ملتے ہیں مدتوں میں کہیں ہم خیال لوگ
میرے تمام چاہنے والوں کی خیر ہو
اپنے تمام محبین اور خیر خواہوں کے لیے ہم دعائیں ہی کر سکتے ہیں اور کرنی بھی چاہئیں کیوں کہ جس طرح سے لوگ اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں ہمارا آخری حیلہ و حربہ دعا ہی ہے۔ خواہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں مگر جب اجل دستک دے دیتی ہے تو اس جہان فانی سے جدا ہونا پڑتا ہے۔
آج ہر کوئی صدمے سے دو چار ہے کیوں کہ ہر خطہ و قریہ میں کہیں نہ کہیں سے اس کے اپنے، قریبی رشتے دار، دوست احباب اور مخلصین دنیا کو خیر باد کہہ رہے ہیں۔ایسے میں کسی کی موت کی خبر ملنا کوئی حیران کن بات نہیں۔ عام دنوں میں بھی اس طرح کی خبریں ملتی رہتی ہیں کیوں کہ زندگی ہے تو موت بھی آنی ہے؎
زندگی موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستا ہی نہیں
مگر پھر بھی کچھ لوگوں کی رحلت کی خبر بہت تکلیف دیتی ہے۔ان کا ہم سے اچانک جدا ہوجانا بہت کھلتا ہے۔کیوں کہ وہ ہوتے ہی اتنے اچھے ہیں کہ ہر شخص ان کے انتقال پر غم گین اور افسردہ ہوجاتا ہے۔کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ جن کی وفات کے بعد لوگ انھیں اچھے القاب کے ساتھ یاد رکھتے ہیں اور ان کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں۔
آج ایسی ہی کسی شخصیت کے گزر جانے کی خبر میں نے سنی تو دم بہ خود رہ گیا۔کچھ دیر کے لیے تو محسوس ہوا کہ نبض حیات ہی رک گئی ہو۔خبرایسے شخص سے متعلق تھی جس کے بارے میں گمان ہی نہیں گزرا تھا کہ وہ ہمارے درمیان سے اتنی جلدی رخصت ہوجائے گا۔کان کسی اور خبر کی توقع رکھتے تھے کچھ اور سننا چاہتے تھے کیوں کہ ابھی وہ صحت مند و توانا تھے معمولی سی بیماری تھی ۔ اندازہ تھا کہ جلد ہی صحت یاب ہو کر آجائیں گے۔مگر یہ کیا ہوا کہ اچانک ہمیں وہ داغ مفارقت دے گیا۔
جس بھائی نے یہ اندوہ ناک خبر سنائی تھی اس سے کل شب مرحوم کی صحت سے متلعق ہی گفتگو ہو رہی تھی اور ان کے لیے لب پر دعائیں جاری تھیں۔
اسعد کمال بھائی ایک معروف سماجی کارکن تھے۔ مختلف تنظیموں میں ان کا کلیدی کردار ہوتا تھا۔ان کی تنظیم کے ذریعے سینکڑوں ایتام کو امداد فراہم کی جاتی تھی۔بہت خلیق و ملنسار تھے۔ سینے میں دل دردمند رکھتے تھے۔ جس سے ملتے اسے اپنا گرویدہ بنا لیتے۔
ان کا تعلق کپل وستو ضلع کے مشہور گاؤں بنکٹوا سے تھا۔مشہور گانگریسی لیڈر اطہر کمال کے برادر خرد تھے۔لوگوں میں وہ خوداپنی سماجی خدمات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔
موصوف رحمہ اللہ سے میری چند ملاقاتیں رہی ہیں۔ اور یہ ملاقاتیں کسی تقریب ہی کےحوالے سے ہوئی ہیں۔ مگر میں نے ان کے تعلق سے ذاتی طور پرجو محسوس کیا ہے اس سے بالکل بھی نہیں لگتا کہ ان سے مختصر ملاقاتیں رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے برسوں سے شناسائی رہی ہے۔
ان سے آخری ملاقات بھی ایک شادی کی تقریب میں ہوئی تھی۔خبر نہ تھی یہ ملاقات آخری ہوگی۔
وہ اس خوش دلی سے ملتے تھے جیسے کوئی اپنا سگا ہو۔ سلام میں وہ پہل کیا کرتے تھے اور خود آگے بڑھ کے ملاقات کرنا ان کی شان امتیاز تھی۔ ان کی اسی خوبی نے مجھے بہت متاثر کیا اور میں دل سے ان کا قدردان ہو گیا۔مجھ سے ہر بار بڑی محبت سے ملتے تھے اس سے ان کی خرد نوازی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
ایک بار ان سے ایک تقریب میں ملاقات ہوئی انھیں وہاں سے گھر کو جانا تھا مگر میری وجہ سے انھوں نے اپنا روٹ تبدیل کر لیا اور طویل راستا طے کرتے ہوئے اپنے گھر گئے۔
عالمی یوم شاعری کو انھوں نے مجھے اپنے پروگرام میں بہ طور جج مدعو کیا تھا ۔بڑی عزت افزائی کی انھوں نے۔ اس دن میں نے ان کے ساتھ اچھا خاصا وقت گزارا۔
یہ چند ملاقاتیں ہمیشہ یاد رہیں گی اور جب بھی ان کی یاد آئے گی ان کے لیے دل سے دعاے خیر نکلتی رہے گی۔
میں سوچتا ہوں کہ ان کی مختصر ملاقاتوں نے میرے دل پر اتنا گہرا اثر چھوڑا ہے تو ان کا کیا حال ہوگا جنھوں نے ان کے ساتھ زندگی کا بیشتر حصہ گزارا ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے، مرحوم کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ نصیب کرے۔ آمین
اللھم اغفر وارحم وانت خیرالرحمین