اعتراض: صحابہ وتابعین کے زمانے میں جب احادیث کی کتابیں موجود نہیں تھیں تو وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے کن کتابوں کی طرف رجوع کیا کرتے تھے؟
محترم قارئین! عقل سلیم انسان کو سلیم الفکراور صحت مند سوچ کا عادی بناتی ہے، عقل سلیم سے انسان اسی وقت متصف ہو سکتا ہے جب وہ اپنی عقل پر وحیین یعنی کتاب وسنت کی لگام لگائے، یعنی عقل کو کتاب وسنت کے تابع کرے، اگر عقل کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا جائے تو وہ عقل تو ہوگی لیکن سلیم نہیں بلکہ منحرف ہوگی۔
زمانہ قدیم سے ایسا رہا ہے کہ عقل کے استعمال میں افراط سے کام لینے والے کو نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، جیسے ابلیس کو لے لیجیے اچھا بھلا عبادت گذار تھا لیکن آگ اور مٹی کے درمیان بلا وجہ عقلی گھوڑے دوڑانے کی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا اور ہمیشہ کے لیے ملعون ہو گیا۔
یہی حال نوح علیہ السلام کے بیٹے کا ہوا کہ اس نے خود کو عذاب الہی سے بچانے کے لیے پہاڑ کی اونچائی کو اپنے لیے محفوظ مقام سمجھا، جب کہ اللہ رب العالمين نے حفاظت کا انتظام سیلاب کی موجوں کے درمیان ہچکولے کھانے والی کشتی میں کیا تھا۔
ایسی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
خود سے عقلی مفروضہ بنا کر پیش کرنا اور پھر اسی مفروضہ پر اپنی پوری عمارت قائم کرنا یہ منکرین سنت کی عام پہچان ہے۔
راشد شاز بھی انھی میں سے ایک ہیں جو اپنی آوارہ عقل کا استعمال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری سنتوں کے خلاف کرتے ہیں، چنانچہ پہلے بے لگام عقل سے مفروضہ قائم کرتے ہیں اور پھر اس پر اپنی ہفوات کی پوری بلڈنگ کھڑی کرتے ہیں، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ: صحابہ وتابعین کے زمانے میں جب کتب ستہ یعنی صحیحین اور سنن اربعہ موجود نہیں تھی تو وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے کس کتاب کی طرف رجوع کیا کرتے تھے؟
یہ ان کے کلام کا خلاصہ ہے۔
راشد شاز نے تو صحابہ اور تابعین کے زمانے کی بات کی ہے، ہم ان کو ایک قدم اور آگے لے جاکر بات کرتے ہیں کہ: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر خلافت عثمان رضی اللہ عنہ کے ابتدائی زمانے تک قرآن مجید مدون نہیں تھا اور قرآن کی پوری سورتیں ایک جگہ پر جمع نہیں تھیں تو لوگ اپنے مسائل کے رجوع کے لیے کس کتاب کی طرف رجوع کرتے تھے؟
یقینا جواب یہی ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ اپنے مسائل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علماء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے لوگ پوچھا کرتے اور اپنے مسائل کا حل دریافت کیا کرتے تھے، اسی طرح جب کتب ستہ موجود نہیں تھی تو لوگ علماء کی طرف رجوع کیا کرتے تھے اور کتب ستہ کے وجود کے بعد بھی عوام علماء کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور ان سے اپنے مسائل کا حل دریافت کرتے ہیں۔
دوسری بات جس طرح قرآن مجید مدون نہیں تھا لیکن صحابہ کرام کے سینوں میں محفوظ تھا اسی طرح احادیث رسول مدون نہیں تھی لیکن صحابہ کرام وتابعین عظام کے سینوں میں محفوظ تھیں اور جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریبا۱۵ سال بعد قرآن کو ایک جگہ جمع کرنے میں قرآن مجید کی حقانیت اور اس کے کلام الہی پر کچھ فرق نہیں پڑا اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً۹۰ سال بعد رسمی طور پر حکومت کے ذریعہ احادیث رسول کو اکٹھا کرنے سے احادیث رسول کی حجیت اور اس کے کلام نبی ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اور یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح قرآن مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لکھا جاتا رہا لیکن ایک جگہ جمع نہیں تھا اسی طرح احادیث رسول بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت اور ان کے حکم سے نبی کی حیات میں ہی لکھی جاتی رہی، جیسا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ لکھا کرتے تھے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو شاہ رضی اللہ عنہ کے لیے حجۃ الوداع کا خطبہ لکھنے کا حکم دیا تھا، البتہ تمام احادیث ایک جگہ جمع نہیں تھیں۔
تدوین حدیث کی تاخیر کی آڑ میں اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے۹۰ سال بعد جمع کی جانے والی احادیث کا انکار کیا جاتا ہے یا اس کی حجیت پر سوال کھڑا کیا جاتا ہے تو پھر وہی اعتراض یا سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے۱۵ سال بعد جمع کیے جانے والے قرآن مجید پر کیوں نہیں کیا جا سکتا؟
کیوں کہ اعتراض کی بنیاد دونوں مقام پر ایک ہی ہے اور وہ تدوین حدیث یا تدوین قرآن کے سلسلے میں تاخیر۔
کتابت حدیث کے متعلق اگر ان کے اعتراضات کو مان لیا جائے تو پھر اس علت کی بنیاد پر قرآن کی حجیت بھی جاتی رہے گی، گویا منکرین سنت کو سنت سے بیر نہیں بلکہ پورے اسلام سے ہی بیر ہے، وہ اپنے بے تکے اعتراضات کے ذریعہ اسلام کی حقانیت کو شک کے دائرے میں لانا چاہتے ہیں اور اس کی شفافیت کو مکدر کرنا چاہتے ہیں۔
آپ کے تبصرے