امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہم سب کے امام ہیں اور ہم دوسرے تمام ائمہ سلف کے ساتھ ساتھ ان کے بھی خوشہ چیں ہیں۔ فقہی میدان میں ان کی امامت مسلم ہے، لیکن روایت حدیث کے باب میں متقدمین ائمہ کرام ومحدثین عظام نے ان پر کلام کیا ہے اور ان کےقلیل الحدیث ہونے کی صراحت کی ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ ان کے متعلق فرماتے ہیں:
حدّث بمائة وثلاثين حديثًا مسانيد، ما له حديث في الدنيا غيرها، أخطأ منها في مائة وعشرين حديثًا، إما أنيكون أَقلب إسناده أو غَيّر مَتْنه من حيث لا يعلم [المجروحين فی الحدیث:۳/۶۳]انھوں نے مسندًا ایک سو تیس حدیثیں روایت کی ہیں۔ دنیا میں ان احادیث کے علاوہ ان کی کوئی حدیث نہیں۔ جن میں سے ایک سو بیس احادیث میں انھوں نے غلطی کی ہے، یا تو نادانی میں ان کی سند الٹ پلٹ کر دی ہے، یا متن بدل دیا ہے۔
اسی ’قلیل الحدیث‘ کے الزام سے انھیں بری کرنے کے لیے شیخ لطیف الرحمن بہرائچی قاسمی صاحب نے ایک کتاب ترتیب دی ہے جس کا نام رکھا ہے ’الموسوعۃ الحدیثیہ لمرویات الامام ابی حنیفہ‘۔ اور یہ ثابت کرنے کی پرزور کوشش کی ہے کہ ان پر یہ الزام صحیح نہیں، بلکہ انھوں نے ساڑھے دس ہزار سے زائد احادیث روایت کی ہیں۔ اس ہمالیائی تعداد کو ثابت کرنے کے لیے کس طرح تدلیس اور جھوٹ کا سہارا لیا گیا ہے وہ میں نے اپنے ایک مضمون ’الموسوعۃ الحدیثیہ لمرویات الامام ابی حنیفہ میں امام صاحب کی کثرت مرویات کی حقیقت‘ میں اچھی طرح واضح کر دیا ہے۔
شیخ لطیف الرحمن بہرائچی کی مذکورہ کتاب کا تعارف کراتے ہوئے شیخ کے ایک خادم اور مرید محمد نعمان مکی صاحب فرماتے ہیں: ”کچھ کم علم اور متعصب افراد نے امام صاحب پر’قلیل الحدیث‘اور ’یتیم فی الحدیث‘وغیرہ ہونے کا الزام لگایا ہے، جو خالص حسد و عناد پر مبنی ہے۔‘‘
محمد نعمان مکی صاحب نے پتہ نہیں کن محدثین پر حسد اور عناد کا الزام لگایا ہے، اللہ اعلم۔ کیونکہ یہ الزام تو آج کے زمانے کے علما کا نہیں، قدیم محدثین کا ہے۔
حد تو تب ہو گئی جب اس مرید نے انتہائی غلو اور مبالغہ سے کام لیتے ہوئے انھیں کثرت روایت میں امام بخاری وامام مسلم کا ہم پلہ تک کہہ دیا۔ کہتے ہیں:’’آپ صرف محدث ہی نہیں بلکہ امام حدیث، حافظ حدیث اور صاحب’جرح و تعدیل‘ہونے کے ساتھ ساتھ، کثیر الحدیث ہونے میں بعد کے محدثین مثلاً امام بخاری و مسلم وغیرہ کے ہم پلہ ہیں؛ جس سے آپ کا علم حدیث میں بلند مقام ومرتبہ کا ہونا ظاہر ہے۔‘‘
میں نے اپنے سابقہ مضمون میں بالاختصار اس کا جائزہ لیا تھا،جس سے بعض لوگوں کو کچھ غلط فہمیاں ہوئیں اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ قدرے تفصیل کے ساتھ اسے بیان کیا جائے کہ کیا کسی بھی حساب سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعداد مرویات میں امام بخاری رحمہ اللہ کے ہم پلہ ہیں۔
جہاں تک امام بخاری رحمہ اللہ کی بات ہے تو انھوں نے خود اپنے بارے میں کہا ہے:
أحفظ مائَة ألف حَدِيث صَحِيح وأحفظ مِائَتي ألف حَدِيث غير صَحِيح [تاریخ بغداد:۲/۳۴۶، ھدی الساری مقدمہ فتح الباری: ص۴۸۷]مجھے ایک لاکھ صحیح حدیثیں اور دو لاکھ غیر صحیح حدیثیں یاد ہیں۔
اور صحیح بخاری کی تصنیف کے متعلق کہا ہے:
صنفت الْجَامِع من سِتّ مئَة ألف حَدِيث فِي سِتّ عشرَة سنة[ھدی الساری مقدمہ فتح الباری: ص۴۸۹]میں نے جامع کو سولہ سال میں چھ لاکھ حدیثوں سے لکھا۔
یہاں کسی کو یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ اس سے مراد چھ لاکھ متون ہیں، لیکن ایسی بات نہیں ہے۔ محدثین کے یہاں حدیث شمار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر ایک ہی متن اپنے مختلف اساتذہ سے روایت کریں تو اسے ایک حدیث نہیں، اسانید کے حساب سے الگ الگ احادیث شمار کرتے ہیں۔ اس لیے کوئی اسے چھ لاکھ متون شمار کرنے کی غلط فہمی میں نہ مبتلا ہو، بلکہ اس سے مراد اسانید ہیں۔ اور زمانۂ روایت میں یہ کسی بھی محدث کے لیے عظیم منقبت کی بات ہوتی تھی کہ ایک ہی حدیث کو متعدد اسانید سے جمع کرنے کی کوشش کرتے، کیونکہ اسی سے پوشیدہ علتوں کا پتہ لگانا ممکن ہوتا تھا۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں، بلکہ کسی بھی محدث کے لیے عظیم منقبت ہے۔ اس کے لیے مہینوں تک دنیا کے کونے کونے تک انھوں نے سفر کیا ہے،اس کے بعد انھیں یہ اونچا مقام ومرتبہ ملا ہے۔ اس چیز کو کما حقہ سمجھنا ہو تو بعض محدثین عظام کے ان اقوال کو بغور پڑھیں:
امام ابراہیم بن سعید الجوہری کہتے تھے:
كل حديث لم يكن عندي من مئة وجه فأنا فيه يتيم(ہر وہ حدیث جو میرے پاس سو طرق سے موجود نہ ہو اس میں میں یتیم ہوں)
اسی طرح کا قول امام ابن معین رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے،نیز ان سے ایک دوسرا قول منقول ہے، فرماتے تھے:
لو لم نكتب الحديث من ثلاثين وجهًا ما عقلناه(اگر ہم کوئی حدیث تیس طرق سے نہ لکھیں تو نہیں سمجھ پاتے)
اور امام ابو حاتم رازی کہتے تھے:
لو لم نكتب الحديث من ستين وجهًا ما عقلناه (اگر ہم کوئی حدیث ساٹھ طرق سے نہ لکھیں تو نہیں سمجھ پاتے)
[الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث للخلیلی:۲/۵۹۵، الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع للخطيب البغدادی:۲/۲۱۲،تاریخ دمشق لابن عساکر:۶/۴۱۰،سیر اعلام النبلاء للذھبی:۱۱/۸۸،شرح التبصرة والتذكرة للعراقی:۲/۴۷،تھذيب التھذيب لابن حجر:۱۱/۲۸۲، فتح المغيث للسخاوی:۳/۲۹۹]
یہ ہے ایک ہی حدیث کو متعدد طرق سے جمع کرنے کی اہمیت اور اس کا حقیقی مقام ومرتبہ جسے فن حدیث سے دلچسپی رکھنے والے علما اور طلبہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ اس باب میں دوسروں کے امام تھے۔ اورچونکہ یہ قول امام بخاری کا اپنا قول ہے اس لیے اس میں شک کی کوئی گنجائش بھی نہیں۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس تعداد میں احادیث مرفوعہ کے ساتھ آثار صحابہ وتابعین بھی مراد ہو سکتے ہیں، تو اس کا انکار نہیں۔ بالکل اس کا احتمال موجود ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مرویات کی تعداد آثار صحابہ وتابعین کو ملا کر بھی اس عدد کے عشر عشیر تک پہنچتی ہے؟
خود ان کا یا کسی متقدم محدث کا ایسا کوئی قول نہیں ملتا کہ ان کے پاس اس طرح ایک ہی حدیث کی متعدد اسانید موجود تھیں۔ بلکہ اس کے بر عکس متقدمین محدثین نے ان کے قلیل الحدیث ہونے کی صراحت کی ہے جیسا کہ شروع میں بیان کیا گیا۔
یہاں یہ ہزگز نہیں بھولنا چاہیے کہ صاحب موسوعہ شیخ لطیف الرحمن بہرائچی نے جو دس ہزار پانچ سو اٹھاسی مرویات کی تعداد ذکر کی ہے اس میں امام صاحب کے ذاتی اقوال بھی ہیں۔ یقینا ہر کوئی قبول کرےگا کہ مرویات میں ان اقوال کا شمار دھوکہ بازی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس لیے مذکورہ تعداد میں سے ان اقوال کو نکالنا ضروری ہے۔
پھر انھوں نے امام صاحب کے شاگردوں کے حساب سے جو ایک ہی حدیث پر بسا اوقات چالیس پچاس الگ الگ نمبر ڈالا ہے وہ بھی واضح تدلیس ہے، اس لیے انھیں بھی نکالنا ضروری ہے، ورنہ اس حساب سےصحیح بخاری کی ایک ایک حدیث کو نوے ہزار بار شمار کرنا پڑےگا۔ اور صرف صحیح بخاری کی احادیث کی تعداد کروڑوں تک پہنچ جائےگی۔
یہ تو اسانید کے حساب سے احادیث وآثار کی تعداد ہے۔ اگر صرف ان متون کی بات کی جائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں، اور اسانید کو چھوڑ دیا جائے اور آثار صحابہ وتابعین کو بھی نکال دیا جائے تو بھی امام بخاری رحمہ اللہ کے ساتھ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا کوئی موازنہ ہی نہیں۔
صرف صحیح بخاری میں مکرر احادیث کو حذف کرنے کے بعد مرفوع احادیث کی تعداد ۲۶۰۲ ہے۔ ’التاریخ الکبیر‘میں تقریبا ساڑھے آٹھ سو اور ’الادب المفرد‘میں تقریبا ان کی تعداد نو سو ہے۔ اس طرح صرف تین کتابوں میں مرفوع احادیث کی تعداد چار ہزار تین سو پچاس کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ ان کی دیگر کتابوں کو تو ابھی ہم نے شمار کیا ہی نہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کی ایسی بے شمار مرویات ہیں جو ان سے دیگر محدثین نے اپنی کتب میں روایت کی ہیں۔
واضح رہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مرویات کا پورادار ومدار ایسی ہی کتب پر ہے۔ ان کی اپنی کوئی ذاتی تصنیف ہے ہی نہیں۔ شیخ بہرائچی نے دوسرے علما کی کتب سے ہی ان کی مرویات کو جمع کیا ہے۔ اگر امام بخاری کی مرویات کوبھی اسی طرح جمع کیا جائے تو وہ الگ ہوں گی اور وہ بھی بے شمار ہوں گی۔
اس کے بالمقابل امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مرویات میں سے خالص ان متون کو ڈھونڈا جائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں تو ان کی تعداد کتنی ہوگی؟
یقینا موسوعہ سے تمام طرح کی تدلیسات کو نکال دیا جائے اور صرف ان متون کو باقی رکھا جائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں تو ان کی صحیح ترین تعداد وہی ہوگی جو متقدمین ائمہ کرام ومحدثین عظام نے ذکر کیا ہے۔
اس طرح بھی دونوں ائمہ کے مابین مرفوع متون کی تعداد میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کوئی تعصب نہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ قلیل الحدیث ہیں اور امام بخاری کے ساتھ کثرت مرویات میں ان کا دور دور تک کہیں کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہی عین حقیقت ہے اور ہر ایک کو ان کے اپنے مناسب مقام پر رکھنا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں تعصب سے اوپر اٹھ کر حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ نے بہت اچھے اسلوب میں تدلیسات کو اجاگر کیا ہے، جزاکم اللہ خیرا۔
امام ابو حنیفہ کا مقام بہت اونچا ہے، انہیں ان متعصب دیوبندیوں کی بیساکھی کی ضرورت ہی نہیں ہے، ہر شخص کا اپنا فن ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ ایک شخص کو تمام فنون میں مہارت حاصل ہو، امام ابو حنیفہ فقہ کے امام تھے، حدیث کے امام نہیں تھے، زبردستی انہیں امام فی الحدیث اور امام بخاری کے ہم ہلہ باور کرانا سراسر ظلم ہے، علمی خیانت ہے، کذب بیانی ہے، اور غلو آمیزی اور تدلیس کاری ہے۔
اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔
جزاك الله خير…