فکری جنگ

عامرسہیل متفرقات

مذہبی، مالی و ثقافتی بالادستی اور قیادت کے شوق نے اقوام عالم کو ایک دوسرے سے بر سرپیکار رکھا ہے، اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہاتھ، ہتھیار، زبان و قلم اور دوسرے مختلف قسم کے اثر انداز وسائل کو زیر استعمال لایا گیا ہے، انھی وسائل میں سے ایک اہم وسیلہ ’فکری جنگ‘ بھی ہے۔
فکری جنگ عربی اصطلاح ’الغزو الفکری‘ کا اردو مفہوم ہے جس کا معنی ہے:’’جنگی ہتھیاروں کے بغیر دشمن سے جنگ اور اس کے خاتمہ کی کوشش۔‘‘ (الغزو الفکری التحدی والمواجهة: ص۱۴)
ڈاکٹر عبدالستار فتح اللہ سعید نے الغزو الفکری (فکری جنگ) کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے:’’کسی دشمن کے رخ کو بدل دینے، اس کی قیادت کو ختم کرنے اورمقاصد زندگی کےحصول کے لیے انسانوں کے ذریعہ دشمن کے خلاف استعمال کیا جانے والا ایک ذریعہ ہے۔‘‘ ( الغزو الفكري والتيارات المعادية للإسلام :۲۱)
فکری جنگ کے مذکورہ مفہوم سے یہ واضح ہوگیا کہ اس جنگ میں گولہ بارود کی جگہ کسی بھی دشمن کے خلاف فکر اور سوچ کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، چونکہ دور حاضر میں فکری جنگ کا اصل ہدف اسلام ہے اس لیے اسلام کے خلاف چھیڑی گئی اس جنگ کا مفہوم یوں بیان کیا گیا ہے:
’’ہتھیاروں کے بغیر دشمنان اسلام کا اسلام سے جنگ کرنا، اس کے خاتمے کی کوشش کرنا، اس کے اثر و نفوذ کو روکنا، مسلمانوں کو مرتد بنانا یا کم ازکم ان کی استقامت کو ڈگمگا دینا تاکہ ان پر اپنا حکم چلایا جائے، ان سے فائدہ حاصل کیا جائے اور ان کی طاقت کے سرچشمے کو مٹادیا جائے۔‘‘( الغزو الفكري التحدي والمواجهة :۱۴)
انبیاء و رسل کی بعثت کے ساتھ ہی ان کے مخالفین نے اس اہم وسیلے کا استعمال شروع کردیا جس کا سلسلہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم تک پہنچا اور آج بھی جاری ہے۔
اسلام جزیرہ عرب سے نکلااور اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلاگیا، اسلامی سلطنتیں مضبوطی کے ساتھ قائم ہونے لگیں، روم و فارس مسلمانوں کے زیر نگیں آگئے، لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے لیکن انسانوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی اسلام دشمنی پر قائم رہی اور باوجود اس کے کہ ان کے اندر اب مقابلے کی سکت نہ رہی پھر بھی کچھ اپنے کفر پر باقی رہے اور کچھ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اس کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔
پھر عرصہ بعد صلیبی جنگوں کا دور شروع ہوا، اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی غرض سے اہل یورپ لاؤ لشکر کے ساتھ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے جی جان سے لگ گئے، اہل اسلام بھی مقابلے پر آئے، استقامت اور عزم و بلند حوصلے سے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا، انھیں ناکوں چنے چبوائے اور بالآخر ان کے بادشاہ لویس نہم کو گرفتار کرکے ان کی تمناؤں اور آرزوؤں کو خاک آلود کردیا۔
یہیں سے دشمنان اسلام نے اپنی حالت پر غور کیا، اپنی شکست و ناکامی پر نظر دوڑائی اور اپنے جانی و مالی نقصانات کا اندازہ لگایا پھر ایک پرانے وسیلے ’فکری جنگ‘ کو کامیابی کی کلید مان کر نئی حکمت عملی سے میدان میں آئے، انھیں یہ ماننے میں ذرا بھی تامل نہیں تھا کہ ہم میدان جنگ میں مسلمانوں کے مقابلے کے قابل نہیں ہیں بلکہ تیر و تلوار کی جنگ میں ہم نے جو نقصان اٹھایا ہے اس کی بھرپائی بھی ممکن نہیں ہے اسی لیے انھوں نے فکری جنگ کو ترقیاتی منصوبوں سے ہمکنار کیا، فکری حملہ آوروں کی فوج تیار ہوئی اور جو مقاصد خون خرابے کی جنگ سے حاصل نہ ہوسکے تھے انھیں فکر کے ہتھیار سے حاصل کرنے کی تگ و دو کی جانے لگی جس کی عملی ابتدا پرتگالی بیڑوں کی عالم اسلام کے ساحلوں پر لنگر اندازی سے ہوئی اور آہستہ آہستہ مطلوبہ منزل کی جانب قدم بڑھائے جانے لگے یہاں تک کہ انیسویں صدی کے اواخر میں سقوط خلافت کے بعد اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ کفار کے زیر تسلط آگیا اور اسلامی دنیا ان کی عیاری و مکاری کی بھینٹ چڑھ گئی۔
اہل یورپ استعماری مرحلے میں اسلامی ممالک کے سیاہ و سفید کے مالک اور بے انتہا اثر و نفوذ کے باوجود اطمینان سے بیٹھے نہیں رہے اور نہ ہی انھوں نے اپنا وقت بربادی کی نذر کیا بلکہ ایک منظم حکمت عملی کے تحت اپنے منصوبوں کی تنفیذ بھی شروع کردی جس کے دو بنیادی مقاصد تھے:
۱۔ایسی نسل تیار کرنا جو ان کی ثقافت سے مانوس ہو تاکہ ان سے رابطے اور افہام و تفہیم میں آسانی ہو۔
۲۔آنے والی نسل کے پاس مذہب، اسلامی ثقافت اور دینی غیرت و حمیت نام کی کوئی چیز باقی نہ رہے۔
فکری جنگ میں مقصود کے حصول کے لیے مختلف قسم کے وسائل و ذرائع کا استعمال کیا جاتا رہا ہے جن میں کچھ ظاہر ہیں تو کچھ پوشیدہ طور پر اپنا کام کررہے ہیں، چونکہ اسلام کے خلاف جاری جنگ کا مقصد اسلام کی شبیہ کو داغدار کرنا، اس کی اصل کو مسخ کرنا ہے اسی لیے اسلامی شریعت کو نشانہ ہدف بناکر اسلامی عقیدہ و تاریخ اور طرز معاشرت کی تخریب کاری اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس راہ میں تعلیم، میڈیا، خیراتی اداروں اور ثقافتی مراکز کو بطور وسیلہ اپنایا جارہا ہے، ان وسائل میں تعلیم سب سے اہم ہے کیونکہ تعلیم ایک نہ ختم ہونے والی ضرورت ہے اور ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے لازمی ہے اسی لیے فکری جنگ کے رہنماؤں نے طے کیا کہ کسی نہ کسی طرح عالم اسلام کی تعلیم میں نقب زنی کی جائے تاکہ اپنے فکری حملہ آوروں کے ذریعہ نونہالان اسلام کو بے دینی، بد اخلاقی، نام نہاد ترقی، عریانی، بے غیرتی اور تہذیب و ثقافت کے نام پر ڈھکوسلا دیا جاسکے۔
اسی لیے اسکالر شپ کی منصوبہ بندی ہوئی اور اعلی تعلیم کے بہانے عالم اسلام سے طلبہ کو اپنے یہاں لے جاکر برین واشنگ کی گئی اور ان کے ذہن و دماغ میں اسلام کے خلاف شکوک و شبہات کا بیج بویا گیا اور جب یہی طلبہ واپس اپنے ملکوں میں پہنچے تو گمراہی اور لادینیت کی دعوت کو عام کرنا شروع کردیا۔
یقینی طور پر فکری جنگ میں دشمنان اسلام فتح و کامرانی سے ہمکنار ہیں اور اسی کا مظہر ہے کہ دین اور حکومت کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرکے دیکھا جارہا ہے بلکہ دین کو فقط عبادت گاہوں تک محصور کردیا گیا اور عملی زندگی انسانی قوانین اور نظام سے چلائی جارہی ہے، نئی تہذیب و ثقافت کا ڈھونگ جاری ہے، اخلاقی اقدار کا فقدان ہے اور بد دینی و الحاد کو روز افزوں ترقی مل رہی ہے۔
ان حالات کے پیش نظر ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ جیسے ہمارے اسلاف نے میدان جنگ میں انھیں ہزیمت سے دوچار کیا تھا ویسے ہی ہم بھی ان کے مقابلے پر آئیں، دفاعی پوزیشن سے آگے بڑھ کر خود حملہ آور ہوں اور بطور وسیلہ انھی چیزوں کی مدد لیں جن کے ذریعہ ہمارے دین اور تہذیب و ثقافت کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ مادی چیزیں کسی کو پہچانتی نہیں ہیں جو ان سے فائدہ اٹھانا چاہے اسی کا ساتھ دیتی ہیں، ہمیں چاہیے کہ مذہب پر استقامت کے ساتھ نئی تدبیر اور منظم حکمت عملی کے ساتھ موہوم فکر کا جواب بہتر فکر سے دیں۔

آپ کے تبصرے

3000