شعبان کی پندرہویں شب کی عبادت یا اس دن کے روزے کے تعلق سے وارد تمام روایات یا تو ضعیف ہیں یا پھر موضوع ہیں لہٰذا ان پر اپنے عبادت کی بنیاد رکھنا درست نہیں۔بعض مدعیان علم نے ایک روایت سے استدلال کرتے ہوئے پندرہویں شعبان کے روزہ کے جواز کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
عن عمران بن حصين رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال له – أو لآخر -:أصمت من سرر شعبان؟ قال: لا، قال:فإذا أفطرت، فصم يومين(صحيح بخاری:۱۹۸۳، صحيح مسلم:۱۱۶۱، سنن أبی داؤود:۲۳۲۸، مسند أحمد:۱۹۸۳۹) عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ: کیا تم نے سُرر شعبان کا روزہ رکھا؟ انھوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ گزر جائے تو دو دن روزے رکھ لو۔
آئیے سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ سرر شعبان سے کیا مراد ہے؟
اس سلسلے میں علما کرام کی تین آراء ہیں:
پہلی رائے کے مطابق اس سے مراد مہینے کے ابتدائی ایام ہیں، دوسری رائے کے مطابق اس سے مراد ایام البیض (عربی مہینہ کی۱۳،۱۴ اور۱۵تاریخیں ہیں)، جبکہ تیسری رائے یہ ہے کہ اس سے مراد مہینے کے آخری ایام ہیں۔(شرح صحیح البخاري لابن بطال:۴/۱۲۹، الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري:۹/۱۴۱-۱۴۲، فتح الباري لابن حجر:۴/۲۳۱، التوضيح لشرح الجامع الصحيح:۱۳/۴۸۷)
پہلی رائے پر کئی ایک علما نے شذوذ (ناقابل اعتبار) کا حکم لگایا ہے۔
دوسری رائے کے قائلین نے اپنے قول کی دو توجیہ بیان کی ہے:
۱۔عربی زبان میں سرر سے مراد کسی بھی چیز کا وسط یعنی درمیانی حصہ ہوتا ہے۔
۲۔چونکہ ايام البيض بھی مہینے کے وسط (درمیان) میں ہی پڑتا ہے لہٰذا سرر سے مراد أيام البيض ہی ہیں۔(إكمال المعلم:۴/۱۳۵)
تیسری رائے کے قائلین جمہور علماء کرام ہیں لہٰذا اکثر علما کے نزدیک سرر سے مراد مہینہ کے آخری ایام ہیں۔ اس قول کے قائلین اپنی رائے کی توجیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
۱۔اہل زبان اس لفظ کو کسی بھی چیز کا آخر مراد لینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
۲۔لفظ سرر در اصل يستر الهلال سے ماخوذ ہے جس کا معنی چاند کے چھپنے کے آتا ہے اور چاند مہینے کے آخری ایام میں نظروں سے اوجھل ہوتا ہے، مہینہ کے شروع یا درمیان میں نہیں۔ (التوضيح لشرح الجامع الصحيح:۱۳/۴۸۷، إكمال المعلم:۴/۱۳۴-۱۳۵)
قاضی عیاض رحمہ اللہ اس تیسرے قول کی ترجیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: نبی اکرم ﷺ کا فرمان’’جب رمضان گزر جائے تو دو دن کے روزے رکھو‘‘ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سرر سے مراد مہینہ کے آخری ایام ہیں، کیونکہ اگر ابتدائی یا درمیانی ایام ہوتے تو نبی اکرم ﷺ رمضان کے بعد قضا کا حکم نہ دیتے بلکہ اسی مہینے میں قضا کرنے کو کہتے۔ (إكمال المعلم:۴/۱۳۶)
نیز آخر الذکر رائے کی ترجیح کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اگر لفظ سرر سے مراد مہینے کا وسط یعنی ایام بیض ہوتے تو نبی اکرم ﷺدو دن نہیں بلکہ تین دن روزے رکھنے کا حکم دیتے۔
لہذا راجح یہی ہے کہ سرر شعبان سے مہینے کے آخری ایام مراد ہیں۔
کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ ماہ شعبان کے آخری ایام میں روزہ رکھنا تو منع ہے پھر اس لفظ سے ماہ شعبان کے آخری ایام کیونکر مراد ہو سکتے ہیں۔
جوابا عرض ہے کہ شارحین حدیث فرماتے ہیں کہ: نبی اکرم ﷺ نے جس شخص سے یہ سوال پوچھا تھا ممکن ہے کہ اس نے مہینے کے آخر میں روزہ رکھنے کی کوئی نذر مانی ہو یا پھر اس کی عادت ہی یہی ہو کہ وہ ہر ماہ کے آخری ایام میں روزے رکھتا ہو۔
لہٰذا مذکورہ شخص ممانعت میں داخل ہی نہیں ہوگا، کیوں کہ نبی اکرم ﷺ نے جہاں ماہ شعبان کے آخری ایام میں روزہ رکھنے سے منع کیا وہیں یہ بھی فرمایا کہ: اگر کسی کا کوئی روزہ ان ایام میں پڑ جائے تو وہ رکھ رسکتا ہے۔
اب اگر کوئی سوال کرے کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ اس شخص کا کوئی نذر کا یا عادتا رکھا جانے والا روزہ تھا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ: نبی اکرم ﷺ کا فرمان’’يا أبا فلان‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ اس شخص کے بارے میں جانتے تھے کہ اس کا کوئی روزہ ان ایام میں بنتا ہے اسی لیے خاص کر اسے مخاطب کیا۔ورنہ صیغۂ سوال عام رکھا جاتا اور یوں کہا جاتا کہ: کیا تم میں سے کسی نے سرر شعبان کا روزہ رکھا ہے؟
اب ایک اہم سوال یہ باقی رہ گیا کہ آپ ﷺنے اسے دو روزوں کی قضا کا حکم کیوں دیا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ نبی اکرم ﷺ کو اس شخص کے معاملے کی جانکاری تھی لہٰذا آپ نے اسے دو روزوں کی قضا کا حکم دیا، اگر نذر کا روزہ تھا تو واجبی طور سے اور اگر معتاد روزہ تھا تو استحبابی طور سے، خلاصہ کلام یہ کہ سرر شعبان سے مراد مہینہ کے آخری ایام ہیں جو کہ ایک سے زائد ہیں۔
لہذا علی مرزا جہلمی یا اس جیسے دوسرے حضرات کا اس لفظ سے استدلال علمی میدان میں ان کی مفلسی کی واضح دلیل ہے، کیوں کہ جن علماء نے اس لفظ سے مہینے کے درمیانی ایام مراد لیے ہیں ان کے نزدیک اس سے تین روزے ہیں نہ کہ صرف پندرہ شعبان کا روزہ۔
دوسری بات یہ حدیث مذکور ان کے دعوے کی نفی کرتی ہے کیونکہ حدیث مذکور میں ایک سے زائد روزوں کے متعلق سوال ہے لہذا اس سے صرف ایک روزہ کی دلیل نکالنا کسی بھی طور روا نہیں۔
تیسری بات یہ کہ نبی اکرم ﷺ نے ان روزوں کے فوت ہو جانے پر بعد از رمضان دو روزے رکھنے کا حکم دیا اور پندرہویں شعبان کے روزے کے قائلین اولا تو روزے کی قضا کا حکم ہی نہیں دیتے اور اگر بفرض محال وہ حکم بھی دینے لگیں تو کم از کم اتنی جرات تو نہیں کر سکتے کہ دو روزے رکھنے کا حکم دیں۔
چوتھی بات یہ کہ اگر اس لفظ سے صرف پندرہویں شعبان کا روزہ مراد ہے تو صحابہ سے لے کر محدثین کی جماعت میں سے کسی ایک نے بھی اس رائے کو بیان کیوں نہیں کیا؟
در اصل یہ اس شخص کی اپنی جعلی تفسیر ہے جس سے سادہ لوح عوام کو مغالطہ میں ڈالنا اور صحیح منہج سے انھیں بھٹکانا مقصود ہے۔
مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ جہلمی نے اپنی رائے کی تائید میں جماعت المسلمين کا حوالہ دیا جب کہ جماعت المسلمين کو اہل حدیث علماء نے گمراہ جماعت قرار دیا ہے۔
علی مرزا کا سلف صالحین کو چھوڑ کر ایک گمراہ جماعت کا حوالہ دینا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ:
۱۔اس کا اصل مقصد سلف صالحین کی مخالفت ہے خواہ اس کے لیے جتنا بھی خوار ہونا پڑے۔
۲۔مسئلہ ہذا میں اس کے پاس سلف کے کسی معتبر عالم کی رائے موجود نہیں ہے۔
گویا اس نے یہ اقرار کر لیا کہ یہ ایک نئی رائے ہے جس کی بنیاد ایک ایسی جماعت نے رکھی ہے جس کا وجود ۱۴۰۰ سال بعد ہوا اور جس پر علماء نے گمراہ ہونے کا فتویٰ صادر کیا ہے۔
علی مرزا کی حالت کچھ یوں ہے کہ بارش سے بھاگ کر پرنالہ کے نیچے کھڑا ہو گیا۔
اللہ ہمیں اس کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین
آپ کے تبصرے