رمضان المبارك كا آخرى جمعہ الوداعى جمعہ كہلاتاہے، یعنی رمضان کی رخصتی والاجمعہ،جو خصوصا بر صغير ہندوپاك ميں كافى دهوم دهام سے منايا جاتا ہے۔ بہت سارے لوگ اس جمعہ كے لیے خاص طور پر نئے كپڑے سلواتے ہيں،بہت سارے لوگ يہ سمجھتےہيں كہ اس دن کے خاص احکام اور خاص عبادتیں ہیں، مخصوص سورتوں کے ساتھ نوافل پڑھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے، بلكہ بعض لوگ اس دن قضائے عمرى كى نيت سےنمازيں پڑھتےہيں اور خطباء حضرات خطبہ ميں رمضان كے ختم ہونے پر مخصوص انداز ميں حسرت وافسوس کا اظہار كرتے ہيں۔’’الوداع والفراق والسلام یا شهر رمضان‘‘جيسے الفاظ كا خصوصى اہتمام كرتے ہيں۔
دراصل الوداعى جمعہ اور اس ميں انجام ديے جانے والے خصوصى اعمال وعبادت كا ذكر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے منقول ہى نہيں ہے، نہ صحيح سند سے، نہ ضعيف سند سے، نہ متہم اور وضاع راويوں كى سند سےاور نہ ہى صحابہ كرام، تالعين واتباع تابعين سے منقول ہے اور نہ ہى ائمہ مجتہدين سے۔ بلكہ معتبر متاخرین محدثين و فقہاء کی کتابوں ميں بهى اس كا ذكر نہيں ملتا ہے۔
جمعۃ الوداع كا نام:
رمضان کے آخری جمعہ کو آج عرف عام میں جمعۃ الوداع اور الوداعى جمعہ کاجو نام دیا جاتا ہے، اس كا كوئى ثبوت نہيں ملتا۔ البتہ جمعۃ الوداع منانے والے كچھ لوگ كہتے ہيں كہ جس طرح نبى كريم صلى الله عليہ وسلم کے آخری حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے اسی طرح رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ’جمعۃ الوداع‘قرار دیا جا سکتا ہے۔ ليكن يہ بات درج ذيل وجوہات كى بنياد پر درست نہيں:
(الف) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت كے بعد سن دس ہجرى ميں پہلا اور آخری حج كيا، اس لیے اس حج کو ’حجۃ الوداع‘ کہتے ہیں ۔لیکن آپ کے آخری رمضان کے آخری جمعہ کو ’جمعۃ الوداع‘ نہ آپ نے خود کہا ، نہ کسی صحابی نے ، نہ تابعی نے ، نہ متقدمین ومتاخرین فقہاء ومحدثين نے۔
(ب)حجۃ الوداع صرف آپ كے لیے حجۃ الوداع تها، سيدنا ابو بكر وعمر، عثمان وعلى اور ديگر صحابہ رضى الله عنہم اجمعين نے اس كے بعد بهى حج كيالہذا يہ ان كے لیے حجۃ الوداع نہيں تها۔
با ايں ہمہ اگر مسئلہ صرف نام كى حد تك ہوتا تو اس كى گنجائش ہوسكتى تھى، مگر يہاں صرف نام كا مسئلہ نہيں، بلكہ نام كے ساتھ اس دن انجام ديے جانے والے خصوصى اعمال وعبادات كا ہے جو شرعا ثابت ہى نہيں ہيں۔
الوداعى جمعہ كى خصوصى فضيلت:
الوداعى جمعہ رمضان كے بقيہ دوسرے جمعے كى طرح ہے،اس كو کسی بھی طرح کی کوئی فضیلت اور خصوصيت حاصل نہيں ہے۔ يہ جمعہ آخرى عشرے ميں آتاہے اور آخرى عشرے ميں نبى كريم صلى الله عليہ وسلم عبادت ميں زياده ہى محنت كرتے تھے،اعتكاف كرتےاورراتوں ميں عبادتوں كا اہتمام كرتے۔ اس اہتمام كے باوجود آپ صلى الله عليہ وسلم سے اس آخرى جمعہ كا كوئى خصوصى اہتمام اور كوئى خصوصى عبادت ثابت نہيں ہے اور نہ ہى صحابہ كرام، تالعين واتباع تابعين اور ائمہ مجتہدين سے منقول ہے۔
خطبہ كے دوران بار بار اظہار حسرت:
رمضان كے ختم ہونے پر خطباء حضرات خطبہ کے دوران مخصوص انداز ميں حسرت و افسوس کا اظہار كرتے ہيں اور بار بار کہتے ہیں:الوداع الوداع يا شھر رمضان، الفراق الفراق، السلام السلام یا رمضان اور ان ہی جیسے دیگر الفاظ وعبارات۔
جبکہ اس طرح اظہار حسرت وافسوس اور الوداعی کلمات پر مشتمل خطبات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے منقول ہى نہيں ہيں اور نہ ہى صحابہ كرام، تابعين واتباع تابعين اور ائمہ مجتہدين سے۔
بلكہ رمضان کے گزرنے پر اس مخصوص انداز ميں افسوس کا اظہار خلاف سنت ہے کیونکہ نبى كريم صلى الله عليہ وسلم نے روزے سےافطار كرنے كو روزہ دار كے لیے خوشى كا موقع بتايا ہے۔صحیح بخاری(۷۴۹۲) اور صحيح مسلم (۱۱۵۱) ميں حضرت ابوہریرہ رضى الله عنہ کی روایت ہے كہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا:
وَلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ حِينَ يُفْطِرُ، وَفَرْحَةٌ حِينَ يَلْقَى رَبَّهُ(روزہ دار کے لیےدوخوشیاں ہیں، ایک خوشی اس کو افطار کے وقت ہوتی ہے اور دوسری خوشی اس وقت ملے گی جب وہ اپنے رب سے ملے گا)
افطار كے وقت سے مراد روزانہ افطار كا وقت بھى ہوسكتاہے اور مكمل مہينے كا اختتام بھى ہوسكتاہے، بہر حال دونوں وقتوں ميں ايك روزہ دار عبادت كى تكميل پر خوشى محسوس كرتاہے اور اللہ تعالى نے رمضان کے روزے ختم ہونے اور ربانى احكامات کو بجا لانے کی خوشی ميں اہل ايمان كو عید الفطر كا تحفہ ديا ہے جومسرت وشادمانى سے بهرا سالانہ تہوار ہے تو پھر رمضان کا مہینہ گزرنے پر افسوس کا اظہار کرنے کی کوئی شرعى وجہ نہیں۔
قرآن وسنت كے نصوص پر غور كرنے سے پتہ چلتا ہے كہ عبادت كے اختتام پر –كسى خاص كيفيت كا التزام كیے بغير- عبادت گزار كو شكر الہى، استغفار اور قبوليت عمل كى دعاكا اہتمام كرنا چاہيے۔
ان اموركى قدرے وضاحت ذيل كى سطروں ميں ملاحظہ فر مائيں:
(الف)اللہ کا شکر:
اللہ تعالى كا شكر ادا كرنا چاہيے كہ اس نے اپنے فضل وكرم سے يہ مہينہ نصيب كيااور روزہ ركھنے اور ديگر عبادتوں كو انجام دينے كى توفيق عطا فر مائى۔يہ توفيق اللہ كى عظيم نعمت ہے اور نعمت پر شكر ادا كرنا اس ميں زيادتى كا سبب ہوتاہے۔ رب العالمين روزہ كى آيتوں كے اختتام ميں فرماتاہے:
ولتكملوا العدة وَلِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمۡ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ [البقرة:۱۸۵]وه چاہتا ہے كہ تم (رمضان كى) گنتى پورى كر لو اور الله تعالى كى دى ہوئى ہداىت پر اس كى بڑائى بىان كرو تاكہ تم شكر ادا كرسكو۔
(ب)كوتاہيوں پر استغفار:
عبادت كى ادائيگى ميں جو كچھ كمى اور كوتاہى ہوئى ہے اس پر اللہ سے مغفرت طلب كرنا چاہیے۔ اللہ تعالى متقيوں كى صفت بتاتے ہوئے فرماتا ہے:
كَانُواْ قَلِيلٗا مِّنَ ٱلَّيۡلِ مَا يَهۡجَعُونَ وَبِٱلۡأَسۡحَارِ هُمۡ يَسۡتَغۡفِرُونَ[الذاريات:۱۷-۱۸]يہ ايسے لوگ ہيں جو راتوں ميں كم سوتے ہيں (ىعنى رات كا اكثر حصہ عبادت ميں گزارتے ہيں) اور بوقت سحر اللہ سے مغفرت طلب كرتے ہيں۔ اور سنت نبوى ہے كہ آپ صلى الله عليہ وسلم فرض نمازوں كى ادائيگى كے بعد تين مرتبہ استغفار كرتے تھے۔ (صحيح مسلم:۹۳۵)
(ج) قبوليت عمل كى دعا:
نيك عمل كرنے كے دوران اور كرنے كے بعد رب العالمين سے قبوليت عمل كى دعا كرنا چاہيے۔ حضرت ابراہیم واسماعيل –عليهما السلام- خانہ كعبہ كى ديوار اٹھاتے ہوئے يہ دعا كرتے تھے:
رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡعَلِيمُ[البقرة:۱۲۷ (ہمارے پروردگار !تو ہم سے قبول فرما،تو ہى سننے والا اور جاننے والا ہے۔
بعض سلف سے منقول ہے كہ وہ چھ ماہ تك دعا كرتے تهے كہ رمضان ميں كیے ہوئے اعمال كو الله تعالى قبول فرمائے، جيساكہ قوام السنة ابو القاسم اصبہانى نے التر غيب والترهيب (۱۷۶۱) ميں معلى بن الفضل كے حوالے سے نقل كيا ہے۔
واضح رہے كہ ہمارى گفتگو مخصوص انداز ميں رائج الوداعى خطبہ پر ہے، خطيب كا لطيف عبارتوں ميں رمضان كے ختم ہونے كا ذكر كرنا اور بقيہ ايام ميں عبادت كى ترغيب دينا اس ميں شامل نہيں ہے، بلكہ يہ تو خطبہ كے محاسن ميں سے ہے۔ واللہ اعلم
الوداعى جمعہ كے دن پڑھى جانے والى قضائے عمرى:
اس دن قضائے عمرى كى نيت سے جو نماز پڑھى جاتى ہے وہ عقل ونقل كے خلاف ہے، اس كا ذكر قرآن وحديث ميں تو در كنار كسى فقہى مسلك كى معتبر كتابوں ميں بهى نہيں ملتااور اس كا انجام نہايت خطرناك ہے۔اس لیےكہ يہ لوگوں كے لیے نماز چھوڑنے كا راستہ ہموار كرتى ہے، كيوں كہ وہ يہ سمجھتے ہيں ان كى سارى ترك كرده نمازوں كى تلافى الوداعى جمعہ كے دن ہوجائے گى، جبكہ نماز ايمان وكفر كے درميان فرق كرنے والى عبادت ہےاور جمہور اہل علم كا قول يہ ہے كہ اگر كوئى شخص جان بوجھ كر بغير كسى عذر كے نماز چھوڑتاہے يہاں تك كہ اس كا وقت نكل جائے اور توبہ نہيں كرتا ہے تو وہ گردن زدنى كاسزاوار ہے۔ فتاوى عالمگيرى (۲/۲۶۸)ميں ہے:
’’جو شخص صرف اور صرف رمضان ميں نماز پڑھتاہے اور كہتا ہےكہ يہ بذات خود بہت ہے كيونكہ رمضان كى ہر ايك نماز ستر نماز كے برابر ہے تو اسے كافر قرار دياجائےگا۔‘‘
علامہ عبد الحى لكھنوى نے ردع الإخوان عن آخر جمعة رمضان(ص:۲۱-۲۲) ميں اس كى وضاحت كى ہے جس كا خلاصہ يہ ہے كہ اسے كافر قرار دياجائےگا كيونكہ وہ اپنے اس عقيدے كى وجہ سے جان بوجھ كر نماز چھوڑتاہے، نہ كہ ثواب كى زيادتى كا عقيدہ ركھنے كى وجہ سے۔ اور ثواب كى زيادتى كا مطلب ہرگز يہ نہيں كہ ايك نماز كئى نمازوں كے لیے كافى ہوجائےگى، اس پر علمائے امت كا اتفاق ہے۔
واضح رہے كہ مذكورہ قضائے عمرى كے سلسلے ميں بعض كتابوں ميں بغير كسى سند كے كچھ موضوع روايات ذكر كى جاتى ہيں، جيسے:
من قضى صلاة من الفرائض في آخر جمعة من شهر رمضان؛ كان ذلك جابرًا لكل صلاة فاتته في عمره إلى سبعين سنة( جو رمضان كے آخرى جمعہ ميں فرائض ميں سے ايك نماز قضا كرےگا تو يہ نماز اس كى زندگى ميں ستر سال تك فوت ہونے والى نمازوں كا كفارہ ہوگى)
يہ روايت موضوع ہے، كتب حديث ميں اس كا ذكر بھى نہيں ملتا، ملا على قارى حنفى نے الأسرار المرفوعة (رقم:۵۱۹) ميں اسے باطل قرار ديا ہےاور واضح كيا ہے كہ يہ حديث اجماع امت كے مخالف ہے، كيونكہ امت كا اس بات پر اجماع ہے كہ ايك عبادت كئى سالوں كى فوت شده عبادت كے قائم مقام نہيں ہوسكتى۔ علامہ عبد الحى لكھنوى نے ردع الاخوان (ص:۴۰-۶۲) ميں اس روايت كو اور اس معنى كى كچھ اور روايتوں كا ذكر كيا ہے جو كتب اوراد ووظائف ميں بے سروپا رواج پاچكى ہيں اور ان كے بطلان پرعلماء كے اقوال كى روشنى ميں سير حاصل بحث كى ہے۔
اكابر علمائے ديوبند كا موقف:
جمعۃ الوداع ميں رائج مختلف خصوصى اعمال وعبادات پر اكابر علمائے ديوبند نے قدغن لگائى ہے، مولانا رشید احمد گنگوہی نے ’فتاوی رشیدیہ‘ (ص:۱۵۷-۱۵۸) میں، مولانا اشرف علی تھانوی نے ’امداد الفتاوی‘(۳/۱۴۷-۱۴۹) ميں، مفتی دارالعلوم دیوبند، مفتی عزیز الرحمن عثمانى نے ’فتاوی دارالعلوم دیوبند‘(۵/۵۳-۷۸-۸۱-۹۹) میں، مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی نے ’فتاوی محمودیہ‘(۸/۲۹۵-۲۹۶)میں،مفتی محمدشفیع عثمانى نے ’امداد المفتیین‘ (ص:۳۴۴) میں ،مفتى محمد تقى عثمانى نے اصلاحی خطبات (۱۲/۶۷) ميں اور مولانا شبير احمد قاسمى نے فتاوى قاسميہ (۹/۴۲۷-۴۳۳) ميں اس كے غير مشروع ہونے كا فتوى صادر كيا ہے۔ بعض نے تو بدعت ہونے كى صراحت كى ہے۔
اس كے بدعت ہونے كا فتوى دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن، كرانچى كى ويب سائٹ (فتوی نمبر:۱۴۳۹۰۹۲۰۰۸۱۵) پراوردار الافتاء دارالعلوم دیوبند (فتوى نمبر:۴۸۴۰۵) كى ويب سائٹ پربهى ديكھا جاسكتاہے۔
اللہ رب العزت ہميں قرآن وحديث كو صحابہ وتابعین كے نہج پر سمجھنے اور اس پر عمل كرنے كى توفيق دے۔
آپ کے تبصرے