روزے کی حالت میں دعا کی قبولیت کا امکان قوی ہوتا ہے، اللہ کا یہ خاص فضل روزے کے مکمل دورانیے کے ساتھ ہے، مسند أحمد (۸۰۴۳)، جامع ترمذی(۳۵۹۸)، سنن ابن ماجہ (۱۷۵۲)، صحیح ابن خزیمہ(۱۹۰۱) اور صحیح ابن حبان (۳۴۲۸) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثلاثۃ لا ترد دعوتہم: الإمام العادل، والصائم حتی یفطر، ودعوۃ المظلوم (تین لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی، انصاف پسند حاکم کی دعا، روزے دار کی دعا یہاں تک کہ افطار کرلے اور مظلوم کی دعا)امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ اس حدیث کی بعض روایتوں میں ہے:
والصائم حین یفطر یعنی روزہ دار کی دعا کی قبولیت کا امکان افطار کے وقت قوی ہوتاہے۔ لیکن پہلی روایت ہی راجح ہے، کیونکہ حدیث کا مخرج ایک ہے اور اکثر کتابوں میں’حتی یفطر‘ کا لفظ ہے اور نووی نے خلاصۃ الاحکام (۲/۸۷۱)میں اور ابن الملقن نے البدر المنیر(۵/۱۵۴) میں اس طرح ضبط بھی کیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ روزے دار جب تک روزے کی حالت میں ہے اس کی دعا کی قبولیت کا امکان قوی ہوتاہے، اس عموم میں افطارسے پہلے کا وقت بھی داخل ہے۔
البتہ بعض احادیث میں تخصیص کے ساتھ واردہے کہ قبولیت کا وقت افطار کے وقت ہے، لیکن اس سلسلے میں جتنی بھی مرفوع حدیثیں ہیں سند کے اعتبار سے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہیں۔ ہاں اس سلسلے میں ابن عمر کا ایک قول ہے جو بسند حسن معجم ابن الأعرابی(۳۴۹)، بیہقی کی شعب الإیمان (۳۶۰۲) اور قوام السنۃ ابو القاسم اصبہانی کی الترغیب والتر ہیب(۱۸۰۶) میں مروی ہے، انھوں نے فرمایا: کہاجاتا تھا کہ افطار کے وقت ہر مومن کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے اور ابن عمر افطار کے وقت یہ دعا کرتے تھے:
یا واسع المغفرۃ اغفر لی (اے وسیع مغفرت کے مالک مجھے بخش دے)
لہذا صحیح بات یہ ہے کہ روزے کے مکمل دورانیے میں دعا کی قبولیت کا امکان قوی ہوتا ہے، چنانچہ روزہ دار کے لیے جو وقت مناسب ہو، جس میں وہ دلجمعی اور حاضر قلبی کے ساتھ دعا کرسکے اسی وقت دعا کا اہتمام کرے۔
افطار کے انتظار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی چاہیے کہ اس وقت کو غنیمت جانیں اور اپنے رب سے دنیا وآخرت کی بھلائی کی دعا مانگیں۔
افطارکا جب وقت آئے تو بسم اللہ کہتے ہوئے افطار کریں، جیساکہ ہر کھانے سے پہلے بسم اللہ کہتے ہیں، افطار سے پہلے کوئی خصوصی دعا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔
افطار کے بعد یہ دعا پڑھیں:
ذَھبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَائَ اللَّہ(پیاس دور ہوگئی، رگیں تر ہوگئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر بھی ثابت ہوگیا)
رسول اللہ ﷺ جب افطار کرتے تو یہی دعا پڑھتے، جیساکہ سنن ابی داود (۲۳۵۷)، نسائی کی سنن کبری(۳۳۱۵)، سنن دارقطنی(۲۲۷۹) اور مستدرک حاکم (۱/۴۲۲) میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ دارقطنی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
یہ دعا افطار کے بعد پڑھی جائےگی جیساکہ ابن حجر الہیتمی نے المنہاج القویم (ص ۲۵۲) میں، ملا علی قاری نے مرقاۃ المفاتیح(۴/۱۳۸۶) میں، عظیم آبادی نے عون المعبود (۶/۳۴۵) میں اور شیخ الحدیث عبید اللہ مبارکپوری نے مرعاۃ المفاتیح(۶/۴۷۴) میں، صراحت کی ہے، کیونکہ شرط کے معنی میں یہی اصل ہے اور دعا کے معنی کے موافق بھی۔
لیکن افطار کے بعد کا مطلب یہ نہیں کہ مکمل طور پر شکم سیر ہونے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے، بلکہ پانی پیتے ہی یہ دعا پڑھنا چاہیے۔
افطار کی مناسبت سے جو دعائیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہیں، ان میں سب سے قوی سند سے یہی دعا مروی ہے۔ اس کے علاوہ جو دعائیں واردہیں، سند کے اعتبار سے کوئی بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے۔
جیسے سنن ابی داود (۲۳۵۸) وغیرہ میں ہے کہ آپ ﷺ افطار کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے:
اللَّہمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ أَفْطَرت (اے اللہ میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا) لیکن یہ دعا سند کے اعتبار سے نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں ہے، جیساکہ متعدد اہل علم نے صراحت کی ہے۔
البتہ معنی کے اعتبار سے دعا بالکل درست ہے اور دعا کے باب میں وسعت ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی طرف سے کوئی دعا پڑھتاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ دعا اپنے معنی کے اعتبار سے درست ہو اور دعا کرنے والا اس دعا کو سنت نبوی نہیں سمجھتا ہو۔ لہذا اگر یہ دعابھی کوئی شخص کبھی کبھار پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس کو سنت نبوی نہ سمجھے۔ البتہ اس پر مداومت برتنا اور اسے مسنون سمجھنا درست نہیں۔ واللہ اعلم
اللہ تعالی ہم سب کو حسن عمل کی توفیق سے نوازے۔
آپ کے تبصرے