ایک مسلمان شخص کے لیے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک نماز عصر کا چھوڑنا مال ومتاع کے لٹ جانے اور اہل وعیال کے قتل ہو جانے کے مترادف ہے۔
یعنی: نماز عصر کو چھوڑ دینے والا اس شخص کی طرح ہے جس کے مال کو لوٹ کر اہل وعیال کو قتل کر دیا گیا ہو ۔جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الَّذِي تَفُوتُهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ كَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ(صحيح بخاری:۵۵۲)جس کی نماز عصر فوت ہو گئی گویا اس کے اہل وعیال اور مال ودولت ( سب کچھ)تباہ وبرباد ہو گئے۔
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: سورہ محمد میں جو ’ يترکم‘ کا لفظ آیا ہے وہ ’ وتر‘ سے نکالا گیا ہے۔ اور ’وتر‘ کہتے ہیں کسی شخص کا کوئی آدمی مار ڈالنا یا اس کا مال چھین لینا۔
ایک دنیا دار کی نظر میں اس سے بڑا نقصان اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کے اہل وعیال، بیوی اور بچے ہلاک ہو جائیں، اس کے جانور مر جائیں، عمارتیں زمین بوس ہو جائیں، روپیہ پیسہ لٹ جائے، نہ گھر رہے نہ در، کوڑی کوڑی کا محتاج ہو جائے ، پھر بھی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں اتنا بھیانک نقصان بھی اس نقصان کے مقابلے میں کم ہے جو ایک وقت کی نماز چھوڑنے سے ہوتا ہے۔
لہذا جب نماز عصر کو چھوڑنے کا انجام اس قدر شدید ہے تو پھر یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی ادائیگی کا صحیح وقت کیا ہے؟
عصر کی نماز کے دو اوقات ہیں:
۱۔وقت مختار:
اس کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہو جائے ، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ كُلُّ شَيْءٍ مِثْلَ ظِلِّهِ[سنن ترمذی:۱۴۹](پہلے دن) جبرئیل علیہ السلام نے عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہو گیا۔
اور یہ سورج کی رنگت زرد ہونے تک رہتا ہے ، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ ( صحيح مسلم:۶۱۲)عصر کی نماز کا آخری وقت سورج کی رنگت زرد ہو جانے تک رہتا ہے۔
سنن ترمذی کے الفاظ ہیں:
وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ الْعَصْرِ حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُهَا، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ تَصْفَرُّ الشَّمْسُ(۱۵۱)اور عصر کا اول وقت وہ ہے جب عصر کا وقت(ایک مثل سے) شروع ہو جائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج پیلا ہو جائے۔
یہاں پر یہ بات واضح رہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام کی امامت والی حدیث میں موجود یہ الفاظ:
ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَيْهِ [سنن ترمذی:۱۵۰](دوسرے دن) نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو گیا۔
گزشتہ دونوں روایت سے متعارض نہیں ہیں کیونکہ سایہ جیسے ہی دو مثل ہوتا ہے اسی وقت سورج زرد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ (الروضۃ النديۃ:۱/۲۰۰)
۲۔وقت کراہت :
یہ سورج کے زرد ہونے سے لے کر اس کے غروب ہونے کے وقت تک رہتا ہے۔ جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْعَصْرِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ (صحيح مسلم:۶۰۸) جس نے عصر کی ایک رکعت غروب شمس سے پہلے پالی گویا اس نے پوری نماز پالی۔
لہذا اگر کوئی بلا عذر شرعی کے اس وقت میں نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز تو ہو جائے گی مگر اس کا یہ عمل مکروہ قرار پائے گا کیونکہ یہ اضطراری وقت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت کی نماز کو منافق والی نماز قرار دیا گیا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ، يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ قَامَ، فَنَقَرَهَا أَرْبَعًا، لَا يَذْكُرُ اللَّهَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا(صحيح مسلم:۶۲۲) یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب سورج شیطان کی دو سینگوں کے درمیان میں آجاتا ہے (یعنی غروب کے قریب پہنچ جاتا ہے) تو اٹھتا ہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور اللہ کا ذکر تو برائے نام کرتا ہے۔
سوال: عصر کی نماز فوت ہونے سے کون سا وقت مراد ہے۔
جواب: یہاں پرعصر کی نماز فوت ہونے کے سلسلے میں محدثین کرام کے دو اقوال ملتے ہیں:
۱۔عصر کی نماز کا جو وقت ہے اس مکمل وقت میں نہ پڑھے۔
مکمل وقت سے مراد سورج کے غروب ہونے تک ، جسے ہم کراہت کا وقت کہتے ہیں۔
جیسا کہ ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فوات صلاة العصر: أريد به: فواتها في وقتها كله، كذا فسره ابن عبد البر وغيره(فتح الباری لابن رجب:۴/۲۹۳) صلاۃ عصر کے فوت ہو جانے سے مراد اس کے مکمل وقت کا نکل جانا ہے۔
جبکہ ابن حجر کہتے ہیں:
ومِمّا يَدُلُّ عَلى أنَّ المُرادَ بِتَفْوِيتِها إخْراجُها عَنْ وقْتِها ما وقَعَ فِي رِوايَةِ عَبْدِ الرَّزّاقِ فَأنَّهُ أخرج هَذا الحَدِيث عَن بن جُرَيْجٍ عَنْ نافِعٍ فَذَكَرَ نَحْوَهُ وزادَ قُلْتُ لِنافِعٍ حِينَ تَغِيبُ الشَّمْسُ قالَ نَعَمْ وتَفْسِيرُ الرّاوِي إذا كانَ فَقِيهًا أوْلى مِن غَيْرِهِ (فتح الباری لابن حجر:۲/۳۲)اس کی دلیل وہ روایت ہے جسے عبد الرزاق نے روایت کیا ہے، چنانچہ انھوں نے اس حدیث کی ’عن جريج عن نافع‘ سے تخریج کرنے کے بعد اتنا اضافہ کیا ہے کہ ’ میں نے نافع سے پوچھا کہ کیا اس سے سورج کا غروب ہو جانا مراد ہے تو انھوں نے کہا : ہاں ۔ لہذا فقیہ راوی کی تفسیر دوسرے لوگوں کی تفسیر سے اولی ہوتی ہے ۔
۲۔اس سے مراد یہ ہے کہ وقت مختار میں نہ پڑھے ۔
یعنی : اگر اس نے سورج میں زردی آنے تک عصر کی نماز نہیں پڑھی تو گویا اس کی نماز عصر فوت ہو گئی ۔
جیسا کہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ونقل عن ابن وهب أن المراد إخراجها عن الوقت المختار (فتح الباری لابن حجر:۲/۳۱)ابن وہب سے منقول ہے کہ صلاۃ عصر کے فوت ہو جانے سے مراد اس کا وقت مختار سے نکل جانا ہے۔
نیز ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقد فسره الاوزاعي: بفوات وقت الاختيار ، بعد أن روى هذا الحديث عن نافع، قال الأوزاعي : وذلك أن ترى ما على الأرض من الشمس مصفرًا(فتح الباری لابن رجب :۴/۲۹۳)اوزاعی رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر ’وقت مختار کے فوت‘ ہو جانے سے کی ہے، جیسا کہ وہ نافع سے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ صلاۃ عصر کے فوت ہو جانے سے مراد یہ ہے کہ :’’ تم زمین پر سورج کی زردی دیکھنے لگو۔‘‘
جبکہ ابن ابی حاتم کہتے ہیں:
سألت أبي عن حديث رواه الوليد، عن الأوزاعي، عن نافع، عن ابن عمر، قال : قال رسول الله – ﷺ -: ” من فاتته صلاة العصر – وفواتها : أن تدخل الشمس صفرةٌ – فكأنما وتر أهله وماله “؟ فقال أبي: التفسير من قول نافع (البحر المحيط الثجاج فی شرح صحيح الإمام مسلم بن الحجاج للأثيوبي:۱۳/۵۴۶) میں نے اپنے والد سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا جسے ولید نے اوزاعی سے،اوزاعی نے نافع سے اور نافع سے ابن عمر نے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس کی عصر کی نماز فوت ہو گئی – اور اس کے فوت ہونے سے مراد یہ ہے کہ سورج میں زردی داخل ہو جائے – تو گویا کہ اس کے اہل وعیال اور مال سب کچھ تباہ ہو گئے۔‘‘ تو میرے والد نے کہا کہ یہ تفسیر نافع کا قول ہے۔
مگر راجح – واللہ اعلم – یہ تفسیر اوزاعی رحمہ اللہ ہی کی ہے۔
جیسا کہ امام عراقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وظاهر إيراد أبي داود في سننه أن هذا من كلام الأوزاعي، قاله من عند نفسه، لا أنه من الحديث، فإنه روي بإسناد منفرد عن الحديث عن الأوزاعي أنه قال: وذلك أن ترى ما على الأرض من الشمس صفراء(ذخيرة العقبى فی شرح المجتبى:۶/۶۵۴)ابو داؤد کا اسے اپنی سنن میں لانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اوزاعی کا قول ہے،انھوں نے یہ بات خود سے کہی ہے حدیث کا ٹکڑا نہیں ہے،اس لیے کہ اوزاعی سے حدیث کی ایک منفرد سند بھی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ صلاۃ عصر کے فوت ہونے سے مراد یہ ہے کہ : ’’تم زمین پر سورج کی زردی دیکھنے لگو۔‘‘
آگے ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وعلى تفسير الأوزاعي يكون المراد : تأخيرها إلى وقت الكراهة، وإن صلاها في وقتها المكروه(فتح الباری لابن حجر:۲/۳۱)اوزاعی کی تفسیر کی روشنی میں صلاۃ عصر کے فوت ہو جانے سے مراد یہ ہے کہ اسے وقت کراہت تک مؤخر کر دے اگرچہ وقت مکروہ میں پڑھ ہی لے۔
چنانچہ یہی دوسرا معنی ہی راجح معلوم ہوتا ہے کہ جس نے وقت مختار یعنی : سورج میں زردی آنے سے قبل عصر کی نماز نہیں پڑھی تو گویا اس کے اہل وعیال اور مال ومتاع تباہ وبرباد ہو گئے۔
اس کی تائید موطا وغیرہ میں موجود يحيى بن سعيد کے اس اثر سے ہوتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ:
إن الرجل ليصلي الصلاة وما فاتته، ولما فاتته من وقتها أعظم – أو أفضل – من أهله وماله(مؤطا :۱/۱۲، مصنف عبد الرزاق :۲/۴۷۹، سنن دارقطنی:۲/۸۱، السنن الكبرى للبيھقی:۱/۳۸۷، فتح الباری لابن رجب:۴/۲۹۴) نمازی کبھی نماز پڑھتا ہے اور اس کا وقت ختم نہیں ہوتا ۔لیکن جس قدر وقت گزر چکا ہوتا ہے وہ اس کے اہل وعیال اور مال ومتاع سے بہتر ہوتا ہے۔
ابن عبد البر کہتے ہیں:
وهَذا مَوْقُوفٌ فِي المُوَطَّأِ ويَسْتَحِيلُ أنْ يَكُونَ مِثْلُهُ رَأْيًا(التمهيد لما فی الموطأ من المعانی والأسانيد: ۲۴/۷۵) یہ موطا کے اندر موقوفا آئی ہے اور یہ بات محال ہے کہ کوئی اسے اپنی طرف سے کہے۔
سعید بن یحیی کی مذکورہ روایت (تعظيم قدر الصلاة لمحمد بن نصر المروزی:۲/۹۶۱)میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا اور (الأوسط فی السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر:۲/۳۵۷ میں) انھی (ابن عمر) سے موقوفا اور ( فتح الباری:۲/۶میں ) طلق بن حبيب سے مرسلا آئی ہے ۔
البتہ مرفوع اور موقوف روایت کلام سے خالی نہیں ہے ۔
عبرت ونصیحت:
اس حدیث کے تناظر میں ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کہیں مسلمانوں کی گرفتاری، ان کا قتل و خون اور ان کے مال و زر کا مختلف بیماریوں اور مقدمات و دفعات میں ضائع ہونا صلاۃ عصر کو کرنے کی وجہ سے تو نہیں؟
بارک اللہ ماشاءاللہ عمدہ تحریر جناب من