رمضان كے بعد بھى…

ڈاکٹر محمد یوسف ابو طلحہ عبادات

ماه رمضان ميں ہر ايمان والے كا قدم مغفرت الہى اور جنت كى طرف رواں دواں ہوتا ہے، گرچہ ہرايك كى رفتار مختلف ہوتى ہے، كوئى تيز رفتارى كے ساتھ، كوئى ميانہ رفتارى كے ساتھ، كوئى قدرے سست رفتارى كے ساتھ، مگر عيد كا چاند ہوتے ہى مسلم معاشرے ميں ايك عجيب انقلاب آجاتا ہے، ايسا انقلاب جس كے نتيجے ميں اچانك مسجديں ويران سى ہوجاتى ہيں، اللہ كى كتاب جزدان ميں لپيٹ كر نہايت محفوظ جگہ ركھ دى جاتى ہے اور اس كى تعليمات بهى عملى زندگى سے غائب ہوجاتى ہيں، نيكيوں كى طرف حوصلے كے ساتھ بڑهتے قدم اچانك رك جاتےہيں، بلكہ بعض گناہوں كى طرف بڑهنے لگتے ہيں۔ اللہ كى پناه!
ياد دہانى اور نصيحت كے طور پراسى انقلاب كے سلسلے ميں چند باتيں:
پہلى بات:
ماه رمضان مكمل ايك مہينہ ديندارى اور تقوى كى ٹريننگ ہے، جس ميں ايك روزه دار بہت كچھ سيكھتا ہے، عبادت كى مشّاقى، الله كے احكاما ت كو بجالانے كى مشاقى، حرام اور مكروه چيزوں سے بچنے كى مشاقى، نفسانى خواہشات پر كنٹرول اور صبر وتحمل كى مشاقى، الله كے راستے ميں خرچ كرنے كى مشاقى وغيره وغيره۔
اور دنيا كے سارے عقلمندوں كا اس بات پر اتفاق ہے كہ ٹريننگ كے بعد ٹرينڈ لوگوں پر ٹريننگ كا اثر ہونا چاہیے، اگر اس كا اثر محسوس نہيں ہوتا ہے تو ايسى ٹريننگ لينے والوں كو دنيا فيلير مانتى ہے۔
مشاہدہ يہ ہے كہ ہم ميں سے بہت سارے لوگ رمضان كى ايك ماہى ٹريننگ كے بعد عيد كا چاند ہوتے ہى فورًا يوٹرن لے ليتے ہيں حتى كہ چاند رات كى نماز عشاء ہى سے بہت سے لوگ مسجدوں سے غائب ہوجاتے ہيں۔ بلكہ بہت سارے لوگ چاند رات ہى سے ان برائيوں كا ارتكاب كرنے لگتے ہيں جن كو رمضان ميں چھوڑ ركها تھا۔
اس كا سيدها مطلب يہ ہے كہ ايسے لوگ رمضان كى ٹريننگ ميں مكمل طور پر فيل ہيں۔ اور اس ٹريننگ كا ان كى زندگى پر كوئى اثر نہيں ہے۔ جبكہ ايسا نہ شرعاً درست ہے نہ عقلا ۔
دوسرى بات:
يقينا رمضان ميں عبادتوں كا خصوصى اہتمام ہونا چاہیے، رسول الله صلى الله عليہ وسلم ماه رمضان ميں اور بالخصوص رمضان كے آخرى عشرے ميں دوسرے اوقات كى بہ نسبت عبادت ميں زياده محنت كرتے تهے، ليكن اس كا مطلب ہرگز يہ نہيں كہ رمضان كے بعد عبادتوں سے يكسر پلہ جهاڑ ليا جائے، حتى كہ پنچ وقتہ فرض نمازوں سے اگلے رمضان كے وعدے پر چهٹى لے لى جائے، يہ كون سا اسلام ہے؟ ہمارے نبى صلى الله عليہ وسلم اور صحابہ كرام رضي الله عنہم نماز كسى بهى حالت ميں نہيں چهوڑتے تهے، نہ حضر ميں، نہ سفر ميں، نہ حالت امن ميں، نہ جنگ ميں، نہ تندرستى كى حالت ميں، نہ بيمارى كى حالت ميں۔ لہذا سال كے كسى بهى حصے ميں پنچ وقتہ نمازوں كے سلسلے ميں كسى طرح كى كوتاہى ہرگز نہيں ہونى چاہیے اور رمضان بعد بهى اللہ كى عبادت كا سلسلہ جارى ركهنا چاہیے، كيونكہ جو الله رمضان كا رب ہے وہى الله سال كے ديگر مہينوں كا بھى رب ہے۔
تيسرى بات:
نيك كام اگر تھوڑا بھى ہے مگر اس پر ہميشگى برتى جاتى ہے تو وه اللہ كو زياده پسند ہے، صحيح بخارى (۶۴۶۴) اور صحيح مسلم (۷۸۲)ميں ام المومنين عائشہ رضى الله عنہا سےروايت ہے، وه كہتى ہيں كہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم سے پوچھا گيا كہ كون سا عمل اللہ كو زياده پسند ہے؟ تو آپ نے جواب ديا : وه نيك كام جس كو ہميشہ كيا جائے گرچہ وه كم ہى كيوں نہ ہو۔ يہى وجہ ہے كہ ايمان والے نيكيوں پر ہميشگى برتتے ہيں، بالخصوص فرائض وواجبات پر مداومت برتتے ہيں اور اپنے رب سے دعا مانگتے ہيں:’’اے ہمارے رب ،ہميں ہدايت دينے كے بعد ہمارے دل ٹيڑهے نہ كر دے۔‘‘(آل عمران:۸)
چوتهى بات:
نيك عمل كى قبوليت كى ايك ظاہرى علامت يہ ہے كہ ايك نيك عمل كے بعد دوسرے نيك عمل كى توفيق ہو، اس ظاہرى علامت كا تقاضا يہ ہے كہ رمضان المبارك كے بعد بھى نيك عمل كا سلسلہ بند نہ ہو بلكہ جارى رہے۔
پانچويں بات:
ہر ايمان والا شخص حسن خاتمہ كى تمنا ركهتا ہے اور موت كى كوئى گارنٹى نہيں كہ كب كس كو اپنے آغوش ميں لے لے۔ اگر رمضان بعد پورے گياره مہينے اپنے خالق كى عبادت سے دور رہے، اس كى نا فرمانى بهى كرتا رہے اور موت آگئى تو پهر اس سے برا انجام كيا ہوگا؟ كيونكہ جو آدمى جس حالت پر مرتا ہے اسى حالت پر اسے قيامت كے دن اٹهايا جائے گا۔ صحيح مسلم (۲۸۷۸) ميں حضرت جابر رضى الله عنہ سے روايت ہے كہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا: (قيامت كےدن) ہر بندے كو اسى حالت ميں اٹهايا جائےگا جس حالت ميں اس كى موت ہوئى ہے۔ اور قرآن وحديث ميں اس كى كچھ تفصيلى مثاليں بهى موجود ہيں، جيسے حالت احرام ميں مرنے والے لبيك اللهم لبيك پكارتےہوئے اٹهائے جائيں گے، شہيد اس حالت ميں اٹهائے جائيں گے كہ ان كے زخموں سے خون بہ رہا ہوگا، رنگ تو خون كا ہوگا، مگر خوشبو مشك كى ہوگى۔ اور سود خور كو اس پاگل كى طرح اٹهايا جائے گا جسے شيطان چهوكر خبطى بناديا ہو۔
لہذا ہميں حسن خاتمہ كى راه اختيار كرنا چاہیے، سوء خاتمہ اور برے انجام سے ڈرنا چاہیے، ہر اس كام سے بچنا چاہیے جو سوء خاتمہ كا سبب بن سكتا ہے۔ اور رب العالمين سے حسن خاتمہ كى دعا مانگتے رہنا چاہیے۔
الله تعالى ہمارے صيام وقيام اور تمام نيك اعمال كو قبول فرمائے، رمضان كے بعد ہميں اپنى طاعت پر ثابت قدم ركھے اور جب ہمارا خاتمہ ہو تو خاتمہ بالخير ہو۔ آمين

آپ کے تبصرے

3000