لیجیے رمضان رحمتوں اور برکتوں کی سنہری ساعتیں لےکر آگیا،ہر طرف خیر و سعادت کے قمقمے جل اٹھے،ہلال رمضان کی خنک چاندنی نے دل وروح کو سرشار کردیا،ایمان کی باد بہاری نے مشام جاں کو معطر کردیا،یہ نیکیوں کی فصل بہار ہے،یہ عمل وریاضت کی جولان گاہ ہے،یہ کامیابی وکامرانی کی حسین شاہراہ اور جنت وجہنم کا خوبصورت سنگم ہے۔
اس مہینے پر قدرت کی خصوصی عنایت ہے،قصر خلد کے در وا کردیے جاتے ہیں،جہنم کے شعلوں کو پس زنداں کردیا جاتا ہے،گلی کوچوں میں خیر و نیکی کی کلیاں مہک اٹھتی ہیں،انوار وتجلیات کی رم جھم سے کائنات سنور اٹھتی ہے۔
روزے داروں کے وارے نیارے ہیں،عظمت مقام کا کیا کہنا؟بوئے دہن کو مشک و عنبر پر ترجیح حاصل ہے،عبادت صوم کو رب سے نسبت خاص ہے،الصوم لی وانا اجزی بہ کا مژدۂ جانفزا ہے ، اس کے فضائل ومناقب میں رب کا لطف خاص جھلکتا ہے،روزے دار کےایمان واحتساب پر رب کی مغفرت قربان ہے۔
لاک ڈاؤن کےسبب مساجد حسب سابق اگرچہ نہیں کھلی ہیں،عبادت وتراویح کے لیے پہلے جیسے حسین مواقع نہیں ہیں،شب وروز پر ہر آن بندی کا منحوس سایہ ہے،عسرت وتنگ دستی کے سبب افطار بازار کی رونق رفتہ اگرچہ ماند پڑرہی ہے،لیکن مومن کے جذبۂ عمل پر کوئی پہرہ نہیں ہے،آپ کی مومنانہ پرواز کے کوئی پر نہیں کتر سکتا ہے،آپ کے رفتار عمل کو کوئی نکیل نہیں پہنا سکتاہے،کہتے ہیں آگ میں تپ کر سونا کندن بن جاتا ہے بعینہ حالات کی بھٹی میں تپ کر انسان جفاکش بن جاتا ہے، آزمائشیں انسان میں قوت کار کردگی بڑھادیتی ہیں،لگتی ہے کوئی ٹھوکر تو بڑھتا ہے قدم اور۔
حوصلہ مند حالات کی ناسازگاری کا رونا نہیں روتے بلکہ ممکنات کے سہارے چل کر چٹانوں کے سینے سے آب رواں بہاتے ہیں،مایوسیوں کے اندھیروں کو چیر کر امید کی کرن نکال لاتے ہیں،لاک ڈاؤن سے چوٹ کھائے ہوئے لوگ اسی کردار کے ساتھ زندگی کی شکستہ گاڑی کو آگے بڑھارہے ہیں،ان ناگفتہ بہ حالات میں رمضان مسلمانوں کے لیے مشکلات کی ایک دشوار گذار موڑ لے کر آیا ہے،یہ مشکلات عمل وعبادت سے متعلق بھی ہے اور گذربسر سے جڑا ہوا بھی ہے۔
کثیر اخراجات کا مہینہ غریب کے لیے پہاڑ کاٹنےجیسا ہوتا ہے،سحر وافطار اور عید کی خریداری خون کے آنسو رلاتی ہے،بازار سے خالی ہاتھ گذرتے ہوئے غریبوں کا کلیجہ منہ کو آتا ہے،اس پورے مہینے میں ان کو زندگی کسی سزا کی طرح محسوس ہوتی ہے،سخاوت ودریا دلی کا ایک دور گذر گیا،ابھی گذشتہ رمضان بھی تو ایسے ہی کٹھن حالات میں آیا تھا،لوگوں نے راشن تقسیم کیے،ضروریات کے سامان گھر گھر پہنچوائے تھے لیکن پہلے جو بڑھ چڑھ کر سخاوت کررہے تھے وہ اب زندگی میں قناعت کرنا سیکھ رہے ہیں،وہ جو آنکھ بند کرکے بے حساب اپنی دولت نچھاور کررہے تھے وہ اب بہت زیادہ حساب کتاب کرنے پرمجبور ہیں،کل جنھوں نےلنگر چلائے تھے انھیں اب گھر کےچولھےکی فکر ستارہی ہے،کیا کیجیے گا،قدرت کا قانون ہے کہ سمے ایک جیسا نہیں رہتاہے۔
مسلمانو! حالات کی ناسازگاری تمھیں مایوس اور بددل نہ کردے،جب کبھی مشکلات کے ہجوم میں دل ڈوبنے لگے تو صحابہ کے فقر وفاقہ کویاد کرلینا،رمضان میں ان کے بجھے ہوئے چولھے پر ایک نظر ڈال لینا،شعب ابی طالب سے ابھرتی ہوئی چیخیں اور سسکیاں دل ودماغ میں تازہ کرلینااوراس درخت کو بھی یاد کرناجس کے پتوں کو بھوکےصحابہ نے کھاکر ختم کردیا تھا صرف خالی شاخیں رہ گئی تھیں،یہ بھی یاد کرلینا کہ رسول اللہ کے بعض صحابہ نے رمضان میں بھی فاقہ کیا تھا،پھر وہ صحابئ رسول بھی یاد آئیں گے جو فرماتے تھے کہ شعب ابی طالب کے سخت ایام میں بھوک سے نڈھال ہوکر گھر سے باہر نکلا تو پیر کسی چیز سے ٹکرائے اور میں زمین پر گر پڑا،اندھیری رات میں کوئی چیز میرے ہاتھ میں آگئی تھی، میں نے کھاکر پانی پی لیا، اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ کیا چیز تھی جو میں نے کھا لیا تھا؟غور کیجیے!سلف صالحین نے حالات کی جس سنگینی کا سامنا کیا تھا ہم نے اس کا ایک حصہ بھی نہیں دیکھا،کیا یہ حوالے یخ بستہ دلوں کو موم کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟کیا اب بھی ہم ضروریات کی خوب سے خوب تر تکمیل کے فراق میں غلطاں و پیچاں رہیں گے یا نان شبینہ پر بھی دل کلمۂ شکر بجالائے گا؟کیا اب بھی ہم اپنے معیار کو منٹین کرنے کی فکر کریں گے یا روکھا سوکھاکھاکر بھی شاداں و فرحاں رہیں گے،جی ہاں یہی وہ صبر ہے جس کی جوت رمضان آپ کے نفس میں جگانا چاہتا ہے،یہی وہ برداشت اور قوت ارادی ہے جس کی تخم ریزی رمضان آپ کے قلب و جگر میں کرنے آیا ہے۔
آپ کے تبصرے