مفتی طارق مسعود صاحب کے اعتراضات کے جوابات
کچھ عرصہ قبل مفتی طارق مسعود صاحب کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں موصوف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ خواتین کے سجدہ کا طریقہ مردوں سے مختلف ہے۔اس وقت میں نے اس ویڈیو سے اغماض نظر اس لیے کیا تھا کیونکہ اس مسئلے پر حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ نے کراچی کے ایک مفتی صاحب کاجامع رد لکھا تھا جو کتابی شکل میں موجود ہے۔مگر چند ایام قبل مفتی طارق صاحب کی ایک دوسری ویڈیو نظر میں آئی جس میں انھوں نے کہا کہ: ’’چونکہ اہل حدیث علماء اس بات سے واقف ہیں کہ اس مسئلے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے اس لیے ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔‘‘مفتی صاحب کے اس بیان کے بعد میں نے ایک مختصر سا جوابی رد لکھنے کا عزم کیا جس میں مفتی صاحب کے اعتراضات کے جواب کے ساتھ ساتھ فریقین کے دلائل کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہماری لغزشوں کو معاف فرمائے اور ہدایت پر قائم رکھے۔ آمین
علماء امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ بجز چند مسائل کے خواتین کا طریقہ نماز وہی ہے جو مرد حضرات کا ہے۔ البتہ ان مسائل کی تحدید میں علماء کرام کا اختلاف ہے۔انھی اختلافی مسائل میں سے زیر بحث مسئلہ – کیا خواتین کے سجدے کی کیفیت مردوں سے مختلف ہے؟ – بھی ہے۔
مسئلہ ہذا میں علماء کرام کے دو اقوال ہیں:
پہلا قول: عورت سجدہ کرتے وقت خود کو سمیٹ کر اپنے پیٹ کو ران سے ملا کرسجدہ کرے گی یعنی وہ مردوں کی طرح سجدہ نہیں کرے گی۔
اس قول کے قائل امام ابو حنیفہ(۱)، امام مالک(۲)، امام شافعی(۳)اور امام احمد(۴) رحمہم اللہ اجمعین ہیں۔
دوسرا قول: عورتوں کے سجدہ کرنے کا طریقہ مردوں کی طرح ہے لہذا وہ بھی مردوں کی طرح اپنے بازوؤں کو زمین سے اوپر اٹھا کر اور اپنے پیٹ کو ران سے الگ رکھ کر سجدہ کریں گی۔
یہ قول مذہب مالکیہ میں ایک روایت سے منقول ہے(۵) اور اسی کے قائل امام ابن حزم(۶) رحمہم اللہ ہیں۔
قول اول کے دلائل:
پہلے قول کے قائلین نے بعض احادیث اور چند اقوال صحابہ سے استدلال کیا ہے۔
پہلی دلیل:
عن يزيد بن أبي حبيب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على امرأتين تصليان فقال: “إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلى الأرض فإن المرأة ليست في ذلك كالرجل(۷)یزید بن ابی حبیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر دو عورتوں سے ہوا جو کہ حالت نماز میں تھیں، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: جب تم دونوں سجدہ کرو تو جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا کر رکھو کیوں کہ عورتیں اس (سجدہ) کے معاملے میں مردوں کی طرح نہیں ہیں۔
اس حدیث کی سند کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
خرجه أبو داود في المراسيل، وهو من أضعف المراسيل(۸)
اسے امام ابو داؤد نے’ المراسیل‘ میں بیان کیا ہے اور یہ حدیث مرسل کی سب سے ضعیف اقسام میں سے ایک ہے۔
اب کوئی حنفی یہ نہ کہے کہ مرسل حدیث ہمارے نزدیک حجت ہے اس لیے ہم اس حدیث سے استدلال کر سکتے ہیں، کیوں کہ احناف کے نزدیک حدیث مرسل کے حجت ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ کسی ایسی دلیل کے معارض نہ ہو جو اس سے زیادہ قوی ہو۔(۹)
جبکہ مذکورہ مرسل حدیث اصل شرعی اور دلائل عامہ کے مخالف ہے نیز علل منصوصہ کے ابطال کو بھی لازم ہے جس کا بیان آگے آئے گا۔ ان شاء اللہ
دوسری دلیل:
عن أبي سعيد الخدري، صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: خير صفوف الرجال الأول، وخير صفوف النساء الصف الآخر وكان يأمر الرجال أن يتجافوا في سجودهم، ويأمر النساء ينخفضن في سجودهن، وكان يأمر الرجال أن يفرشوا اليسرى، وينصبوا اليمنى في التشهد، ويأمر النساء أن يتربعن وقال: يا معشر النساء لا ترفعن أبصاركن في صلاتكن تنظرن إلى عورات الرجال(۱۰)ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مردوں کی اگلی صف سب سے بہتر ہے اور عورتوں کی آخری۔
پھر (ابو سعید الخدری) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ مردوں کو حالت سجدہ میں اپنے بازوؤں کو پھیلانے اور عورتوں کو جھکانے کا حکم دیتے تھے۔ اور مردوں کو حالت تشہد میں داہنا پاؤں کھڑا کرنے اور بائیں پاؤں کو بچھانے کا حکم دیتے تھے جب کہ عورتوں کو تربیع کا حکم دیتے تھے اور آپ ﷺ نے فرمایا: اے خواتین کی جماعت! اپنی نگاہیں حالت نماز میں اوپر نہ اٹھانا ورنہ مردوں کا ستر نظر آ سکتا ہے۔
اس حدیث کے معا بعد ہی امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واللفظ الأول واللفظ الآخر من هذا الحديث مشهوران عن النبي صلى الله عليه وسلم وما بينهما منكر والله أعلم(اس حدیث کا پہلا اور آخری جملہ نبی اکرم ﷺ سے معروف ہے جبکہ درمیان کا جملہ منکر ہے)
امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث میں موجود راوی عطاء بن عجلان کے تعلق سے فرمایا:
عطاء تركوه(۱۱)عطاء متروک ہے۔
تیسری دلیل:
عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا جلست المرأة في الصلاة وضعت فخذها على فخذها الأخرى، وإذا سجدت ألصقت بطنها في فخذيها كأستر ما يكون لها، وإن الله تعالى ينظر إليها ويقول: يا ملائكتي أشهدكم أني قد غفرت لها(۱۲)عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عورت جب نماز میں حالت جلوس میں ہو تو اپنی دونوں رانیں ایک دوسرے سے مضبوطی سے ملا لے اور جب سجدے کی حالت میں ہو تو اپنے پیٹ کو ران سے حد درجہ باپردگی سے ملا لے۔ اللہ رب العالمین ایسی عورت کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ: فرشتو! گواہ رہو کہ میں نے اس کی مغفرت فرما دی۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال أبو أحمد: أبو مطيع بين الضعف في أحاديثه، وعامة ما يرويه لا يتابع عليه قال الشيخ رحمه الله: وقد ضعفه يحيى بن معين وغيره(۱۳)
ابو احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: احادیث کے بیان کرنے میں ابو مطیع یقینی طور سے ضعیف ہے۔ اس کی بیان کردہ اکثر روایات کی متابعت نہیں کی جاتی۔
شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: امام یحییٰ ابن معین رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے تعلق سے فرمایا:
الحكم ضعفه ابن معين وغيره(۱۴)حکم کو ابن معین اور دوسرے محدثین رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مذکورہ دونوں احادیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
ورواه البيهقي من طريقين موصولين، لكن في كل منهما متروك(۱۵)امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو دو طرق سے موصولا روایت کیا ہے لیکن ان دونوں میں متروک راوی ہیں۔
چوتھی دلیل:
عن علي قال:إذا سجدت المرأة فلتحتفز، ولتلصق فخذيها ببطنها(۱۶)علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب عورت سجدہ کرے تو سکڑ جائے اور اپنی ران کو اپنے پیٹ کے ساتھ لگالے۔
امام ذہبی اس اثر کی سند کے تعلق سے فرماتے ہیں :
قلت: الحارث لين(۱۷)حارث نامی راوی ضعیف ہے۔
پانچویں دلیل:
عن يزيد بن حبيب، عن بكير بن عبد الله بن الأشج، عن ابن عباس أنه سئل عن صلاة المرأة، فقال: تجتمع وتحتفز(۱۸)ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عورت کی نماز کے تعلق سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : وہ خود کو جمع کرکے اور سکیڑ کر نماز پڑھے گی۔
بکیر بن عبد اللہ الاشج کا سماع حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت نہیں ہے۔
تعلیل سے استدلال:
جن فقہاء نے خواتین کے سمٹ کر نماز پڑھنے کا فتویٰ دیا ہے وہ اس کی علت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:چونکہ اس ہیئت میں ان کے لیے زیادہ با پردگی ہے لہذا وہ سمٹ کر نماز پڑھیں گی۔
قول ثانی کے دلائل:
دوسرے قول کے قائلین نے بھی احادیث نبویہ اور علل منصوصہ سے استدلال کیا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
پہلی دلیل:
عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:اعتدلوا في السجود، ولا يبسط أحدكم ذراعيه انبساط الكلب(۱۹)انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اعتدال کے ساتھ سجدہ کرو اور تم میں سے کوئی بھی اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح نہ پھیلائے۔
دوسری دلیل:
عن عبد الرحمن بن شبل أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن ثلاث: عن نقرة الغراب، وافتراش السبع، وأن يوطن الرجل المقام للصلاة كما يوطن البعير(۲۰)عبد الرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے تین امور سے منع فرمایا: کوے کی چونچ مارنے سے (یعنی کوے کے چونچ مارنے کی طرح جلدی نماز پڑھنے سے) اور درندے کی طرح بازو پھیلانے سے اور یہ کہ کوئی شخص مسجد اسی طرح اپنی جگہ خاص کر لے جس طرح اونٹ اپنی جگہ خاص کر لیتا ہے۔
مذکورہ احادیث سے وجہ استدلال:
سجدے میں اعتدال کا ہونا اور جانوروں کی طرح سجدہ کرنے سے اجتناب کرنے کا حکم عمومی ہے اور تخصیص کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔لہذا حدیث کے عموم کے مطابق اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔
احادیث کی تشریح میں محدثین کے اقوال:
حدیث کی شرح میں امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
المقصود من الاعتدال فيه أن يضع كفيه على الأرض ويرفع مرفقيه عنها وعن جنبيه ويرفع البطن عن الفخذ والحكمة فيه أنه أشبه فى التواضع وأبلغ فى تمكين الجبهة من الأرض وأبعد عن هيئات الكسالى فإن المنبسط يشبه الكلب ويشعر حاله بالتهاون بالصلاة وقلة الاعتناء بها والإقبال عليها(۲۱)اعتدال سے مراد یہ ہے کہ اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پر اور کہنیوں کو اس سے اوپر اور اپنے دونوں پہلوؤں سے الگ رکھے ساتھ ہی پیٹ کو ران سے بھی علیٰحدہ رکھے۔اس کی حکمت یہ ہے کہ اس ہیئت میں تواضع بھی زیادہ جھلکتا ہے اور پیشانی بھی زمین کے ساتھ مکمل طریقے سے لگی ہوتی ہے اور انسان سستی و کاہلی جیسی مذموم ہیئتوں سے دور نظر آتا ہے۔اس لیے کہ بازو بچھانے والوں کو کتو ں سے تشبیہ دی گئی ہے نیز اس ہیئت میں سستی،نماز سے بے رغبتی اور عدم توجہی جھلکتی ہے۔
امام عیاض البسستی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هى صفات الكاسل والمتراخى المتهاون بحاله، مع ما فيها من التشبيه بالسباع والكلاب(۲۲)یہ (بازوں کو بچھا کر نماز پڑھنا) سست اور لاپرواہ لوگوں کی صفات میں سے ہے ساتھ ہی یہ درندوں اور کتو ں کے مشابہ صفت ہے۔
امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لعل المراد بالاعتدال هنا وضع هيئة السجود على وفق الأمر(۲۳)اس حدیث میں وارد لفظ اعتدال کا مفہوم یہ ہے کہ: سجدہ اسی طرح سے کرنا ہے جس طرح سے شریعت میں وارد ہوا ہے۔
آگے فرماتے ہیں:
وقد ذكر الحكم هنا مقروناً بعلته، فإن التشبه بالأشياء الخسيسة مما يناسب تركه في الصلاة-انتهى. والهيئة المنهي عنها أيضاً مشعرة بالتهاون بالصلاة وقلة الاعتناء بها، والإقبال عليها. قيل: وهذا في حق الرجل لا المرأة، فإنها تخالفة في ذلك(یہاں حکم کواس کی علت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کیونکہ رذیل چیزوں سے مشابہ قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ان مور میں سے ہے جنھیں حالت نماز میں ترک کردینا چاہیے)
ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’جس ہیئت سے منع کیا گیا ہے اس سے در حقیقت نماز میں سستی و کاہلی اور بے اعتنائی جھلکتی ہے۔‘‘
’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حکم مردوں کے ساتھ خاص ہے جبکہ عورتیں ان کے بر عکس خود کو سمیٹ کر نماز پڑھیں گی۔‘‘(۲۴)
علامہ آدم الاثیوبی رحمہ اللہ امام ابن المنیر رحمہ اللہ کا قول حدیث مذکور کی شرح میں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقال ناصر الدين ابن المُنَيِّر -رحمه الله- في الحاشية: الحكمة فيه أن يظهر كل عضو بنفسه، ويتميز، حتى يكون الإنسان الواحد في سجوده كأنه عدد، ومقتضى هذا أن يستقلّ كل عضو بنفسه، ولا يعتمد بعض الأعضاء على بعض في سجوده(۲۵)امام ابن المنیر رحمہ اللہ ’الحاشيۃ‘ میں فرماتے ہیں: اس ہیئت کے ساتھ سجدہ کرنے کی حکمت یہ ہے کہ تمام اعضاء ایک دوسرے سے الگ الگ اور بالکل ظاہر ہوتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ایک نہیں بلکہ متعدد اشخاص سجدہ ریز ہیں۔ لہذا اس سے یہی لازم آتا ہے کہ تمام اعضاء الگ الگ نمایاں اور ظاہر ہوں ایک کو دوسرے کے اوپر نہ رکھا جائے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں امام ابن العربی رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قال القاضي أبو بكر بن العربي في ’ عارضة الأحوذي ‘(۲/۷۵-۷۶):
أراد به كون السجود عدلاً باستواء الاعتماد على الرجلين، والركبتين، واليدين، والوجه، ولا يأخذ عضو من الاعتدال أكثر من الآخر. وبهذا يكون ممتثلاً لقوله: أمرت بالسجود على سبعة أعظم . وإذا فرش ذراعيه فَرْشَ الكلب؛ كان الاعتماد عليهما دون الوجه؛ فيسقط فرض الوجه . انتهى
قلت: وهذا المعنى قد جاء منصوصاً عليه في حديث ابن عمر الآتي في الأصل:فإنك إذا فعلت ذلك؛ سجد كل عضو منك معك(۲۶)قاضی ابو بکر بن العربی رحمہ اللہ نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ سجدہ بایں طور معتدل ہو کہ دونوں پاؤں، گھٹنے، دونوں ہاتھ اور چہرہ یکساں طور سے زمین کے ساتھ لگے ہوں کسی ایک عضو پر دوسرے کے بالمقابل زیادہ دباؤ نہ ڈالا جائے ایسا کرنے سے ہی نبی اکرم ﷺ کے اس قول پر عمل ہو پائے گا کہ: مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور جب کوئی اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح بچھاتا ہے تو اس کے سجدے کا دار و مدار اس کے بازوؤں پر ہوتا ہے نہ کہ اس کے چہرے پر۔ اور ایسی صورت میں چہرے کا فرض ادا نہیں ہو پائے گا۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مذکورہ علت کا ذکر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اصل میں مذکور حدیث میں بھی آیا ہے:کیوں کہ جب تم اس طرح سے سجدہ کروگے تو تمھارے جسم کا ایک ایک عضو تمھارے ساتھ سجدہ کرے گا۔
تیسری دلیل:
عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:لا تبسط ذراعيك كبسط السبع، وادعم على راحتيك، وتجاف عن ضبعيك، فإنك إذا فعلت ذلك سجد كل عضو منك(۲۷)اپنے بازو درندوں کی طرح نہ پھیلاؤ اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو مضبوطی سے ٹکا لو اور اپنے پہلوؤں کو الگ رکھو کیونکہ جب تم اس طرح سے سجدہ کروگے تو تمھارے جسم کا ایک ایک عضو سجدہ کرے گا۔
چوتھی دلیل:
عن عائشة قالت: …..وكان ينهى أن يفرش أحدنا ذراعيه افتراش السبع(۲۸)عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اس بات سے منع کرتے تھے کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنے بازوں کو درندوں کی طرح سے پھیلائے۔
تنبیہ:
واضح ہو کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ایک روایت میں لفظ ’رجل‘ وارد ہوا ہے جس سے بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ یہ حکم صرف مردوں کے کے لیے خاص ہے اور عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔
پہلی بات یہ کہ اس روایت کو امام مسلم رحمہ اللہ نے متابعت میں بیان کی ہے اور بقول ان کے متابعت میں بیان کی گئی روایت میں کسی قسم کا ضعف بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ اس روایت کے اندر ہے، چنانچہ اس حدیث کی سند کے مثل ایک سند کے متعلق امام ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لكنه مرسل فإنه من رواية أبي الجوزاء، عن عائشة(۲۹)لیکن یہ مرسل ہے کیونکہ اس کی روایت ابوالجوزاء نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی سند کے تعلق سے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أخرجه مسلم وله علة(۳۰)اس حدیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے اور اس کے اندر علت پائی جاتی ہے۔
اور اس علت کے سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے ’التلخيص الحبیر‘ میں فرماتے ہیں:
وهو عنده من رواية أبي الجوزاء عنها وقال ابن عبد البر هو مرسل لم يسمع أبو الجوزاء منها(۳۱)اسے ابوالجوزاء نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، ابن عبد البر اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ یہ مرسل روایت ہے کیونکہ ابو الجوزاء کا سماع حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اسی سند کے متعلق ایک دوسرے مقام پر یوں رقمطراز ہیں:
ورجال إسناده ثقات لكن فيه انقطاع(۳۲)اس حدیث کی سند کے تمام رواۃ ثقہ ہیں البتہ یہ منقطع ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ اس حدیث کے سلسلے میں فرماتے ہیں :
والحديث مع كونه في صحيح مسلم ؛ فقد أُعِلَّ بالانقطاع(۳۳)با وجودیکہ یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے مگر انقطاع کی وجہ سے اسے معلول سمجھا گیا ہے۔
اس کے بعد علامہ البانی رحمہ اللہ نے پہلے حافظ ابن حجر پھر امام عبد البر رحمہما اللہ کے اقوال کو ذکر کیا ہے۔پھر آگے فرمایا:
وقد أشار إلى ذلك البخاري في ترجمة أبي الجوزاء؛ فقال: في إسناده نظر . قال الحافظ في التهذيب :يريد أنه لم يسمع من مثل ابن مسعود وعائشة وغيرهما، لا أنه ضعيف عنده(۳۴)امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ابوالجوزاء کے ترجمہ میں اس (انقطاع) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: یہ روای محل نظر ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’التھذیب‘ میں اس قول کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ ابو الجوزاء نے ابن مسعود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے نہیں سنا ہے، یہ مرادنہیں ہے کہ یہ راوی ضعیف ہے۔
بعد ازیں علامہ البانی رحمہ اللہ نے ایک سند ذکر کی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ابو الجوزاء نے ایک واسطہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے اور اس سند پر راوی کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف کا حکم لگایا ہے جبکہ اس روایت کو متابعت کی وجہ سے صحیح بتایا ہے۔(۳۵)
دوسری بات یہ کہ مذکورہ بالا روایات میں تین طرح کے الفاظ وارد ہوئے ہیں:
ولا یبسط أحدکم……
نهى أن یفترش أحدنا………
نهى أن یفترش الرجل……..
پہلی روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب کہ بقیہ دونوں روایات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بطریق ابو الجوزاء مروی ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول حدیث مکمل طور سے صحیح ہے جب کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول روایت کی سند پر محدثین کرام نے انقطاع کا حکم لگایا ہے اور چونکہ اس حدیث پر صحیح کا حکم، اس معنی کی دوسری صحیح حدیث کی وجہ سے لگا ہے لہذا اس کے صرف وہی الفاظ قابل حجت ہوں گے جو صحیح حدیث سے مطابقت رکھتے ہوں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا جو لفظ صحیح حدیث کے موافق ہے وہ احدنا والا لفظ ہے۔ لہٰذا اس لفظ کے علاوہ دوسرے لفظ سے استدلال درست نہ ہوگا۔
چوتھی دلیل:
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إنما النساء شقائق الرجال(۳۶)عورتیں مردوں کی مانند ہیں۔
امام خطابی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
وفيه من الفقه إثبات القياس والحاق حكم النظير بالنظير وأن الخطاب إذا ورد بلفظ الذكور كان خطابا بالنساء إلا مواضع الخصوص التي قامت أدلة التخصيص فيها(۳۷)اس حدیث کی فقہ میں سے قیاس کا اثبات اور ہم مثل اشیاء میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ (حکم میں) ملا نا (شرعا درست ) ہے اور یہ کہ جب حکم شرعی میں مردوں کو مخاطب کیا گیا ہو تو اس میں عورتیں بھی داخل ہیں سوائے ان مسائل کے جن میں دلیل خاص کے ذریعے ان کی تخصیص کر دی گئی ہو۔
علت منصوصہ کے ذریعہ استدلال :
اس قول کے قائل علماء نے دو علت منصوصہ سے بھی استدلال کیا ہے:
پہلی علت: جانوروں کی مشابہت سے اجتناب
یہ علت نبی اکرم ﷺ کی حدیث میں بھی مذکور ہے چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اس طرح اپنے بازوؤں کو نہ بچھائے جس طرح کتے (درندے) بچھاتے ہیں۔
مذکورہ تعلیل ابن دقیق رحمہ اللہ سے منقول ہے جس کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے۔
علت مذکورہ سے وجہ استدلال:
چونکہ جانوروں سے مشابہت ایک مذموم امر ہےجس سے اجتناب کر نا امت کے تمام افراد خواہ وہ مرد ہوں یا عورت ہر ایک سے مطلوب ہے۔ لہٰذا مذکورہ علت میں مرد اور عورت دونوں داخل ہیں ۔
دوسری علت: بازوؤں کو زمین سے اور پیٹ کو ران سے الگ رکھ کر سجدہ کرنے سے انسان کے جسم کے تمام اعضاء سجدہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم اس طرح سجدہ کروگے (یعنی بازوؤں کو زمین سے اوپر اور پیٹ کو ران سے الگ کر کے سجدہ کروگے) تو تمھارے جسم کے تمام اعضاء سجدہ کریں گے۔
وجہ استدلال:
نبی اکرم ﷺ نے ہمیں یہ خبر دی کہ اللہ رب العالمین نے انھیں سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا اور یہ حکم مرد اور عورت دونوں کو شامل ہے اور نبی اکرم ﷺ کی مذکورہ حدیث کے مطابق تمام اعضاء کے الگ الگ سجدہ ریز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بازوؤں کو زمین سے اوپر اٹھا کر رکھنا ہوگا اور پیٹ کو ران سے الگ کر کے رکھنا ہوگا۔
لہذا اس علت کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ خواتین بھی اپنے بازوؤں کو زمین سے اور پیٹ کو ران سے الگ رکھیں گی تا کہ ان کے بھی تمام اعضاء سجدہ ریز ہو سکیں۔
حديث نبوى کے اس جملہ کے علت ہونے کی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےبیان علت کے لیے ’فان‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے بارے میں امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإن انضم إلى إن حرف الفاء فهو آكد(۳۸)اگر ’فإن‘ کے لفظ کے ذریعے (تعلیل بیان کی جائے) تو یہ تعلیل کی بڑی موکد اقسام میں سے ایک ہے۔
مفتی طارق مسعود صاحب کے اعتراضات اور ان کے جوابات:
مفتی طارق مسعود صاحب نے اس مسئلے کو اجماعی اور تعامل امت سے ثابت شدہ مسئلہ کہا ہے۔
جواب: مفتی صاحب نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس مسئلے میں اجماع وارد ہوا ہے یا تعامل امت یا پھر وہ تعامل امت سے اجماع مراد لے رہے ہیں؟
نیز یہ کہ تعامل امت سے پوری امت کا متفقہ عمل مراد ہے یا پھر ایک طبقہ کا، اگر ایک طبقہ کا عمل مراد ہے تو یہ حجت نہیں بن سکتا اور اگر پوری امت کا اجماع مراد ہے تو یقیناً یہ اجماع کی ایک قسم ہے۔
مگر پھر اس کے بعد ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذکورہ مسئلہ میں اس نوعیت کا اجماع تھا ائمہ اربعہ میں سے کسی نے بھی اس اجماع کو بطورِ دلیل ذکر کیوں نہیں کیا؟
سوال کا پیدا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس نوعیت کا اجماع تو دلیل قطعی میں شمار کیا جاتا ہے، پھر ائمہ اربعہ نے دلیل قطعی کو چھوڑ کر علت مستنبطہ سے استدلال کرنے پر اکتفا کیوں کیا؟
نیز یہ ان کتابوں میں سے کسی ایک میں تو ضرور ہوگا جو اجماع کو ذکر کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔کوئی ایک حوالہ ہی فراہم کر دیں۔
اور جہاں تک ائمہ اربعہ کے مذہب کا معاملہ ہے تو اولا ائمہ اربعہ حجت اور دلیل نہیں ہیں، حجت اور دلیل صرف اور صرف قرآن و حدیث کے نصوص یا پھر اجماع اور اقوال صحابہ ہیں۔لہذا نصوص عامہ صریحہ کے مقابلے میں اقوال علماء پیش کرنا علمی اور شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے۔
مفتی صاحب کا کہنا کہ: چاروں ائمہ کی کتابوں میں ہے کہ عورت سمٹ کر پڑھے گی اور عدم تفریق کا مسئلہ نیا ہے۔
جواب: میں نے پہلے ذکر کیا کہ مذہب مالکیہ کا ایک قول اسی عدم تفریق کا ہے اور اسی کی صراحت امام ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی کی ہے۔ نیز غور طلب امر یہ بھی ہے کہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے فقہاء کے اس قول کو کہ ’’عورت سمٹ کر نماز پڑھے گی‘‘ صیغہ تمریض کے ساتھ ذکر کیا جو اس امر کی دلیل ہے کہ وہ اس قول کو مرجوح مانتے ہیں۔لہذا مسئلہ ہذا پر اجماع کا دعویٰ کرنا علمی امانت کے خلاف ہے۔
مفتی صاحب نے امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ اثر ’’ام الدرداء رحمہا اللہ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں‘‘ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ: ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے علاوہ دوسری عورتیں مردوں کی طرح نہیں بیٹھتی تھیں۔‘‘
جواب: مفتی صاحب نے یہاں مفہوم مخالف سے استدلال کیا ہے اور یقینا انھیں یہ معلوم ہوگا کہ احناف کے نزدیک مفہوم مخالف حجت نہیں ہے، لہذا مفتی صاحب کے لیے روا نہیں کہ وہ اپنے مذہب کے اصول کی مخالفت کریں۔(۳۹)
مفتی صاحب نے حج کے بعض مسائل ذکر کر کے یہ ثابت کرنے کو کوشش کی ہے کہ جس طرح اُن مسائل میں عورتوں کا طریقہ مردوں سے الگ ہے اسی طرح سجدے کی ہیئت میں بھی۔مفتی صاحب کے بقول جس طرح خواتین کے بارے میں دوران طواف رمل کرنے ، دوران سعی دوڑنے اور با آواز بلند تلبیہ پڑھنے سے ممانعت کے سلسلے میں کو ئی بھی حدیث وارد نہ ہونے کے باوجود بھی علما انھیں ان امور سے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ وہ عورت ہے اس لیے یہ امور اس کے لیے مناسب نہیں ہے بالکل اسی طرح سجدے کی ہیئت میں بھی عورتوں کا مردوں کی طرح سجدہ کرنا عورت پن کے خلاف ہے لہٰذا وہ مردوں کی مخالفت کریں گی ۔
جواب: بڑی عجیب بات ہے کہ مفتی صاحب نے وہاں تو اجماع سے دلیل لی جہاں اجماع کا وجود ہی نہیں مگر جس مسئلے میں اجماع پایا جاتا ہے وہاں اس کا ذکر تک نہیں کیا اور صرف حدیث طلب کر کے بات ختم کر دی۔جبکہ ذرا پہلے انھوں نے خود عوام کو یہ سمجھایا کہ ہر مسئلے میں واضح نص کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اجماع بھی ایک دلیل ہے ، مگر یہاں اس اجماع کا ذکر تک نہیں کیا۔
محترم قارئین! خواتین کا رمل نہ کرنا، دوران سعی دوڑ نہ لگانا اور تلبیہ پست آواز سے پڑھنا یہ تمام امت کے اجماعی مسائل ہیں جن کی مخالفت قطعا روا اور جائز نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم ان مسائل میں خواتین کو مردوں سے الگ سمجھتے ہیں۔
چنانچہ ابن منذر رحمہ اللہ نے خواتین کے رمل نہ کرنے اور صفا و مروہ کے درمیان دوڑنے کی ممانعت پر اجماع نقل کرتے ہوئے فرمایا:
وأجمعوا ألا رمل على النساء حول البيت ولا في السعي بين الصفا والمروة(۴۰)علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورتوں پر طواف کعبہ کے دوران رمل کرنا نہیں ہے اور نہ ہی ان پر صفا و مروہ کے درمیان کا دوڑ لگانا ہے۔
اس اجماع کو ابن عبد البر اور ابن بطال رحمہما اللہ نے بھی ذکرکیا ہے۔نیز اس مسئلے میں صحابہ کرام کے اقوال بھی موجود ہیں جو ان کے درمیان منتشر اور غیر مختلف فیہ تھے۔ اور جب کسی صحابی کا کسی مسئلے میں کوئی قول معروف و مشہور ہو اور اس کا کوئی مخالف بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں بالاجماع قول صحابی حجت ہوتاہے۔ جیساکہ مذکورہ مسئلہ میں ہے۔(۴۱)
چنانچہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
ليس على النساء رمل بالبيت، ولا بين الصفا والمروة(۴۲)طواف کعبہ کے دوران عورتوں پر رمل نہیں ہے اور نہ ہی صفا اور مروہ کے درمیان کی دوڑ ہے۔
ہشام ابن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خواتین کی جماعت کو مخاطب کر کے کہا:
يا معشر النساء ليس عليكن رمل بالبيت لكن فينا أسوة(۴۳)اے عورتوں کی جماعت! تمھارے اوپر طواف کعبہ کے دوران رمل نہیں ہے، تمھارے لیے ہمارے عمل میں نمونہ ہے۔
خواتین کا دھیمی آواز سے تلبیہ پڑھنے سے متعلق امام ابن عبد البر رحمہ اللہ اجماع نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأجمع أهل العلم أن السنة في المرأة أن لا ترفع صوتها وإنما عليها أن تسمع نفسها فخرجت من جملة ظاهر الحديث وخصت بذلك وبقي الحديث في الرجال(۴۴)اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ اپنی آواز (تلبیہ میں) اتنی پست رکھے گی کہ صرف اسے ہی سنائی دے۔ لہذا عورت اس حدیث کے عموم میں داخل نہیں ہوگی کیونکہ اجماع نے اس کی تخصیص کر دی ہے۔ البتہ حدیث مردوں کے سلسلے میں عام ہے۔
رہا مفتی صاحب کا یہ کہنا کہ عبادت میں عورت کا عورت پن جھلکنا چاہیے کیونکہ وہ عورت ہے۔
تو جواباً عرض ہے کہ عورت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک مسلمان بھی ہے لہذا مسلمان ہونے کے ناطے اس سے یہ بھی مطلوب ہے کہ دلائل شرعیہ کے مطابق اپنے اعمال انجام دے نہ یہ کہ عورت ہونے کی وجہ سے وہ دلائل شرعیہ کی پابندی سے آزاد ہے۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جن امور میں عورت کا عورت پن جھلکنا چاہیے شریعت نے ان تمام کو دلائل خاص کے ذریعے بیان کر دیا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ عورتوں کے لیے بلا دلیل نئے احکامات گھڑنا شریعت سازی کے زمرے میں آجائے۔
ترجیح:
اس مسئلہ میں راجح موقف یہی معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کے سجدے کا طریقہ وہی ہے جو مرد حضرات کا ہے۔
اسباب ترجیح:
(۱) شریعت کا مسلم قاعدہ ہے کہ حکم شرعی اگر مذکر کے صیغے کے ساتھ وارد ہوا ہے تو اس میں خواتین بھی داخل ہوتی ہیں لہذا انھیں اس حکم سے مستثنٰی کرنے کے لیے دلیل خاص کی ضرورت ہوتی ہے اور تخصیص یا تو قرآن و حدیث کے ذریعہ ہوتی ہے یا پھر اجماع سے۔
اور مسئلہ ہذا میں خواتین کے سجدے کی کیفیت کے الگ ہونے کی کوئی خاص دلیل صحیح سند سے منقول نہیں ہے۔
(۲)پہلے قول کے قائلین کے تمام دلائل باعتبار سند ضعیف ہیں لہذا وہ حجت نہیں بن سکتے جب کہ دوسرے قول کے قائلین نے جن احادیث سے استدلال کیا ہے وہ سب یا تو صحیح یا پھر حسن درجہ کی ہیں۔
(۳)جس علت کی بنیاد پر پہلے قول کے قائلین نے عورتوں اور مردوں کی نماز میں فرق کیا ہے وہ علت مستنبطہ ہے جبکہ وہ علماء جو عدم تفریق کے قائل ہیں ان کی علت علت منصوصہ ہے۔ لہٰذا یہاں حکم کی بنیاد علت منصوصہ پر رکھی جائے گی۔
کیوں کہ جب نبی اکرم ﷺ خود کسی حکم کی ایک علت بیان کریں تو اس کے مقابلے میں علماء کی بیان کردہ علت کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
(۴)شریعت نے اپنے ماننے والوں کو جانوروں کی مشابہت سے عموماً اور عبادات میں خصوصاً بلا تفریق مرد و زن منع فرمایا ہے۔
لہذا یہ کہنا کسی بھی طور سے مناسب نہیں کہ عورتیں مردوں کی مخالفت کریں اور جانوروں کی موافقت۔
(۵)حضرت انس اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں وارد لفظ ’’كان ينهى أن يفترش أحدنا…‘‘ یعنی ہم میں سے ہر ایک کو نبی اکرم ﷺ نے بازوؤں کے بچھانے سے منع کیا، اس بات کی دلیل ہے کہ اس حکم میں مرد اور عورت سبھی داخل ہیں کیونکہ دونوں صحابی نے بلا کسی استثناء کہا کہ: ’’ہم میں سے ہر ایک کو منع کیا‘‘ حتی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہاں بھی خواتین کو مستثنیٰ نہیں کیا بلکہ ممانعت میں اپنی ذات کو بھی شامل کیا۔
مفتی صاحب نے عورتوں کے سجدے کی ہیئت کی تفریق کے لیے حج کے جن مسائل کا سہارا لیا ان تمام مسائل میں عورتوں کے لیے دلیل خاص موجود ہے جیسا کہ اس کا بیان گزر چکا ہے۔
البتہ مسئلہ ہذا میں ایسی کوئی دلیل نہیں جو عورتوں کو شریعت کے عمومی حکم سے الگ کرے اور اصولی قاعدہ ہے کہ جب تک دلیل خاص وارد نہ ہو تب تک عام کی تخصیص جائز نہیں۔
حواشی:
۱) البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (۱/۳۳۹)، اللباب في شرح الكتاب (۱/۷۰)
۲) الفواكه الدواني على رسالة ابن أبي زيد القيرواني (۱/۱۷۹)، الذخيرة للقرافي(۲/۱۹۱-۱۹۳)
۳) الأم للشافعي (۱/۱۳۸)
۴) مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني (ص:۷۵)، الروض المربع شرح زاد المستقنع (ص:۹۴-۹۵)
۵) الذخيرة للقرافي (۲/۱۹۱-۱۹۳)، شرح ابن ناجي التنوخي على متن الرسالة(۱/۱۶۱)، المختصر الفقهي لابن عرفة(۱/۲۶۵)
۶) المحلى بالآثار (۳/۳۷-۳۸)
۷) المراسيل لأبي داود (ص:۱۱۷)۸۷، معرفة السنن والآثار (۳/۱۴۳)،۴۰۵۴، السنن الكبرى للبيهقي (۲/۳۱۵)،۳۲۰۱
۸) المهذب في اختصار السنن الكبير:۲/۶۶۲ للذهبي:۲۸۴۴
۹) شرح مسند أبي حنيفة:۱
۱۰) السنن الكبرى للبيهقي:۲/۳۱۴(۳۱۹۸)
۱۱) المهذب في اختصار السنن الكبير للذهبي: (۲/۶۶۲)،۲۸۴۲
۱۲) السنن الكبرى للبيهقي:۲/۳۱۵(۳۱۹۹)
۱۳) السنن الكبرى للبيهقي:۲/۳۱۵(۳۲۰۰)
۱۴) المهذب في اختصار السنن الكبير للذهبي:۲/۶۶۲(۲۸۴۳)
۱۵) التلخيص الحبير:۲/۶۸۷
۱۶) مصنف عبد الرزاق الصنعاني:۳/۱۳۸،۵۰۷۲، السنن الكبرى للبيهقي:۲/۳۱۴،۳۱۹۷، مصنف ابن أبي شيبة:۱/۲۴۱،۲۷۷۷
۱۷) المهذب في اختصار السنن الكبير:۲/۶۶۲ للذهبي:۲۸۴۱
۱۸) مصنف ابن أبي شيبة:۱/۲۴۱،۲۷۷۸
۱۹) صحيح البخاري:۵۳۲/۸۲۲، صحيح مسلم:۲۳۳/۴۹۳، سنن أبي داؤود:۸۹۷، سنن الترمذي:۲۷۶، سنن النسائي:۱۰۲۸،۱۱۰۳،۱۱۱۰، سنن ابن ماجة:۸۹۲، مسند أحمد:۱۲۰۶۶، ۱۲۱۴۹، ۱۲۸۱۲، ۱۲۸۴۰، ۱۳۰۹۱، صحيح ابن حبان:۱۹۲۶
۲۰) سنن أبي داؤود:۸۶۲، سنن النسائي:۱۱۱۲، سنن ابن ماجة:۱۴۲۹، صحيح ابن حبان:۲۲۷۷ قال الألباني: حسن لغيره – المشكاة:۹۰۲، الصحيحة:۱۱۶۸، صحيح أبي داود:۸۰۸، التعليق الرغيب:۱/۱۸۱، التعليق على ابن خزيمة:۱/۳۳۱
۲۱) الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري:۴/۱۸۵
۲۲) إكمال المعلم بفوائد مسلم:۲/۴۰۷
۲۳) مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:۳/۲۰۷
۲۴) مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:۳/۲۰۷
۲۵) ذخيرة العقبى في شرح المجتبى:۱۳/۳۲۳
۲۶) أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم:۲/۷۵۵
۲۷) صحيح ابن حبان:۱۹۱۴، صحيح ابن خزيمة:۶۴۵، المستدرك:۸۲۷، وحسنه الألباني في صحيح ابن خزيمة و صَحِيح الْجَامِع:۶۶۵، والإرواء تحت حديث:۳۷۲
۲۸) صحيح مسلم:۲۴۰(۴۹۸)، صحيح ابن حبان – محققا:۵/۶۵، المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم:۲/۱۰۷
۲۹) البدر المنير:۳/۵۳۳
۳۰) بلوغ المرام من أدلة الأحكام:ص۸۰
۳۱) التلخيص الحبير ط العلمية:۱/۵۳۷
۳۲) التلخيص الحبير ط العلمية:۱/۵۵۹
۳۳) أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم:۱/۱۷۷
۳۴) أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم:۱/۱۷۸
۳۵) أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم:۱/۱۷۸، إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل:۲/۲۱
۳۶) سنن أبي داود:۱/۶۱(۲۴۶)
۳۷) معالم السنن:۱/۷۹
۳۸) روضة الناظر:۲/۵۷۷
۳۹) التقرير والتحبير:۱/۱۱۷، فتح القدير للكمال ابن الهمام:۸/۱۷۱
۴۰) الإجماع لابن المنذر:۱/۵۵، رقم المسألة:۱۶۹، التمهيد:۲/۷۸، شرح صحيح البخاري لابن بطال:۴/۲۸۸
۴۱) مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیں: أصول السرخسي:۴/۱۰۵-۱۱۴، مسلم الثبوت وشرحه:۲/۱۸۸، التقرير والتحبير:۲/۳۱۰، إعلام الموقعين:۳/۳۸۱، الخراج:۸۳، مالك لأبي زهرة:۳۰۸-۳۱۸، إعلام الموقعين:۳/۳۷۹-۳۸۱، الشافعي لأبي زهرة:۳۰۱-۳۱۱، إجمال الإصابة في أقوال الصحابة:۴۱-۴۲، ۴۴-۴۵
۴۲) سنن الدارقطني:۳/۳۶۵،۲۷۶۶، السنن الكبرى للبيهقي:۹/۵۶۳، رقم الحديث:۹۳۵۸، الشافعي في الأم:۲/۱۹۲، أبو داؤود في مسائل أحمد:۱۱۴، مصنف ابن أبي شيبة:۳/۱۵۰، رقم الحديث:۱۲۹۵۲، معرفة السنن والآثار:۷/۲۲۹، رقم الحديث:۹۸۹۴، ما صح من آثار الصحابة في الفقه:۲/۸۰۷
۴۳) السنن الكبرى للبيهقي:۵/۱۳۷-۹۲۸۷، مصنف ابن أبي شيبة:۳/۱۵۰-۱۲۹۵۱، معرفة السنن والآثار:۷/۲۲۹-۹۸۹۶۔ یہ اثر تین مختلف طرق سے مروی ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (ما صح من آثار الصحابة في الفقه:۲/۸۰۷)
۴۴) الاستذكار:۴/۵۷، التمهيد:۱۷/۲۴۲
آپ کے تبصرے