اس وقت آنکھیں آنسووں سے بھر گئیں جب سوشل میڈیا کے ذریعہ وقت کے بے نظیر عالم باعمل،داعی اور منتظم ڈاکٹر آرکے نور محمد عمری مدنی(رحمہ اللہ) کی اچانک وفات کی خبر موصول ہوئی۔ویسے ایک دن قبل ان کی طبیعت کے خراب ہونے کی بھی خبر ملی تو تھی مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جلدی ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ ہم سب کو چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں گے۔
ڈاکٹر صاحب اس پرفتن دور میں علم وعمل کے سچے امین اور اسلام کے غیور اور متحمس سپاہی تھے۔عقیدہ اور منہج میں انھوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔تعلیم اور دعوت کی ترقی کے لیے وہ شب وروز کوشاں رہتے تھے۔انھوں نے ملک اور بیرون ملک میں جو کچھ سیکھا تھا اس کو نسل نو میں عام کرنا چاہتے تھے۔بلا کے ذہین وفطین، محنتی اور جفاکش انسان تھے۔ان کو تساہلی نے تو چھوا تک نہ تھا۔ہمہ وقت تعلیم ودعوت کے فروغ کی خاطر چلتے پھرتے اور تازہ دم نظر آتے تھے۔اللہ نے ان کو ٹھوس علم کے ساتھ حکمت ودانائی سے بھی مالا مال کیا تھا۔اخلاق وکردار کے اوج پر تھے۔ادنی اور اعلی سب کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آتے۔متعدد عہدوں پر فائز رہنے اور بے شمار اداروں کے مشرف اور ذمہ دار ہونے کے باوجود ان کے اندر تکبر جیسی مذموم صفت نہیں پائی جاتی تھی۔طالب،عالم اور عامی سب سے ہنس کر ملتے اور خیر خیریت دریافت کرتے تھے۔علمی،تعلیمی اور تنظیمی معاملے میں ان کی ذات بالخصوص اہمیت رکھتی تھی۔ان کا فیض صرف جنوب ہند ہی تک نہیں بلکہ ان کے فیضان علم ومعرفت سے پورا ہند فیض یاب ہورہا تھا۔وہ زمینی سطح پر تعلیم ودعوت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ کسی سے مرعوب بالکل نہ ہوتے تھے۔بلکہ مجلس میں اپنی باتوں اور مثبت سوچ سے دوسروں کو مرعوب اور متاثر کردیتے تھے۔ بڑی بڑی تعلیمی اور دعوتی مجلسوں میں شرکت کی اور اپنے گراں قدر خیالات سے جماعت وجمعیت کو فائدہ پہنچایا۔ تقریر وتحریر عالمانہ ہونے کے باوجود حالات وظروف کے عین مطابق ہوا کرتی تھی۔جس موضوع پر لکھتے اور بولتے ایسا لگتا کہ اس کا حق ادا ہوگیا اور کوئی جملہ بے جا یا بے محل نہیں ہوتا تھا۔ایک ایک جملہ با معنی اور ضروری تصور ہوتا تھا۔
میں نے۲۰۰۵-۲۰۰۹ء کے مابین دہلی میں ان کے کئی مقالات اورتقریریں سنیں،اس کے بعد بھی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی ایک عالمی کانفرنس میں ان کے وقیع مقالہ کے سننے کا موقع ملا۔اسی طرح ۲۰۱۴ء کے بعد بھی دہلی میں ملتقی دعاة میں ان کی تقریر اور تحریر دونوں سنی، سن اور پڑھ کر ان کی علمی گہرائی،گیرائی اور دعوتی جذبے کا اندازہ ہوتا تھا۔حق تو یہ ہے کہ اللہ نے انھیں گونا گوں خوبیوں سے نوازا تھا۔نوجوان علماء ودعاة کے لیے میر کارواں کی حیثیت رکھتے تھے۔انھیں دیکھ اور سن کر ہم سب کو تعلیم ودعوت کے میدان میں کچھ بہتر کرنے کا حوصلہ ملتا تھا۔ انھوں نے کم وقتوں میں مختلف میدانوں میں جو قابل رشک کام انجام دیا ہے وہ محض اللہ کی توفیق اور مرحوم ہی کا حصہ ہے۔دعوت وتبلیغ،صحافت وخطابت اور ادارت ونظامت کے فرائض کو بحسن وخوبی انجام دیا۔ملک وبیرون ملک کے اچھے اور مشہور علماء وفضلاء سے مراسم رہے۔دعوت وتعلیم کے میدان میں سرگرم لوگوں سے بھی رابطہ رکھا تاکہ ان کے ساتھ اخذواستفادہ کا عمل آسان ہوسکے۔گزشتہ چند سالوں میں چنئی شہر اور ارد گرد کے شہروں میں علوم شرعیہ پر جو کام کیا ہے وہ ہم سب کے لیے قابل تقلید اور ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ قلم اور زبان سے جو علمی جواہر پارے اب تک سامنے آئے ہیں بعض تو مطبوع ومقبول ہیں اور بعض اب تک زیور طباعت سے آراستہ نہ ہوسکے ہیں جن کو منظر عام پر لانا ان کے رفقاء کی اخلاقی ذمہ داری ہےاور ہم جیسے خوشہ چیں اس کے منتظر بھی ہیں،تاکہ ان کے علم وفہم سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے۔
۲۰۰۵ سے ۲۰۰۹ ء تک مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے زیر اشراف جتنی بھی چھوٹی بڑی کانفرنسیں،سیمینار،شوری وعاملہ کی میٹنگیں دہلی میں ہوئیں،ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی ان سب میں پُرجوش شرکت ہوتی رہی اور اپنی شمولیت سے حاضرین اور سامعین کو یکساں فیض پہنچاتے۔تمل ناڈو،پانڈیچیری کے احباب جمعیت کا ایک خوبصورت اور پُر نور قافلہ ہمہ وقت آپ کے ساتھ ہوتا۔دہلی آمد کے بعد مہمان نہیں بلکہ میزبان بن جاتے تھے۔ کانفرنس اور میٹنگ کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں کلیدی رول ادا کرتے، دہلی کے رام لیلا گراونڈ میں ہونے والی مرکزی جمعیت کی ساری کانفرنسیں اس بات کی گواہ ہیں۔
۱۹۶۶ء میں ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ اس دنیا میں آئے،زیورتعلیم وتربیت سے جنوب ہند سے سعودی عرب تک آراستہ وپیراستہ ہوئے۔عملی زندگی کا آغاز بڑی آب وتاب سے کیا۔ اگر ان کی عملی زندگی کا محتاط اندازہ لگایا جائے تو ہندوستان میں آنے کے بعد تقریبا بیس (۲۰) سال ہوتے ہیں۔مگر اللہ نے ان بیس سالوں میں بڑی برکت دی۔اپنے دوستوں اور ہم عصروں میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ تمام معاصرین ان کے علم وفن اور دعوت وتنظیم کے قائل تھے اور ہیں۔اس مختصر مدت میں انھوں نے تعلیم ودعوت کے تمام محاذوں پر مخلصانہ کام کیا اور کافی حد تک کامیابی حاصل کی۔
لوگوں کی امیدیں ان سے کافی زیادہ تھیں۔ مثل گلاب تھے جس کی خوشبو حاصل کرنا ہر کوئی چاہتا تھا۔ان کے علم وفضل سے سب کسب فیض کرنا چاہتے تھے۔ان کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی سب کو ضرورت تھی۔کسے معلوم تھا کہ تعلیم ودعوت کا یہ مرد آہن اتنی جلدی دنیا چھوڑ جائے گا۔
چند روز بیمار رہے،ہسپتال گئےاور دوبارہ زندہ گھر واپس نہ ہوسکے۔جو لوگ ان کو جانتے تھے وہ خبر سن کر بے خود ہوگئے۔ان کی اچانک وفات نے اہل ایمان کو ایک بار پھر سبق دیا ہے کہ ہر حال میں زندگی کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔جو زندگی ملی ہے اس کو کار آمد بنانے کی ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے۔موت ایسی ہو کرے جس پہ زمانہ افسوس۔ حیات میں ہم سب کو اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی سعی کرنی چاہیے۔
اللہ پاک ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی بشری لغزشوں کو در گزر فرمائے،ان کی خدمات کو شرف قبولیت عطا کرے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔
آپ کے تبصرے