (سوریا) کے مشہور محدث شیخ راغب الطباخ سے علم حدیث میں اجازہ بھی حاصل کیا۔
ساتھ ہی شیخ ملک شام کے مفتی ومحدث علامہ محمد بہجہ البیطار کے دروس میں بھی حاضر ہوتے تھےاور اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔
ایک مدت تک ماہر اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے اور علوم آلہ سے مسلح ہونےکے بعد شیخ جب اس قابل ہو گئے کہ ذاتی مطالعہ کر سکیں تو شیخ نے مطالعہ کتب کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ [تفصیل کے لیے دیکھیں: حیاۃ الالبانی وآثارہ لمحمد ابراہیم الشیبانی: ص۴۴-۴۶،صفحات بیضاء من حیاۃ الامام الالبانی لابی اسماء عطیۃ المصری: ص۱۹-۲۲،العلامۃ الالبانی حیاتہ ومنہجہ ومؤلفاتہ وثناء العلماء علیہ لابی الحسن محمد بن الحسن الشیخ: ص۱۱-۱۲]
یہ ہے شیخ رحمہ اللہ کے طلب علم کی مختصر داستان۔
اب آپ ہی انصاف کے ساتھ بتائیں کہ کیا شیخ نے کسی مدرسہ یا استاد کے بغیر ہی علم حاصل کیا تھا یا ان کا طلب علم کا طریقہ وہی تھا جو سلف صالحین کا طریقہ تھا؟
کیا اس کے باوجود بردرس کی حمایت میں شیخ کا نام لینا اور ان کے طلب علم کے طریقہ کو بردرس کے لیے حجت بنانا نا انصافی نہیں ہے؟
اگر بردرس اپنی تائید میں شیخ کا نام لیتے ہیں تو ہم ان سے صرف یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ شیخ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ماہر اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کریں، اپنے آپ کو علوم اسلامیہ سے مسلح کریں پھر شوق سے علم کی نشر واشاعت کریں، دعوتی میدان میں اتریں اور علم وبصیرت کی بنیاد پر صحیح اسلام کا پرچار کریں۔
اللہ ہمیں ہمارے علما کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اخلاص کے ساتھ طلب علم ، پھر نشرعلم کی توفیق عطا فرمائے۔

9
آپ کے تبصرے

3000
9 Comment threads
0 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
8 Comment authors
newest oldest most voted
مصلح الدين مظهري

جزاكم الله خيرا شيخنا الحبيب

فيصل نور

جزاك الله خيرا

محمد اسماعيل بسنوى

ما شاء الله۔ اللہ تعالیٰ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے اور برادرس کو علماء سے زانوے تلمذ حاصل کرکے میدان میں اترنے کی توفیق دے۔

Shakeel

جزاک اللّٰه خیرا

محمد امین

ماشاءاللہ
بہت خوب

نسیم سعید تیمی

جزاکم اللہ خیرا

Jahangir Alam

Ma sha Allah

Rashid Eqbal

Mashallah…bahut Achhi baat hai…hamein hamare ulema se judkar rahna chahiye..
Jazakallah khairan kaseera shaykh

Mohammad Amin

جزاک اللہ خیرا