افطار: احکام ومسائل

ڈاکٹر محمد یوسف ابو طلحہ رمضانیات

افطار کا وقت:
ہر روزہ دار طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور روزہ توڑنے والی دوسری چیزوں سے رکے رہنے کا مکمل پابند ہے، اور روزے کا وقت اس وقت ختم ہوتا ہے جب سورج کے غروب ہونے کا مکمل یقین ہوجائے، اس پر علمائے امت کا اتفاق ہے۔ صحیح بخاری(۱۹۵۴) اور صحیح مسلم (۱۱۰۰) میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:’’جب ادھر سے (یعنی مشرق سے) رات آجائے اور اُدھر سے (یعنی مغرب سے) دن چلا جائے، اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار افطار کے وقت میں داخل ہوجاتاہے۔‘‘
اہل علم کہتے ہیں: ان تینوں باتوں کو ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مکمل طور سے سورج کے غروب ہو نے کایقین ہوجائے اور کسی طرح کا کوئی شبہ باقی نہ رہے۔
اس پر بھی اتفاق ہے کہ روزے کے افطار کرنے میں جلدی کرنا (یعنی آفتاب کے غروب ہوتے ہی افطار کرلینا) مستحب ہے۔ صحیح بخاری(۱۹۵۷) اور صحیح مسلم (۱۰۹۸) میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’لوگ اس وقت تک خیریت سے رہیں گے، جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘
غروب آفتاب سے تھوڑا سا بھی پہلے افطار کرنا جائز نہیں اور جان بوجھ کر بغیر شرعی عذر کے وقت سے پہلے افطار کرنے والے کے لیے سخت وعید آئی ہے، نسائی کی سنن کبری(۳۲۷۷)، صحیح ابن خزیمہ (۱۹۸۶)، صحیح ابن حبان (۷۴۹۱) اور مستدرک حاکم (۱/۴۳۰) میں صحیح سند سے حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سورہے تھے، خواب میں دو آدمی آئے اور آپ کو ایک دشوار پہاڑی پر چڑھایا، آپ نے اس پہاڑی کی چوٹی پر کچھ لوگوں کو الٹا لٹکا ہوا دیکھا، جن کے جبڑے چیر دیے گئے تھے اور ان سے خون بہ رہاتھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا:یہ وہ لوگ ہیں جو افطار کا وقت ہونے سے پہلے افطار کرتے تھے۔
وہ چیزیں جن سے روزہ افطار کرنا افضل ہے:
سنن ابی داود (۲۳۵۶)، ترمذی(۶۹۶) اور سنن دارقطنی(۲۲۷۸) میں بہ سند صحیح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نماز پڑھنے سے پہلے چند رطب کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے تھے۔ اگر رطب کھجوریں نہ ہوتیں تو سوکھی کھجوروں سے افطار فرماتے اور اگر یہ بھی نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔
اور اگر افطار کا وقت ہو جائے اور افطار کے لیے کوئی بھی چیز میسر نہ ہو تو افطار کی نیت کرلینا ہی کافی ہے۔
افطار کے وقت دعا:
روزہ کی حالت میں دعا کی قبولیت کا امکان قوی ہوتا ہے، لہذا افطار کے انتظار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو چاہیے کہ اس وقت کو بھی غنیمت جانیں اور اپنے رب سے دنیا وآخرت کی بھلائی کی دعا مانگیں۔
اور افطارکا جب وقت آئے تو بسم اللہ کرکے افطار کریں، جیساکہ ہر کھانے سے پہلے بسم اللہ کرتے ہیں، اور افطار کے بعد یہ دعا پڑھیں:
ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَائَ اللَّہُ
( پیاس دور ہوگئی، رگیں تر ہوگئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر بھی ثابت ہوگیا)
رسول اللہ ﷺ جب افطار کرتے تو یہی دعا پڑھتے، جیساکہ سنن ابی داود (۲۳۵۷)، سنن دارقطنی(۲۲۷۹) اور مستدرک حاکم (۱/۴۲۲) میں بہ سند حسن ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔
سنن ابی داود (۲۳۵۸) وغیرہ میں ہے کہ آپ ﷺ افطار کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے:
اللَّہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ
(اے اللہ میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا)لیکن یہ دعا سند کے اعتبار سے نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں ہے، جیساکہ متعدد اہل علم نے صراحت کی ہے۔ البتہ معنی کے اعتبار سے دعا بالکل درست ہے اور دعا کے باب میں وسعت ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی طرف سے کوئی دعا پڑھتاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ دعا اپنے معنی کے اعتبار سے درست ہو اور دعا کرنے والا اس دعا کو سنت نبوی نہیں سمجھتا ہو تو اگر یہ دعابھی کوئی شخص کبھی کبھار پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس کو سنت نبوی نہ سمجھے۔ البتہ اس پر مداومت برتنا اور اسے مسنون سمجھنا درست نہیں۔ واللہ اعلم (ملاحظہ ہو: الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ التی یستدل بہا علی بدع فی العبادات :ص۹۴۸-۹۵۷)
روزہ دار کو افطار کرانے کا ثواب:
جامع ترمذی(۷۰۸)، سنن ابن ماجہ(۱۷۴۶)، صحیح ابن خزیمہ(۲۰۶۴) اور صحیح ابن حبان (۳۴۲۹) میں حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا، اس کو روزہ دار کے برابر ثواب ہوگا، لیکن اس سے روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔‘‘
میزبان کے لیے افطار کرنے والے کی دعا:
افطار کرنے والا میزبان کو یہ دعا دے:
أَفْطَرَ عِنْدَکُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَکَلَ طَعَامَکُمُ الْأَبْرَارُ، وصلت عَلَیْکُمُ الْمَلَائِکَۃ
(تمھارے پاس روزہ دار لوگ افطار کریں، نیک لوگ تمھارا کھانا کھائیں اور فرشتے تمھارے لیے دعائیں کریں)
مسند احمد(۱۲۵۰۶)،سنن أبی داود(۳۸۵۴)، مسند بزار (۶۸۷۲) اور شرح مشکل الآثار (۱۵۷۷) میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سعد بن عبادہ کے گھر کھانا کھانے کے بعد ان کو یہ دعا دی۔ سند کے اعتبار سے یہ روایت قوی ہے۔ اور اس سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح مہمان عام کھانے کے بعد اپنے میزبان کو یہ دعا دے سکتاہے اسی طرح روزہ دار بھی افطار کے بعد اپنے میزبان کو یہ دعا دے سکتاہے۔ اوربعض روایتوں میں افطار کی صراحت بھی ہے، جو مجموعی اعتبار سے ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں۔ بہرحال! یہ دعا مہمان عام کھانے کے بعد بھی میزبان کو دے سکتا ہے اور افطار کے بعدبھی۔ واللہ اعلم ( الآداب الشرعیۃ:۳/۲۱۸، التنویر شرح الجامع الصغیر:۲/۵۹۰، آداب الزفاف: ص۱۷۰-۱۷۱)
غیر مسلموں کی طرف سے دی گئی دعوت افطار میں شرکت:
اگر کسی طرح کا کوئی اندیشہ اور کوئی دوسری رکاوٹ نہ ہو تو غیر مسلموں کی طرف سے دی گئی دعوت افطار میں شریک ہونے میں کوئی حرج نہیں، جیسے ان کا ہدیہ قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ نبی کریمﷺ نے کافروں کا کھانا کھایا ہے اور ان کا ہدیہ بھی قبول کیا ہے، جیساکہ صحیح بخاری(۲۰۹۲، ۳۱۶۱، ۲۶۱۷) اور صحیح مسلم (۱۷۷۵، ۲۰۷۱، ۲۱۹۰) کی کئی حدیثوں میں اس کا ذکر ہے۔
مسلمان کی دعوت افطار میں غیر مسلموں کی شرکت:
اگر کسی مسلمان کی طرف سے افطار کی دعوت ہے تو اصلاً اس دعوت کے حق دار روزہ دار ہیں اور اس دعوت میں غریب اور رشتہ دار روزہ داروں کو ترجیح ہونی چاہیے، البتہ کسی غیر مسلم کو ضمنی طور پر کسی صحیح مقصد کے تحت اس دعوت میں شریک کیا جائے تو کوئی حرج نہیں، جیسے اس کی ہدایت کی امید کی جارہی ہو، یا اس کی دل جوئی (تالیف قلب) مقصود ہو۔
بہر حال مسلمانوں کو چاہیے کہ اس عظیم دعوت کو سیاست کا مہرا نہ بنائیں اور غیر مسلموں کے لیے عمومی کھانے کا خصوصی اہتمام کریں خاص طور سے ایسے وقت میں جبکہ سماج کا ایک بڑا طبقہ بھوک مری کا شکار ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اخلاص نیت کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے طریقے کے مطابق روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے روزوں کو شرف قبولیت بخشے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000