سحری: فضائل واحکام

ڈاکٹر محمد یوسف ابو طلحہ رمضانیات

سحری امت محمدیہ کی خصوصیت:
سحری کھانا امت محمدیہ کی امتیازی شان ہے، اہل کتاب (یہود ونصاری) جب افطار کے بعد سوجاتے تھے تو ان کے لیے کل کا روزہ مکمل ہونے تک کھانا پینا حرام ہو جاتاتھا اور یہی معاملہ اسلام کی شروعات میں بھی تھا، لیکن امت محمدیہ پر اللہ تعالی نے آسانی فرمائی اور اسے منسوخ کردیا، اور فجر صادق کے نمودارہونے تک کھانے پینے کی رخصت دی اور یہ رخصت امت محمدیہ کی خصوصیت بن گئی۔ صحیح مسلم (۱۰۹۶) میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘
سحری باعث برکت:
سحری کھانا باعث برکت ہے، اس سے روزہ رکھنے میں طاقت بھی ملتی ہے اور ثواب بھی حاصل ہوتا ہے۔ صحیح بخاری(۱۹۲۳)اورصحیح مسلم (۱۰۹۵)میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’سحری کھاؤ، اس لیے کہ اس میں برکت ہے۔‘‘
سحری کا حکم:
ہمارے نبیﷺ نے خود سحری کھائی اور امت کو اس کی رغبت دلائی، لہذا ہمیں سحری کا مسنون عمل نہیں چھوڑنا چاہیے، ہاں اگر کبھی کبھار چھوٹ جائے تو کوئی حرج نہیں؛ کیونکہ تمام علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سحری کھانا مستحب ہے، واجب نہیں، لہذا اسے چھوڑنے والے پر کوئی گناہ نہیں۔ (ابن المنذر، نووی)
سحری کی نوعیت اور مقدار:
سحری میں ہر شخص اپنی رغبت اور صحت کے اعتبار سے جتنا چاہے اور جو (حلال چیزیں) چاہے کھائے پیے، البتہ یہ واضح رہے کہ سحری کی سنت کو ادا کرنے کے لیے پانی کا ایک گھونٹ بھی کافی ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ سحری میں کھجو رکا استعمال کیا جائے۔سنن ابی داود (۲۳۴۵) اور صحیح ابن حبان (۳۴۷۵) میں صحیح سند سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مومن کی بہترین سحری کھجور ہے۔‘‘
سحری کی دعا:
سحری کے متعلق نبی کریم ﷺ سے کوئی خصوصی دعا ثابت نہیں ہے، لہذا جیسے عام کھانے سے پہلے بسم اللہ اورکھانے کے بعد الحمد للہ یا حمد پر مشتمل دوسری مسنون دعا پڑھتے ہیں، ویسے ہی سحری میں بھی پڑھیں۔
سحری کا وقت:
آدھی رات سے پہلے بالاتفاق سحری کا وقت نہیں ہے اور فجر صادق کے نمودار ہونے سے پہلے رات کا آخری پہر بالاتفاق سحری کا وقت ہے، البتہ آدھی رات کے بعد اور آخری پہرسے پہلے سحری کا وقت ہے یا نہیں اس میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور فقہاء کے نزدیک سحری کا اول وقت آدھی رات کے بعد شروع ہوجاتاہے اورآخری وقت فجرصادق (صبح صادق) کے نمودارہونے تک ہے، یعنی فجر کا وقت شروع ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: تم کھاتے پیتے رہو، یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے۔ (سورۃ البقرۃ:۱۸۷) نبی کریمﷺ نے اس آیت کی تفسیر کی اور فرمایا:’’سفیدی اور سیاہی سے مراد دن کی سپیدی اور رات کی تاریکی ہے‘‘، جیسا کہ صحیح بخاری (۱۹۱۶) اور صحیح مسلم (۱۰۹) میں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔
علمائے امت کا اتفاق ہے کہ سحری دیر سے کھانا افضل ہے بشرطیکہ فجر صادق کے نمودار ہونے سے پہلے ہو، کیونکہ دیر سے کھانے سے روزہ رکھنے میں طاقت ملتی ہے۔ مسند احمد (۲۱۶۲۰)، صحیح بخاری (۵۷۵) اور صحیح مسلم (۱۰۹۷) میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے نبیﷺ کے ساتھ سحری کھائی، پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، حضر ت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کہا: دونوں (یعنی سحری کے ختم ہونے اور نماز کے شروع ہونے) کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ تو انھوں نے بتایا: ’’ اتنا جس میں ایک آدمی پچاس آیتیں تلاوت کر سکے۔‘‘
اذان فجر کے دوران کھانا پینا:
سورہ بقرہ کی آیت نمبر۱۸۷ اور متعدد حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جب یقین ہو جائے کہ فجر صادق کا وقت شروع ہوچکاہے تو کھانے پینے سے فوراً رک جانا لازمی ہے۔ بعض اہل علم نے اس حکم سے ایک صورت کو مستثنی کیا ہے، وہ یہ کہ اگر کوئی شخص اذان کے پہلے سحری شروع کرچکا ہو، اورمؤذن اذان دینے لگے، اور یہ بھی پتہ ہے کہ یہ موذن فجر صادق شروع ہونے کے بعد اذان دیتاہے پھربھی اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی ضرورت پوری کرلے، مسند احمد (۱۰۶۲۹،۱۰۶۳۰)، سنن ابی داود (۲۳۵۰) اور مستدرک حاکم (۱/۲۰۳) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص اذان سنے، اس حال میں کہ برتن اس کے ہاتھ پر ہو تو اس وقت تک برتن نہ رکھے جب تک اپنی حاجت اس برتن سے پوری نہ کرلے۔‘‘ حاکم نے اس حدیث کو مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیاہے۔ (ملاحظہ ہو: تمام المنۃ ص۴۱۷، فتح ذی الجلال والإکرام:۱/۴۴۶)
لیکن اس رخصت کو لے کر عوام میں بہت ساری بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں، جیسے کچھ لوگ اذان کا وقت قریب ہوتا دیکھ کر پلیٹ بھرلیتے ہیں، تاکہ اذان کے بعد تک آرام سے کھاتے رہیں اور کچھ لوگ پانی لے کر اذان کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور اذان کی آواز سن کر پانی پینا شروع کرتے ہیں، اور حد تو یہ ہے کہ بعض لوگوں نے اسے روزانہ کا معمول بنالیا ہے جبکہ ایسا کرنا بالکل درست نہیں۔
یہاں یہ وضاحت بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ جمہور اہل علم اس رخصت کے قائل نہیں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر فجر صادق کے نمودار ہونے کا یقین ہو جائے تو منہ میں جو بھی چیز ہے اسے پھینک دیں۔ نہ پھینکنے کی صورت میں روزہ باطل ہو جائے گا۔ لہذا آپ اپنے روزے کی حفاظت کیجیے اور شبہ والی باتوں سے اپنے روزے کو بچائیے۔
سحری کا اعلان:
نبی کریمﷺ کے زمانے میں سحری کے لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے تھے، تاکہ سوئے ہوئے لوگ سحری کے لیے بیدار ہو سکیں، پھر حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نمازفجر کے لیے اذان دیتے تھے۔ جیساکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے۔ اور آج بھی الحمد للہ بہت سارے ممالک میں اسی سنت پر عمل ہے، البتہ ہمارے ملک اور بعض دیگر ممالک میں اذان کے بجائے سحری کے اعلان کے مختلف طریقے رائج ہیں جو سنت نبوی سے میل نہیں کھاتے،(ملاحظہ ہو: المدخل لابن الجاج:۲/۲۵۴-۲۵۸) لہذا ہمیں بھی اپنے سماج میں سحری کی اذان کو رواج دینا چاہیے اور اس پر آناً فاناً عمل کے بجائے پہلے عوام کی ذہن سازی کرنی چاہیے، پھر اس پر عمل کرنا چاہیے۔
اللہ تعالی ہم سب کے روزے کو قبول فرمائے۔آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
رفيع الدين نجم الدين

بارك الله فيكم ونفع بكم وتقبل منكم

عوام کے لئے عمدہ اور لائق توجہ مضمون۔