میرے خیال سے مدارس کے طلبہ میں یونیورسٹیوں کی طرف جانے کا رجحان خوش آئند ہے۔ میرے خیال کے پیچھے دو بنیادی اسباب ہیں:
ا- زیادہ سے زیادہ علم کا حصول:
علم کی موجودگی ہی کسی قوم کو ترقی یافتہ بناتی ہے اور اس کا نہ ہونا ہی کسی قوم کو زوال یافتہ بناتا ہے۔ مدارس کے بعد، یونیورسٹیاں ہی حصول تعلیم کا اگلا مرحلہ ہیں، اس لیے مدارس کے طلبہ انہی کی جانب رخ کرتے ہیں۔
ب- مدارس کے فارغین میں وسیع تر سماجیت کا فروغ:
اس سے میری مراد یہ ہے کہ مدارس میں کم و بیش ایک ہی قسم کا ماحول ہوتا ہے: ایک ہی مذہب، ایک ہی مسلک، ایک ہی زبان، ایک ہی لباس، ایک ہی طرز معاشرت وغیرہ وغیرہ۔ اس کی وجہ سے، مدارس کے طلبہ مذہبی، مسلکی، لسانی، تہذیبی وغیرہ اعتبارات سے ایک ‘محفوظ علاقہ’ میں رہتے ہیں، جہاں ان کی حالت موجودہ کو کوئی خاطر خواہ چیلنج نہیں ملتا ہے۔ اس کی وجہ سے، ان کی دنیا باہر کی دنیا سے مختلف ہوتی ہے اور ان میں باہر کی دنیا کا سامنا کرنے کے لیے مناسب صلاحیتیں پروان نہیں چڑھ پاتی ہیں۔
یونیورسٹیوں میں جانے کے بعد، ماحول کی تعددیت انھیں قدم قدم پر چیلنج کرتی ہے اور وہ “تہذیبی صدمہ” کی زد میں ہوتے ہیں۔ اس “تہذیبی صدمہ” اور دیگر نظریاتی و عملی چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے وہ مختلف صلاحیتوں کو اپنے اندر پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی سطح پر اپنا تشخص برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی کامیاب ہو پاتے ہیں اور کبھی ناکام ہوجاتے ہیں۔۔۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ مدارس کے طلبہ میں یونیورسٹیوں کی طرف جانے کا رجحان کیوں پیدا ہوا؟ اس کے دو خاص اسباب ہیں:
ا- معاشی صورتحال:
مدارس کے فارغین ہوں یا غیر مدارس کے فارغین، ہر ایک کو ‘متوسط معیاری زندگی’ گزارنے کا حق ہے۔ اچھا کھانا، اچھا لباس، اچھی رہائش، اچھی صحت اور اچھی تعلیم ہر فرد کا بنیادی حق ہے۔ کیا ‘صرف مدارس’ کی تعلیم کی بنیاد پر ‘اکثر فارغین’ کو ایک ‘متوسط معیاری زندگی’ گزارنے کے سامان فراہم ہو جاتے ہیں؟ یہ سچ ہے کہ یونیورسٹیوں میں پڑھ لینے کے بعد بھی اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے، لیکن یونیورسٹیاں اس محاذ پر خصوصی توجہ دیتی ہیں اور ان کی پڑھائی تعلیمی امور کے ساتھ ساتھ معاشی امور پر بھی توجہ دیتی ہے۔ مزید برآں فارغین مدارس کے لیے، یونیورسٹیاں مدارس کے بعد کا مرحلہ ہیں، اس لیے وہ اپنی حالت کی بہتری کے لیے اسی جانب رخ کرتے ہیں۔ اگر حقیقت میں یونیورسٹیوں میں جانے کے بعد وہ معاشی طور پر مستحکم ہوتے ہیں، تو کم از کم معاشی طور پر ‘تلاش راہ کا عمل’ رک جاتا ہے، اور اگر وہاں جانے کے بعد بھی وہ معاشی طور پر مستحکم نہیں ہو پاتے ہیں، تو ان کی تلاش جاری رہتی ہے۔۔۔بالکل انسانی جبلت کی طرح! آپ کے پاس دوبارہ وہ تبھی آئیں گے جب آپ ان کو ‘مناسب معاشی معاوضہ’ دیں گے، ورنہ اللہ کی زمین حلال کمائی کے دیگر طریقوں اور دین کی خدمت کے دیگر طریقوں دونوں کے لیے کشادہ ہے۔
ب- عزت نفس:
مساجد و مدارس میں عزت نفس کا خیال رکھنے کی طرف بہت کم توجہ ہوتی ہے۔ خود مساجد و مدارس کے ذمہ داران، علماء کرام کو ایک ‘فقیر ملازم’ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ بھارتی سلفی معاشرہ بھی انھیں فقراء و مساکین سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔۔۔آپ پیسہ بھی نہیں دو گے اور عزت بھی نہیں، تو کس کو پڑی ہے ‘گھن چکر’ بننے کی۔۔۔فی الحال جو لوگ مساجد و مدارس میں ہیں، وہ یا تو دین سے حد درجہ محبت رکھتے ہیں، اس لیے سب کچھ پی جاتے ہیں، یا پھر مجبوری میں وہاں پڑے ہیں، یا یہ دونوں عوامل ایک ساتھ پائے جاتے ہیں۔ کچھ بھی ہو، مساجد و مدارس میں جو علماء کرام ہیں وہ لائق تحسین ہیں اور حد درجہ اعزاز و اکرام کے مستحق ہیں۔ اس لیے کہ پیسہ اور عزت نفس کے بغیر صرف دین کی محبت کی خاطر سرگرم عمل رہنا بڑے دل گردے کا کام ہے، إن ذلك لمن عزم الأمور! میرا سلام!
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یونیورسٹیوں میں پڑھ لینے کے بعد اور مساجد و مدارس کے علاوہ دیگر میدان عمل میں سرگرم ہونے کے بعد، ان کو عزت نفس مل پاتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں بھی “تلاش پیہم” کا وہی کلیہ منطبق ہوتا ہے جو معاشی صورتحال کے تعلق سے منطبق ہوتا ہے۔ عزت نفس کی خواہش ہر فرد کی طبیعت میں ودیعت ہے اور یہ اس کا بنیادی حق بھی ہے۔ ایک جگہ عزت نفس نہ مل جانے پر انسان، تلاش کی استطاعت و وسائل مہیا ہونے کی شرط پر، دوسری جگہ اس کی تلاش کرتا ہے۔ اس کی یہ تلاش جاری رہتی ہے یہاں تک کہ اسے عزت نفس مل جائے یا موت اس کو دبوچ لے۔ اس لیے پہلی جگہ پر عزت نفس نہ ملنے کی صورتحال کو دوسری جگہ بھی عزت نفس نہ ملنے کی صورتحال سے رد کرنا اور یہ توقع رکھنا کہ دوسری جگہ بھی عزت نفس نہ ملنے پر وہ پہلی جگہ پر لوٹ آئے گا اور عزت نفس کی پہلی صورتحال سے سمجھوتہ کر لے گا، سراسر نادانی اور انسانی طبیعت و نفسیات نہ سمجھ پانے کا نتیجہ ہے۔ اگر کوئی اس کو پہلی جگہ پر لانا چاہتا ہے تو اسے عزت نفس دینی پڑے گی۔۔۔دوسرا کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔۔۔
ہاں، ایک بات اور! یہ کہنا کہ دین کی خاطر عزت نفس کی قربانی دے دینی چاہیے! اس سادگی پر مجھے کچھ زیادہ نہیں کہنا ہے۔ صرف یہ یاد رکھیے کہ حصول عزت نفس ایک بنیادی انسانی، قانونی اور اخلاقی حق ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بنیادی دینی حق بھی ہے۔ اس لیے، “دینی قلعہ” کا پاسبان ہونے کا دعوی کرتے ہوئے بھی آپ کسی کی عزت نفس کی قربانی چاہتے ہیں، تو آپ اپنے دعوی اور اس دعوی کی بنیاد پر دینی مطالبہ کی دینیت کی جانچ کر لیجیے۔ ایک بات اور! عزت نفس کا یہ مطالبہ آپ سے ہے، دیگر قوموں یا اعداء سے نہیں ہے کہ آپ قرون اولی کے واقعات کے سہارے خلط مبحث کا شکار ہو جائیں یا کریں اور/یا ‘جذباتی بلیک میل’ پر اتر آئیں!
3- اب آتے ہیں مدارس کے بنیادی مقصد کی طرف۔ یہ درست ہے کہ “مدارس کا بنیادی مقصد مسلم معاشروں کو علماء، محدثین، فقہاء، ائمہ فراہم کرنے کا تھا۔” الحمد للہ، مدارس اب بھی یہ کام خوبی و خامی کے ساتھ کر ہی رہے ہیں۔ شاید مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مدارس کے طلبہ یونیورسٹیوں کی راہ پکڑ رہے ہیں کیونکہ میرے خیال سے علماء کرام کی موجودہ تعداد ہی عددی طور پر مساجد و مدارس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ اصل مسئلہ شاید یہ ہے کہ مدارس کے اچھے طلبہ یونیورسٹیوں کی طرف جا رہے ہیں جس کی وجہ سے معیار مجموعی طور پر گر رہا ہے۔
اچھے طلبہ یونیورسٹیوں کی طرف کیوں جا رہے ہیں، اس کے دو بنیادی اسباب میں اوپر بیان کر چکا ہوں۔ تیسرا سبب جو دونوں اسباب کی اقتصادی توجیہ ہے وہ یہ ہے: معاشرہ میں ‘مساجد و مدارس’ کی ضروریات سے زیادہ علماء کا ہونا۔ اس کی وجہ سے ‘لاء آف سپلائی اینڈ ڈیمانڈ’ اپنا کام کرتا ہے، اور مساجد و مدارس میں موجود لوگوں کی موجودہ صورتحال اور دیگر لوگوں کی دیگر راہوں کو تلاش کرنے اور اختیار کرنے کا سبب بنتا ہے۔
اب رہا معاملہ امت کو اچھے علماء اور دعاۃ کی قلت کا، تو اس کا حل بہت آسان ہے۔ ہم کو صرف کام کرنے کا طریقہ بدلنے کی ضرورت ہے:
حقیقت یہ ہے کہ مدارس کے طلبہ کو یونیورسٹیوں کی جانب جانے سے نہیں روک سکتے ہیں اور نہ ہی ان کو روکنا مناسب ہے۔ کیوں نہیں روک سکتے ہیں؟ یہ آپ مجھ سے زیادہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ روکنا اس لیے مناسب نہیں ہے کیونکہ، اولا، علم کے حصول سے کسی کو بھی روکنا مناسب نہیں ہے؛ ثانیا، روکنا اس لیے بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ اگر روکنا ہی تھا تو مدارس کا یونیورسٹیوں کے ساتھ الحاق اور مدارس کی اسناد کو یونیورسٹیوں سے تسلیم کروانے کا کیا مطلب ہے؟
اب آئیے کام کی بات کرتے ہیں:
بنیادی ذہنی تبدیلی:
مدارس سے یونیورسٹی چلے جانے والے طلبہ کو “اچھوت” نہ سمجھا جائے، انھیں اپنا ہی سمجھا جائے اور قوم کی تعمیر و ترقی میں ایک حصہ دار۔ یہ سوچ لے کر آگے بڑھیے اور کچھ کام کیجیے:
1- موجودہ دور میں مدارس کی “مذہبی یک رنگی” کو ایسی “مذہبی تعددیت” میں بدلنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا، جہاں مختلف مذاہب کے لوگ بھی تعلیم حاصل کر سکیں، گوکہ کچھ مدارس کی ابتدائی تاریخ میں ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ داخلہ اور/یا عمومی سلوک -تعلیم اور اس کے منھج کی بات نہیں ہو رہی ہے- کی سطح پر مسلکی اعتبار سے بھی ‘امتیازات’ روا رکھنے والے مدارس دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اصولی طور پر ہی سہی اپنے یہاں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے پائیں گے یا نہیں اور یہ اجازت عملی، مطلوب اور کارگر ہے یا نہیں، فی الحال اس پر بحث کرنا بے سود ہے۔۔۔
مدارس اپنی موجودہ مذہبی، مسلکی، لسانی اور معاشرتی شناخت برقرار رکھتے ہوئے بھی وسیع تر ماحول کو نظر میں رکھتے ہوئے کم از کم دو بنیادی کام کر سکتے ہیں:
ا- نصاب تعلیم میں دینی علوم کے ساتھ رائج الوقت زبان/زبانوں اور کم از کم سماجی و انسانیاتی علوم کے لیے گنجائش نکالنی چاہیے۔ لیکن چونکہ یہ آج کا مطالبہ نہیں ہے اور اس کو جزئی یا کلی طور پر مدارس نے مانا اور نافذ بھی کیا ہے، اس لیے اس پر حد درجہ اصرار کیے بغیر، معاملہ کو ذمہ داران کی صوابدید پر چھوڑتے ہوئے اور حالت موجودہ کو حقیقت تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہوں۔
ب- مدارس جائز حدود میں رہتے ہوئے اپنے طلبہ کو مختلف پروگراموں کی مدد سے باہر کی بدلتی دنیا سے روشناس کرا سکتے ہیں۔ دینی، سماجی، سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی سطح پر دنیا میں وقوع پذیر ہو رہی تبدیلیوں سے روشناس اور عملی نہ سہی کم از کم نظریاتی سطح پر ان کے ساتھ طریقہ تعامل سے واقف طلبہ یونیورسٹیوں یا دیگر مختلف ماحول میں جاکر کم از کم نظریاتی سطح پر “تہذیبی صدمہ” سے دوچار نہیں ہوں گے، تشنجاتی اور غیر منظم رد عمل پیش نہیں کریں گے اور نہ ہی ماحول سے مبہوت ہو کر اس کے دھارے میں بہیں گے۔ کہنے کو تو یہاں بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ موجودہ ماحول کو پیش نظر رکھتے ہوئے مدارس میں طلبہ کی نظریاتی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ میں بھی مانتا ہوں کہ کم و بیش یہ کام ہوتا ہے۔۔۔لیکن اس نظریاتی ذہن سازی اور میری مجوزہ ذہن سازی میں فرق ہے۔ فی الحال مدارس میں ذہن سازی کا سارا دارومدار صرف ‘تقبیح نظریات’ کے پہلو پر ہوتا ہے، ‘تقبیح نظریات’ کے بعد کے مرحلہ پر نہیں۔ یہ آدھا ادھورا عمل ہمیں فائدہ کے بجائے نقصان پہنچا رہا ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں طلبہ کے ذہن میں صرف یہ پیغام بیٹھتا ہے کہ فلاں فلاں نظریہ اور اس کے حاملین سے دور رہنا ہے۔ یہ طریقہ عمل زیادہ سے زیادہ دفاعی ہے اور اس کا سہارا پہلے باطل نظریات اسلام اور مسلمانوں سے بچنے کے لیے لیتی تھیں۔ ہم کب سے شعوری یا لاشعوری طور پر باطل نظریات کے ہتھکنڈے اپنانے لگے، شاید اس کی تعیین کے ساتھ ہی ہمارے زوال کے شروعات کی تعیین ہو جائے گی۔
قصہ مختصر یہ کہ ہماری ذہن سازی دفاعی نہیں ہجومی، اثر پذیری نہیں اثر اندازی اور بے اعتمادی نہیں خود اعتمادی کی بنیادوں پر مرتب ہونی چاہیے، کیونکہ دشمن کو اپنے گھر میں لڑنے دینے والا کچھ نہ کچھ نقصان ضرور اٹھاتا ہے۔۔۔
1- یونیورسٹیوں میں چلے جانے والے طلبہ کو مدارس سے جوڑے رکھنے کے لیے انتظامات کیے جائیں، بدلتے ماحول میں ان کی رہنمائی کی جائے اور مدارس کے بنیادی مقاصد کے تئیں ان کو وفادار بنائے رکھا جائے۔
2- یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے کے بعد ان کی خدمات حاصل کی جائیں۔ اس کے لیے، مناسب معاشی معاوضے دیے جائیں اور عزت نفس کا خیال رکھا جائے۔ اس سے کم از کم تین انقلابی تبدیلیاں پیدا ہوں گی:
ا- مساجد و مدارس میں پہلے سے موجود لوگ بھی معاشی و نفسیاتی طور پر مضبوط ہوں گے.
ب- مدارس و یونیورسٹیوں اور ان کے طلبہ و اساتذہ کے درمیان مثبت تعلقات پیدا ہوں گے اور فائدہ مند تعلیمی لین دین کی فضا قائم ہوگی۔
ج- قوم کا دماغی سرمایہ کلی طور پر قوم ہی کے پاس رہے گا۔ ہمارے پاس اس کی ایک روشن مثال ہے۔۔۔ وہ نیر تاباں جس کا نام تھا مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔ آپ نے جامعہ سلفیہ کی خدمت کرنے کے لیے یونیورسٹی کی ملازمت کو ٹھوکر مار دی تھی۔۔۔۔انھوں نے کیا خدمات انجام دیں؟ یہ بھی بتانا پڑے گا؟
4- مدارس کے جو فارغین یونیورسٹیوں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد بھی مساجد و مدارس میں نہ آکر عصری میدان میں چلے جائیں، ان کو بھی اپنا سمجھا جائے اور ان سے کام لینے کے طریقے تلاش کیے جائیں۔ وہ بھی ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں۔ وہ جس میدان میں رہیں گے مدارس کی چھاپ لے کر جائیں گے اور اپنے ماحول پر اثر انداز ہوں گے۔
5- قوم کو علماء، محدثین، فقہاء وغیرہ کے ساتھ دینی و ملی شعور رکھنے والے قائدین کی بھی ضرورت ہے۔ مدارس و یونیورسٹیوں کے یہ فارغین یہ کام اچھی طرح کر سکتے ہیں۔ مدارس کو ان سے استفادہ کرنے کے مواقع تلاش کرنے چاہئیں اور تعلقات کی ڈوری کو بدگمانی کی بنیاد پر توڑنا نہیں چاہیے۔۔۔اگر وہ بہک بھی جائیں تو ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے، جو تعلقات کے استوار رہنے پر ہی ممکن ہے۔
6- دعوت و تبلیغ ایک مقدس فریضہ اور ایک وسیع عمل ہے جو سماج کے ہر چھوٹے بڑے پلیٹ فارم پر، شعوری یا لا شعوری ہر سطح پر، ہمہ وقت اور یہاں تک کہ بنا بولے ہوئے انجام دیا جا سکتا ہے۔ دعوت و تبلیغ کو صرف خطیبانہ و تحریرانہ میدانوں میں محدود کردینے والا نقطہ نظر حد درجہ تنگ نظری پر مبنی ہے۔ کردار اپنے تمام ناحیوں کے ساتھ سب سے کار آمد ذریعہ دعوت و تبلیغ ہے۔ دعوت و تبلیغ کے اس وسیع مفہوم پر نظر رہے گی، تو اس میدان میں تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی اور ہماری مجموعی اسٹریٹجی میں ایک دوسرے کے لیے مناسب و متکامل جزئی کردار کی تعیین آسان ہو جائے گی۔
آخر میں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہاں مساجد و مدارس کا ذکر مدارس کے فارغین کی اکثریت کے مکان عمل کے طور پر ہوا ہے اور عددی ضرورت کی تعیین مساجد و مدارس کو دھیان میں رکھ کر کی گئی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ مساجد و مدارس کے علاوہ بھی مدارس کے فارغین کے لیے عمل کے بہت سے میدان ہیں، جہاں ان کی تعداد بہت کم ہے، لیکن فی الحال وہ میدان انتہائی قلیل اور غیر منظم ہیں۔ مساجد و مدارس میں تعداد کی کثرت اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل، اور مساجد و مدارس کے علاوہ دیگر میدانوں میں تعداد کی قلت اور اس کی وجہ سے مساجد و مدارس پر بڑھتے بوجھ کی ایک توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فی الحال مدارس میں ہماری تعلیم کا محور مساجد و مدارس کے لیے ‘عاملین’ (قائدین نہیں) کی تیاری ہے۔ اس کی وجہ سے مدارس کی موجودہ تعلیم موجودہ مساجد و مدارس کی بار آور تشکیل نو اور ان کے علاوہ دیگر میدانوں کی فائدہ مند کثرت و تنظیم کے لیے درکار صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
اس لیے اگر صرف مدارس کے فارغین ہی سے کام لینا ہے اور مدارس کے فارغین کو موجود و ضروری لیکن کم توجہ پانے والے میدانوں میں لگا کر یونیورسٹیوں میں جانے سے روکنا ہے، تو مدارس کی سطح پر ہی ان میدانوں کے لیے مطلوب صلاحیتوں کی افزائش و نمو کی طرف دھیان پڑے گا، نیز مدارس کے فارغین کی مناسب معاشی و نفسیاتی ضرورتوں کو پورا کرنا پڑے گا۔ اور اگر یہ کام صرف مدارس کی سطح پر نہیں ہو پائے گا تو مدارس و یونیورسٹیوں دونوں سے فیضیاب مطلوبہ صلاحیت مند لوگوں کو ساتھ میں لینا ناگزیر ہے۔ شاید یہ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کو ساتھ میں لینے کے لیے ان کے مناسب مطالبات پر توجہ دینی پڑے گی۔ میرے خیال سے، آخر الذکر طریقہ زیادہ قابل عمل اور فائدہ مند ہے۔ لیکن اگر آپ کو اول الذکر طریقہ زیادہ بہتر لگ رہا ہے تو کر گزریں، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو!
میں اپنی بات ختم کرتا ہوں ایک مختصر جملہ کے ساتھ، جو اس طویل گفتگو کا ما حصل ہے:
توافق ہی حل ہے….
آپ کے تبصرے