کیا خواتین مسجد میں جاکر با جماعت تراویح ادا کر سکتی ہیں؟
المسمی ب
إهداء الدلائل والشواهد لمن حرَّم حضور النساء في المساجد
[مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ کا ایک فتوی نظر سے گذرا جس میں ان سے ایک سائل نے دریافت کیا تھا کہ کیا خواتین تراویح کی نماز ادا کرنے ایسی مسجد میں جا سکتی ہیں جہاں پردے کا علیحدہ انتظام ہو؟
مفتی صاحب نے کہا کہ کسی بھی نماز کے لیے خواتین کا مسجد میں حاضر ہونا مکروہ تحریمی ہے]
قارئین کرام! اس بات پر علماء کرام کا اتفاق ہے کہ خواتین کی نماز مسجد کے مقابلے گھر میں افضل اور بہتر ہے، البتہ اگر کوئی خاتون مسجد میں جاکر نماز پڑھنا چاہے تو اس سلسلے میں شریعت نے ہماری سب سے بہترین رہنمائی کی ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری ملت اسلامیہ کو مخاطب کرکے کہا:
لا تَمْنَعوا إماءَ اللهِ مساجدَ اللهِ[صحيح مسلم:۴۴۲]اللہ کی بندیوں کو مسجد جانے سے نہ روکو۔
ایک دوسری روایت میں ہے:
لقَدْ كانَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُصَلِّي الفَجْرَ، فَيَشْهَدُ معهُ نِسَاءٌ مِنَ المُؤْمِنَاتِ مُتَلَفِّعَاتٍ في مُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَرْجِعْنَ إلى بُيُوتِهِنَّ ما يَعْرِفُهُنَّ أحَدٌ[صحيح البخاری:۲۷۲]نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے فجر کی نماز پڑھنے کی غرض سے صحابیات رضی اللہ عنہن باپردہ ہوکر تشریف لایا کرتی تھیں اور نماز پڑھ کر اندھیرے میں ہی واپس ہو جایا کرتیں تھیں۔
ایک اور جگہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
إنِّي لأقومُ إلى الصَّلاةِ، وأنا أُريدُ أن أُطوِّلَ فيها، فأسمعَ بُكاءَ الصبيِّ، فأتجوَّزَ في صلاتي؛ كراهةَ أن أشقَّ على أمِّه[صحيح البخاری:۷۰۷]میں نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ نماز لمبی کردوں، لیکن بچوں کے رونے کی آواز سن کر اپنی نماز مختصر کردیتا ہوں مبادا اس کی ماں مشقت میں پڑ جائے۔
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وخَيْرُ صُفُوفِ النِّساءِ آخِرُها، وشَرُّها أوَّلُها[صحيح مسلم:۴۴۰]مساجد میں خواتین کی بہترین صف آخری صف ہے اور بدترین صف پہلی صف ہے۔
مذکورہ چاروں احادیث کو غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول وفعل اور تقریر سے خواتین کو مسجد میں آنے کی اجازت دی ہے، اور یہ ایک ایسا اسلامی دستور ہے جس کی مخالفت کرنے کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو نہیں دی، بلکہ ایک خاتون پر سب سے زیادہ حق جس کا ہوتا ہے یعنی اس کے شوہر کو بھی اس بات کی تاکید کی کہ اگر تمھاری اہلیہ تم سے مسجد جانے کی اجازت چاہتی ہے تو تمھیں بھی اسے کو روکنے کا حق نہیں۔
اسی پر بس نہیں بلکہ آپ غور فرمائیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ رکھنے، اس کے مال سے صدقہ کرنے اور کئی امور سے منع فرمایا ہے، بلکہ ان امور میں شوہر کی اجازت ضروری قرار دیا ہے لیکن مسجد جانے کے سلسلے میں شوہر اور محرم کو تاکید کی کہ اگر خواتین مسجد جانے کی اجازت چاہیں تو تم انھیں منع کرنے کا حق نہیں رکھتے۔
مذکورہ بات کی تائید عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
إذا استأذنَتْ أحدَكم امرأتُه إلى المسجدِ فلا يَمنعْها[صحيح البخاری:۵۲۳۸]جب کسی کی اہلیہ اس سے مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے منع نہ کرے۔
ایک دوسری جگہ حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
إذا استأذنَكم نِساؤُكم باللَّيلِ إلى المسجدِ فأْذَنوا لهنَّ[صحيح البخاری:۸۶۵]اگر تمھاری بیویاں رات میں بھی مسجد جانے کی اجازت چاہیں تو تم انھیں اجازت دے دینا۔
جب یہ حدیث عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کی تو ان کے بیٹے بلال رحمہ اللہ نے کہا:
واللهِ لنمنعهنَّ! قال: فأقْبَلَ عليه عبدُ اللهِ فسَبَّه سبًّا سيِّئًا ما سمعتُه سبَّ مِثلَه قطُّ، وقال: أُخبِرُكُ عن رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وتقول: واللهِ لنَمْنَعُهنَّ؟[صحيح مسلم:۴۴۲]اللہ کی قسم میں تو اپنی اہلیہ کو منع کروں گا، اپنے بیٹے کے منہ سے اتنا سننا تھا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما شدید غصہ میں آگئے اور انھیں اس قدر سختی سے ڈانٹا اور اس قدر سخت کلمات کہے کہ اس سے قبل انھیں ایسا کرتے اور کہتے نہیں سنا گیا، اور بعض روایات میں ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو تھپڑ بھی مارا، اور پھر اپنے بیٹے سے کہا کہ: میں تمھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں کہ کہ منع مت کرو اور تم کہتے ہو کہ منع کرو گے؟
جاؤ میں تمھاری اس حرکت (یعنی حدیث رسول سے معارضہ کرنے کے سبب) کی وجہ سے میں بات نہیں کروں گا۔
محترم قارئین! آپ سوچیں کہ جو لوگ آج کے زمانے میں خواتین کو مسجد جانے سے روکتے ہیں اگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما زندہ ہوتے تو ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے؟
مزید یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں خواہش ظاہر کی تھی کہ:
لو تركنا هذا الباب للنساء[سنن ابی داؤد:۴۶۲] کاش ہم مسجد کے اس دروازے کو خواتین کے لیے مخصوص کردیتے۔
نافع کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بعد کبھی بھی اس دروازے سے داخل نہیں ہوئے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ خواتین کو مسجد جانے سے روکتے تھے، یہ صحیح نہیں، بلکہ اس کے برعکس صحیح بخاری میں مروی ہے:
كانَتِ امْرَأَةٌ لِعُمَرَ تَشْهَدُ صَلاةَ الصُّبْحِ والعِشاءِ في الجَماعَةِ في المَسْجِدِ، فقِيلَ لَها: لِمَ تَخْرُجِينَ وقدْ تَعْلَمِينَ أنَّ عُمَرَ يَكْرَهُ ذلكَ ويَغارُ؟ قالَتْ: وما يَمْنَعُهُ أنْ يَنْهانِي؟ قالَ: يَمْنَعُهُ قَوْلُ رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: لا تَمْنَعُوا إماءَ اللَّهِ مَساجِدَ اللَّهِ[صحيح بخاری:۹۰۰]عمر رضی اللہ عنہ کی ایک اہلیہ ( جن کا نام عاتکہ تھا) عشاء اور فجر کی نماز باجماعت مسجد میں ادا کیا کرتی تھیں، ان سے کسی نے کہا کہ جب تمھیں پتہ ہے کہ تمھارا نکلنا عمر رضی اللہ عنہ کو پسند نہیں ہے اس کے باوجود تم کیوں نکلتی ہو؟ عمر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے کہا کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ مجھے منع کیوں نہیں کرتے؟ تو اس شخص نے کہا کہ انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث تمھیں منع کرنے سے روکتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی بندیوں کو مسجد جانے سے نہ روکو۔
معلوم یہ ہوا کہ خواتین کو مسجد جانے سے روکنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنا ہے اور خواتین سے ان کے اس حق کو چھیننا ہے جو انھیں شریعت نے عطا کیا ہے۔
البتہ یہ بات یاد رہے کہ شریعت نے خواتین کو مسجد جانے کی اجازت دی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسجد جانے کے ضابطے کی پاسداری کا حکم بھی دیا ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا شهِدَتْ إحداكنَّ المسجدَ، فلا تمسَّ طِيبًا[صحيح مسلم:۴۴۳]جب کوئی خاتون مسجد آئے تو خوشبو لگا کر نہ آئے۔
بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أيُّما امرأةٍ تطيَّبَتْ ثُمَّ خَرَجَتْ إلى المسْجِدِ ، لم تُقْبَلْ لَها صلاةٌ حتى تغتسلَ[سنن ابی داؤد:۴۰۰۲]جو خاتون خوشبو لگا کر مسجد جاتی ہے اللہ رب العزت اس کی نماز ہی قبول نہیں کرتا، الا یہ کہ وہ خاتون گھر واپس جاکر غسل کرے اور خوشبو کو اچھی طرح صاف کرلے۔
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
علماء نے زیب وزینت کے اظہار اور اختلاط مرد وزن کو بھی اسی معنی میں داخل کیا ہے۔[فتح الباری:۲/۳۴۹]
خلاصہ کلام یہ کہ خواتین باپردہ ہوکر، بنا خوشبو کے اور زیب وزینت کا اظہار کیے بغیر مسجد جاکر پنج وقتہ نماز وتراویح اداکر سکتی ہیں، انھیں یہ حق شرعا حاصل ہے، بلکہ خصوصی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو تراویح کے لیے جمع کیا اور انھیں مسجد نبوی میں با جماعت تراویح پڑھائی جیساکہ ابو ذر رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں فرماتے ہیں:
فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ[ستائیسویں شب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل وعیال اور ازواج مطہرات کو اور دیگر لوگوں کو جمع کیا، اور اس قدر طویل تراویح پڑھائی کہ ہمیں سحری کے فوت ہونے کا ڈر ستانے لگا۔[سنن ابی داؤد:۱۳۷۵]اب کوئی عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول پیش کرکے یہ نہ کہے کہ مذکورہ احادیث اس قول سے منسوخ ہیں، کیوں کہ حدیث کو حدیث مسنوخ کرتی ہے کسی صحابی کا قول نہیں، نیز عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ:
لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء لمنعهن (أي المساجد) كما مُنعت نساء بني إسرائيل[صحيح البخاری:۸۶۹]اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے زمانے کی عورتوں کو دیکھ لیتے کہ انھوں نے کیا کچھ نت نئی ایجادات کرلی ہیں تو انھیں مسجد جانے سے منع کر دیتے۔
پہلی بات: یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے، اور ان کے قول کے مطابق جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد کی خواتین کے اس معاملہ کو دیکھا نہیں تو منع کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا ہے۔
دوسری بات: عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خواتین کو اس زمانے بھی مسجد جانے کی اجازت دیتے تھے جس زمانے کی بات عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کر رہی ہیں۔
تیسری بات: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے کے بعد بھی مدینہ میں خواتین مسجد میں نماز پڑھنے جاتی رہیں جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ہے۔ [المدونة الكبرى:۱/۱۰۶]
چوتھی بات: ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان خواتین کو مسجد آنے سے روکا جائے گا جو مسجد آنے کے آداب وضوابط کا خیال نہیں رکھتیں، البتہ جو با پردہ ہوکر آتی ہیں انھیں منع کرنا جائز نہیں۔[المحلى:۳/۱۳۶]
پانچویں بات: ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قول کے مقابلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت زیادہ اتباع کے قابل ہے، اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا قول ان خواتین پر محمول کیا جائے گا جو مسجد جانے میں پردہ وغیرہ کا خیال نہیں رکھتیں، لیکن تمام عورتوں کو اس قول میں داخل نہیں کیا جا سکتا۔ [المغني:۲/۳۷۵]
چھٹی بات: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: جو لوگ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قول کو بنیاد بنا کر خواتین کے مسجد جانے کو مطلقا نا جائز قرار دیتے ہیں ان کی یہ بات درست نہیں۔ [فتح الباری:۲/۴۹۵]
اخیر میں مفتی تقی عثمانی صاحب سے ادبا سوال ہے کہ: آپ کے نزدیک فتنہ کے باعث موجودہ دور میں خواتین کا مسجد جانا مکروہ تحریمی ہے تو کیا خواتین کا مسجد الحرام اور مسجد نبوی جانا بھی مکروہ تحریمی ہے؟
کیوں کہ فتنے تو یہاں بھی ہیں، نیز اگر خواتین کا مسجد الحرام اور مسجد نبوی جانا مکرو تحریمی ہے تو حج کے زمانے میں پوری دنیا سے جو خواتین آتی ہیں کیا ان کے لیے حرمین شریفین میں نماز پڑھنا حرام ہوگا؟
نیز فتنہ والی جو علت مسجد جانے میں پائی جاتی ہے وہی علت مطاف، صفا مروہ، منی، مزدلفہ اور عرفات وغیرہ میں بھی پائی جاتی ہے تو کیا خواتین کے لیے حج وعمرہ کرنا بھی حرام ہوگا؟
کیوں کہ ’الحکم یدور مع العلۃ‘
ایک اور بات مفتی صاحب کہ:آپ خواتین کو قبرستان جانے کی اجازت تو دے سکتے ہیں لیکن مسجد جانے کی نہیں ایسا کیوں؟
جبکہ خواتین کے لیے قبرستان جانا شرعا ممنوع ہے اور مسجد جانا مشروع ہے۔
ماشاءاللہ، بہت عمدہ تحریر ہے،