اسلام کا وقتی بیانیہ ایک جائزہ (قسط نمبر تین)

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی تنقید و تحقیق

پچھلی دو قسطوں(اسلام کا وقتی بیانیہ:ایک جائزہ قسط اول/ قسط دوم) میں وقتی بیانیہ سے متعلق کئی ایک بنیادی باتوں کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ گفتگو کو گزشتہ سے پیوست کرکے آگے بڑھاتے ہیں اور ایک اور بیانیہ دیکھتے ہیں، جس کی تاریخ بھی طویل ہے اور جس کے اثرات بھی دور رس رہے ہیں اور جس کے مظاہر آج بھی جابجا نظرآتے ہیں،وہ ہے عقلانی بیانیہ یا

عقلی بیانیہ۔

انسانی عقل اللہ کی دی ہوئی بہت بڑی اور غیر معمولی نعمت ہے۔قرآن وسنت میں جابجا اس کے استعمال کی ترغیب ملتی ہے۔’’ آیات لقوم یعقلون‘‘ اور ’’ أفلا یتدبرون القرآن‘‘اور ’’کتاب أنزلناہ إلیک مبارک لیدبروا آیاتہ‘‘ جیسی تعلیمات قرآن کے محکم اور لازوال پیغام کا اٹوٹ حصہ ہیں اورعقل پر پردہ ڈال لینے والوں کی یا اسے پس پشت ڈلال دینے والوں کی سخت الفاظ میں سرزنش بھی کرتی ہیں ۔

قرآن وسنت اسی رب حکیم کی طرف سے اتارے گئے ہیں جو اس عقل کا خالق ہے۔ اوراسی خالق ومالک کی طرف سے انسانی عقل کو یہ دعوت ہے کہ وہ خالق کی طرف سے نازل کردہ قرآن وسنت کے مقصود ومنشا تک پہنچے، یہ اس عقل کی عبادت بھی ہے اور اس کا امتحان بھی۔ تاہم یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانی عقل کی کارکردگی کا بھی ایک محدود دائرہ ہے، سماعت بصارت ودیگر جسمانی قوتوں کی طرح انسانی عقل کی بھی اپنی ایک پہنچ ہے۔ اپنے دائرے میں یہ عقل اور اس کابھرپور استعمال جس قدرمفید اہم اور ضروری ہے اپنے دائرے سے باہر اس کا استعمال اسی قدر مضر اور نقصاندہ ہے۔ (اس نکتہ کی تفصیل کے لیے دیکھیے: فکرونظر کی بندگی)

عقلی بیانیہ کیا ہے؟

عقل انسانی کے سلسلے میں اس بنیادی حقیقت اور حیثیت کو تسلیم کرلینے کے بعد ہم آتے ہیں اس طرز عمل کی طرف جسے عقلی بیانیہ کا نام دیا ہے، قرآن مجید میں ذکر کردہ آیاتِ انفس وآفاق ہوں کہ شرعی وکونی آیات، ان میں تدبروتفکرسے کام لینا اور عبرت ونصیحت کا سامان مہیا کرلینا اسلامی تعلیمات و احکام کی بوقت ِضرورت بقدر ِضرورت عقلی توجیہ کرناخدمت اسلام کا ایک اہم باب ہے۔ تاہم اسلام اور احکام اسلام کو انسانی عقل کے تابع کردینا، ہربات کو عقل کے پیمانے پر تولنا،نصوص کی خدمت میں عقل کے استعمال کے نام پر عقل کو نصوص پرحاکم بنادینا اور پھر یہ ضابطہ بنالینا کہ جو ہماری عقل میں سمائے وہی حقیقت ہے، جو نص ہماری عقلوں سے ٹکرائے ہم اس کی عقلی توجیہ کریں گے اور اگر عقلی توجیہ ممکن نہ ہوتو اسے قبول کرنے میں توقف، تأمل، تردد بلکہ انکار واستنکار کی تمام ممکنہ صورتوں کو اپنانے کی بات کرناافراط وغلوہے اور اسی طرز عمل کا نام عقلی بیانیہ ہے۔ یعنی آیات قرآنی، احادیث نبویہ،احکام اسلام سب کے سب عقل کے ترازو میں تولے جائیں گے، یہ دراصل انسانی عقل کی سرکشی ہے، نصوص کے متعین معانی ومفہوم سے بغاوت ہےاور عقل کے باب میں خود اعتمادی کا وہ درجہ ہے جو خود فریبی سے خدا فریبی تک لے جاتا ہے۔ اس بیانیہ کا آغاز تو عقلی توجیہ جیسی قابل قبول بنیاد سے ہوتا ہے تاہم اس کا انجام ’’أنا خیر منہ خلقتني من نار وخلقتہ من طین‘‘ جیسی ادبار واستکبارکی ابلیسی روش پرہوتا ہے۔

ہمارے عہد کے مفکرین اور قلمکاروں کے درمیان یہ مانا جاتا ہے کہ عصر حاضر سائنٹفک دور ہے لہذا عقل ِانسانی ہر معاملے میں اپنی تسلی چاہتی ہے اور بنا اس تسلی کے کسی چیز کو تسلیم کرلے جانا اس کے لیے ایک ناقابل قبول عمل ہے۔ لہذا اسلام کواور اس کی ہر ایک تعلیم کو معقول ثابت کرنا عصرحاضر کا چیلنج ہے بلکہ بعض حضرات کے نزدیک یہ عصر حاضر میں کار ِتجدید کا سب سے اہم باب ہے۔

قطع نظر اس سے کہ کیا واقعتا انسان ہر چیز کو مشاہدہ او رمحسوس کے درجہ میں دیکھے تبھی مانتا ہے؟ کیا انسانی زندگی کے سبھی معاملات اس پیمانے پر کھرے اترتے ہیں؟ یا انسان اپنی روز مرہ کی زندگی میں روح کی حقیقت جیسی بہت ساری باتوں کو ’’معقولیت‘‘ کے درجہ سے پرے بھی تسلیم کرتا ہے؟ ہم اس مسئلہ کی طرف بڑھتے ہیں کہ کیا اسلام’’سائنٹفک‘‘ ہے؟ کیا اسلام کی ہر تعلیم ’’معقول‘‘ ہے؟

اس سوال کا جواب کچھ یوں ہوگا کہ اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اسلام اپنے آپ میں ایک معقول دین ہے کیونکہ عقل رب کائنات کی تخلیق کا شاہکارہے تو دین اسلام اس رب کی تشریع کا‘{ألا لہ الخلق والأمر تبارک اللہ رب العالمین} سن لو! تخلیق بھی اسی کی ہے اور حکم (تشریع)بھی اسی کا، اللہ بڑا بابرکت ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔(الأعراف :۵۴)گویاعقل ونقل دونوں کا مرجع رب کائنات ہی ہے او ر رب کائنات نے اپنے بارے میں ارشاد فرمایا ہے: {أفلا یتدبرون القرآن ولوکان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا}کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف دیکھتے۔(النساء :۸۲) گویا دین وعقل میں باہم رشتہ توافق کا ہے تضاد کا نہیں ۔

اس بنیادی مسئلہ پر غور وخوض کے بعد اس کو سمجھ لیا جائے تو یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت بن جاتی ہے کہ اسلام ایک انتہائی معقول دین ہے جس کی ہر تعلیم حکمتوں بھری ہے۔ تاہم یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ اس کی معقولیت کا ادراک کرنا اپنے آپ میں ایک مستقل کام ہے، اس کی معقولیت کبھی بدیہی طور پر ظاہر ہوجاتی ہے تو کبھی سر کھپا کر بھی اس کی بعض تعلیمات کی حکمت اور معقولیت تک پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے۔یہ ضروری نہیں کہ اسلام کے ہر حکم کی معقولیت کا ادراک انسان کے بس میں ہو! اسی لیے فقہاء علت کی بحث کرتے ہوئے بارہا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ حکم ’’غیر معقول المعنی‘‘ ہے یا اس حکم کی علت ’’غیر معقولۃ المعنی‘‘ہے ۔

یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر حکم کی معقولیت کا ادراک ہر شخص کے بس میں ہواور یہ بھی ضروری نہیں کہ ایک چیز ایک شخص کی نظر میں معقول ہو تو وہ دوسرے کی نظر میں بھی معقول ہی ٹھہرے یا اس کے بالکل برعکس ایک چیز ایک شخص کی نظر میں غیر معقول ٹھہرے تو سدا وہ غیر معقول ہی رہے۔ یہ عقلوں کا تفاوت ہے جودین یا شریعت کے ایک ہی مسئلہ سے متعلق مختلف عقلی مظاہر کو جنم دیتا ہے ۔

اس پر مستزاد یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عقلوں کا یہ تفاوت بسا اوقات ایک ٹکراؤ کو بھی جنم دیتا ہے جس کے نتیجے میں معقولیت کی تحدید میں یہ عقلیں باہم متصادم بھی ہوجاتی ہیں۔ ظاہر ہے ایسے میں دین کو ایسی مضطرب عقل سے جوڑنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ یہ دین معقولیت کے باب میں ایک مضطرب دین ہوگا، عقلوں کے باہمی تفاوت اور پھر تصادم کے نتیجہ میں نصوص کامفہوم بھی اضطراب کا شکار نظر آنے لگے گا۔ جب عقل انسانی کایہ حال ہو تو پھر ہر حکم اور ہر تعلیم اور ہر مسئلہ کو معقولیت کی قید سے باندھنا اور اسے قبول کرنے یا نہ کرنے کے لیے اسی معقولیت کو شرط قرار دینا نصوص کے ساتھ ظلم نہیں تو اور کیا ہے ۔

دین اسلام نے تو متضاد اور متفاوت عقلوں کو دین کی بنیاد فراہم کرکے یکجا کیا تھا {وألف بین قلوبھم لوأنفقت ما في الأرض جمیعا ما ألفت بین قلوبہم ولکن اللہ ألف بینہم} اور ان کے دل ایک دوسرے سے جوڑدیے، تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان کے دل نہ جوڑسکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑدیے۔ (الأنفال :۶۳)لیکن عقلانی بیانیہ کی کارستانی دیکھیں تو معاملہ بالکل اس کے برعکس نظرآئے گا۔ ایک ہی آیت بسااوقات متعدد اور اکثر متضاد توجیہات کی حامل قرار پائے گی۔ علاہ ازیں آج کی عقلانی توجیہات کل کے مفہوم کو غیر معتبر قرار دیں گی اور آئندہ حالات تبدیل ہوں تو ایک نئی عقلی توجیہ سابقہ وموجودہ تمام توجیہات کو غیر معتبر قراردیں گی ۔

اسی لیے شریعت نے عقل کو مدار تکلیف تو قراردیا تاہم نصوص کی معقولیت کو قبول ورد کا معیار نہیں قراردیا۔ اسی لیے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ قرآن وسنت سے ثابت شدہ حقائق کی حتی المقدور تعلیل وتوجیہ کرنا ایک مستحسن عمل ہے لیکن اسی تعلیل وتوجیہ کو قبول ورد کا معیار قراردینا نصوص کے ساتھ سراسر ظلم وزیادتی ہے۔مدعا ثابت شدہ حقائق کی معقول توجیہ کرنے یا نہ کرنے کا ہے ہی نہیں، ثابت شدہ حقائق کی معقول توجیہ کرنے کو تعلیل و توجیہ کا باب کہتے ہیں۔ شروحات حدیث اور فقہاء کی عبارتوں میں اس کے بے شمار نمونے ملتے ہیں۔ اصل مدعا یہ ہے کہ دعوی تو یہ کیا جائے کہ دنیا میں قرآن سے زیادہ عقل کی بات کرنے والی کتاب نہیں ہے مگر عملا اپنی عقلوں کو اس عظیم کتاب کے سمجھنے سمجھانے میں لگانے کے بجائے، اس کتاب پر حاکم بنادیا جائے، اس کتاب کو خود ساختہ عقلی سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے جیسے قرآن عقل کا سر چشمہ نہیں بلکہ عقل قرآن کا سانچہ ہو۔

یہ بھی ضروری نہیں کہ اسلامی احکام کی معقولیت کا ادراک ہر فردِبشر کی عقل کے بس کی بات ہوبالفاظ دیگرکسی حکم کی معقولیت کی دعویدار ہر عقل کادعوی محض اس لیے مقبول نہیں ہوگا کہ وہ معقولیت کی بات کرتی ہے، خاص طور پر اسے معقول بتانے یاثابت کرنے کی وہ شکل جو کبھی اس کے حقیقی معنی ومفہوم کو تاویل کا جامہ پہنائے اور کبھی اس کے آدھے ادھورے مفہوم کو تسلیم کرے اور باقی آدھے حصہ پر سوالیہ نشان لگادے؟ ایسی کسی بھی ’’معقول‘‘ توجیہ کو اسلام یا اسلامی قرار دینا ہی دراصل عقلی بیانیہ یاعقل کی طغیانی کامظہر ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اسلامی عقائد، عبادات، معاملات سے متعلق احکام اور اخلاقی اقدار اور ضابطے اپنے آ پ میں جہاں بہت حد تک واضح اور معقول بنیادوں پر قائم نظر آتے ہیں وہیں اسلامی تعلیمات میں کئی احکام ایسے ہیں جو بظاہر انسانی عقل کے ادراک سے پرے ہیں جیسے نماز جیسی عبادت کی جزئیات وتفصیلات۔ بعض تعلیمات ایسی بھی ہیں جو ابتداء عقل سے ٹکراتی نظر آتی ہیں جبکہ فکر وتأمل کے بعد یہ ٹکراؤ باقی نہیں رہ جاتا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسلام کی بعض تعلیمات کی معقولیت سمجھ سے پرے ہوتی ہے۔ یہی دراصل امتحان ہے! یہی دراصل عقل کی طغیانی کا مقام ہے! یہی دراصل عقل کی بندگی کا مقام ہے جہاں بہت سارے لوگوں کی عقل پیدل ہوجاتی ہے حالانکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سرپٹ دوڑ رہی ہے !

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اسلام کی ہر تعلیم کی معقولیت واضح کرنے کا یہ چکر غیر مسلموں کو مطمئن کرنے کے نام پر شروع ہوتا ہے تاہم اس کا اختتام وانجام خود مسلمان کے اپنے اندر’’بزعم خویش‘‘ ’’غیر معقول‘‘ احکام ِ اسلام کے تئیں شک وشبہ سے لے کر استغراب وانکارتک جاپہنچتا ہے۔ حالانکہ ایسے مسائل و احکام میں مسلم وغیر مسلم ہر دو ذہن کو یہ مسلّمہ حقیقت یاد دلانی کافی ہے کہ ضروری نہیں کہ کسی کی عقل جس حقیقت کو نہ سمجھ پائے وہ حقیقت ہی نہ ہو خاص طور پر اس وقت جب یہ احکام اس حقیقت کا مظہر ہوں{وإنہ لکتاب عزیز لایأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید}یہ ایک زبردست کتاب ہے جس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتا، نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے، یہ ایک حکمت والے اور قابل تعریف کی طرف سے نازل کردہ ہے۔(فصلت: ۴۱‘۴۲) اور انسان {وخلق الإنسان ضعیفا} انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے (النساء:۲۸) کا مظہر ہو۔

یہاں بات بہت آسان ہے کہ احکام اسلام کی معقولیت پر سوال اٹھانے کے بجائے انسانی عقل کے عجز کا اعتراف کیا جائے یا یہ بھی ممکن ہے کہ انسانی عقل سے خود دریافت کیا جائے کہ جس شارع کی تشریع میں جابجاتم نے خود انتہا درجہ کی معقولیت پائی ہے اسی شارع کے بعض احکام کی علت یا حکمت یا اس کی معقولیت تمھار ے ادراک سے پرے ہو تو اس کے بارے میں صحیح موقف کیا ہونا چاہیے؟ اس بات کو تسلیم کرلینا کہ دیگر احکام کہ طرح یہ حکم بھی انتہائی معقول ہی ہوگا گرچہ میں اس کے ادراک سے قاصر ہوں یا پھر یہ کہ جب تک میں اس حکم کو اپنی ناقص عقل کے معیار پر تول نہ لوں اور یہ میری اپنی عقل کے پیمانے پر کھرا نہ اترے تسلیم نہیں کروں گا؟

ظاہر ہے کہ انسانی عقل خود کہتی ہے کہ ایسی صورت میں انسانی عقل کے عجز کا اعتراف ہی ایک معقول موقف ہے یا انسانی عقل کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ احکام بھی دیگر احکام کی طرح معقول ہی ہیں گرچہ اس کی معقولیت میری پہنچ سے باہر نظر آتی ہے۔

شیخ الإسلام ابن تیمیہ او ر ان کے شاگرد رشیدعلامہ ابن قیم رحمہما اللہ نے عقل ونقل کی معرکہ آرائی کے اس عقدہ کو بڑے آسان الفاظ میں سلجھادیا ہے اوربعض احکام اسلام کی معقولیت کے ادراک کے سلسلے میں انسانی عقل کو درپیش اس مشکل کو سادہ الفاظ میں سمجھا دیا ہے۔وہ فرماتے ہیں(الشریعۃ ما أتت بما تحیلہ العقول ولکن أتت بما تحار فیہ العقول) یعنی شریعت میں ایسی کوئی بات ہے ہی نہیں جو عقلا محال ہو ہاں ایسی باتیں ضرور ہیں جن کے سمجھنے کے سلسلے میں عقلیں حیران رہ جائیں۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی درج ذیل عبارتیں دیکھیں، کس قدر مشّاقی سے وہ اس عقدہ کو کھول رہے ہیں، فرماتے ہیں :

(ونحن نعلم قطعا أن الرسل لایخبرون بمحال العقول وإن أخبروا بمحارات العقول فلا یخبرون بمایحیلہ العقل وإن أخبروا بما یحار فیہ العقل ولایستقل بمعرفتہ)ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ رسول ایسی کوئی بات نہیں بتلاتے جو عقلا محال ہو، ہاں وہ ایسی باتیں ضرور بتلاتے ہیں جن کے سلسلے میں عقلیں حیران رہ جائیں۔ وہ عقلا محال باتیں نہیں بتلاتے البتہ وہ ایسی باتیں ضرور بتلاتے ہیں جن کے سلسلے میں عقل حیران ہوجاتی ہے اور جن کا ادراک محض عقل کے بس کا روگ نہیں ہے۔(الصواعق المرسلۃ في الرد علی الجھمیۃ ۳:۸۳۰)

ایک مقام پر فرماتے ہیں :

(فالأنبیاء لم تأت بما یخالف صریح العقل البتۃ وإنما جاء ت بما لایدرکہ العقل فما جاء ت بہ الرسل مع العقل ثلاثۃ أقسام لا رابع لھا البتۃ قسم شہدبہ العقل والفطرۃ وقسم یشہد بجملتہ ولایھتدي لتفصیلہ وقسم لیس في العقل قوۃ إدراکہ وأما القسم الرابع وھو ما یحیلہ العقل الصریح ویشھد ببطلانہ فالرسل بریئون منہ وإن ظن کثیر من الجھال المدعین للعلم والمعرفۃ أن بعض ما جاء ت بہ الرسل یکون من ھذا القسم فھذا إما لجھلہ بما جاء ت بہ وإما لجھلہ بحکم العقل أو لھما۔)

انبیاء کی لائی ہوئی باتوں میں ہرگزایسا کچھ نہیں ہے جو عقل کے صریح خلاف ہو، ہاں انبیاء ایسی باتیں ضروربتلاتے ہیں جن کے ادراک سے عقل قاصر ہے۔ انبیاء کی لائی ہوئی باتیں عقل کی روشنی میں تین حیثیت رکھتی ہیں، ان کی باتوں میں چوتھی کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔پہلی قسم وہ باتیں ہیں جو عقل اور فطرت کے عین مطابق ہیں، دوسری قسم میں وہ باتیں آتی ہیں جن کاادراک عقل کے لیے مجملا ممکن ہے اور اس کی تفصیلات کا ادراک اس کی پہنچ سے دور ہے اور تیسری قسم میں وہ باتیں ہیں جن کا ادراک عقل کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ان تین قسم سے ہٹ کر چوتھی قسم وہ ہے جو عقل صریح کے نزدیک محال ہو اور عقل اس کے باطل ہونے پر شاہد عدل ہوتو رسول (اوران کی لائی ہوئی تعلیمات اور سکھلائی ہوئی باتیں)ایسی باتوں سے کلی طور پر بری ہیں، گرچہ جاہل اور علم ومعرفت کے دعویدار یہ سمجھتے ہوں کہ رسولوں کی لائی ہوئی باتوں میں ایسی کوئی بات موجود ہے، ایسا سمجھنے والا یاتو انبیاء کی لائی ہوئی تعلیمات سے ناواقف ہے یا پھر وہ ان تعلیمات کے سلسلے میں عقل کے صحیح موقف سے آگاہ نہیں ہے یا پھران دونوں ہی غلطیوں کا شکار ہے۔(تحفۃ المودود بأحکام المولود ۱:۲۶۴)

عقل ونقل کا باہم رشتہ سمع وطاعت کا ہے جبکہ تاریخ اسلام میں اسے بہت سارے لوگوں نے باہمی ٹکراؤ اور تضاد کا بنادیا اور عقل ونقل کے درمیان معرکہ آرائی کے نام پر علم وثقافت کے باب میں خوب خامہ فرسائی کی ہے۔قصور نہ عقل کا ہے نہ کمی نقل میں ہے، یہ انسان کی سرکشی ہے کہ اپنے قصور ِ فہم کو عقل یا نقل سے جوڑدیا اور ان کے مابین معرکہ آرائی کاایک خیالی میدان سجادیا ۔بقول ِمومن خاں مومن ؎

یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا

میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا

علامہ ابن قیم عقلانی بیانیہ کے ان موجدین کے مرض کی تشخیص کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان سے غلطی کہاں سرزد ہوئی ہے؟ وہ فرماتے ہیں :

(فھذہ أربعۃ أمور أوجبت لہم ظن التعارض بین السمع والعقل۔أحدھا کون القضیۃ لیست من قضایا العقول۔الثاني کون ذلک السمع لیس من السمع الصحیح المقبول۔الثالث عدم فھم مراد المتکلم بہ۔الرابع :عدم التمییز بین ما یحیلہ العقل وما لایدرکہ)مجموعی طور پر ان کی چارغلطیاں ہیں جن کی وجہ سے وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ نصوص اور عقل کے درمیان تعارض اور ٹکراؤ ہے (یعنی وہ ٹکراؤ جس کو دور کرنے کے نام پر عقلانی بیانیہ وجود میں آتا ہے)

۱۔ پہلی غلطی یہ ہوتی ہے کہ جو مسئلہ عقل کے ادراک کے دائرے سے باہر ہے اسے عقل کے دائرے کا مسئلہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔

۲۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ جس بات کو وہ شریعت کا حصہ سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ حقیقت میں صحیح سندسے ثابت شدہ مسئلہ نہیں ہوتا۔

۳۔ تیسری غلطی یہ ہے کہ وہ شارع کی مراد اور اس کے مقصود کو سمجھ نہیں پاتے۔ (نتیجتا اپنی سمجھ کو نصوص کا مفہوم سمجھ بیٹھتے ہیں اور اسے عقل سے متعارض اور متصادم بتلاتے ہیں)

۴۔اور چوتھی غلطی یہ ہے کہ وہ عقلا محال اور عقل کے دائرے سے پرے معاملات میں فرق نہیں کرپاتے ہیں۔ (الصواعق المرسلۃ في الرد علی الجھمیۃ ۲:۴۵۹)

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا متعددعبارتیں اس حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہیں کہ تفہیم اسلام کے نام پر یا تقریب إلی الأفہام کے نام پر یا دفاع عن الإسلام کے نام پر جس طرح اسلام اور احکام اسلام کو عقلانی بیانیہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر کبھی بعض چیزوں کا انکار کیا جاتا اور بعض کی تاویل کی جاتی ہے اور بعض کو بالکل ہی ایک نیا معنی دینے کی کوشش کی جاتی ہے وہ دراصل حکمتوں والی شریعت اور اس کی گہرائی وگیرائی ناپتے ہوئے انسانی عقل کا چکرا جانا ہے۔یہاں عقل کو سنبھالنے اور سہارا دینے کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ لوگ اس حیرت کو ہی اپنی عقل کی دریافت سمجھ بیٹھتے ہیں اور پھر تار عنکبوت کی طرح عقلی تانے بانے بننے لگ جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنے بُنے اس جال اورالٹی چال سے اسلام کے دفاع میں کامیاب ہوجائیں گے یا اسلام کی صحیح اور حقیقی ترجمانی کا حق ادا کرلے جائیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ عقلی بیانیہ دراصل اسلام کی ترجمانی کم اپنی عقل کی تسکین کا وہ سودا زیادہ ہے جس میں سرمایہ گنوا کر نفع کمانے کی بات کی جاتی ہے ۔

اسلامی تعلیمات کی معقولیت کوسمجھنے کے لیے اس عقلی بیانیہ یا عقل کی طغیانی کی راہ پر چلنے کے بجائے مفسرین کرام یا شارحین حدیث کی مساعی کا جائزہ لیں تو بہت حد تک یہ بات کھل کرسامنے آئے گی کہ ان عقلانیین کے مقابلے مفسرین اور محدثین کاطرز نصوص کے تئیں تعظیم کا ہے اور وہ نصوص کے تقدس کو بحال رکھتے ہوئے بھی احکام اسلام کی معقولیت کے مختلف پہلؤوں کو اجاگر کرتے چلے جاتے ہیں۔ گویا یوں سمجھیں کہ ان دونوں طبقات میں فرق اتباع اور ابتداع کا ہے۔

مفسرین ومحدثین نے شریعت کی اس نزاکت کو سمجھا جسے حضرت علی نے یوں بیان کیا(لو کان الدین بالرأي لکان أسفل الخف أولی بالمسح من أعلاہ ولکني رأیت رسول اللہ ﷺ یمسح علی ظاھر خفیہ) اگر دین قیاس آرائی یا رائے کی موافقت ہی کا نام ہوتا تو موزے کا نچلا حصہ اس کے اوپری حصہ سے زیادہ مسح کے لائق ہوتا لیکن میں نے رسول اللہﷺ کو اس کے اوپری حصہ پر ہی مسح کرتے دیکھا ہے۔(أبوداود:۱۶۲)یعنی دین کے سبھی مسائل رائے اور عقل کے تابع نہیں ہیں، بہت سی باتیں عقل سے پرے ہیں جن کے ادراک سے عقل بسا اوقات قاصر رہ جاتی ہے۔

مفسرین ومحدثین نے اس نزاکت کو ملحوظ رکھا اور اپنے آپ کو معقول حدتک ہی معقولیت کے پیچھے لگایا جبکہ عقلانیین نے یہاں ایک طرز جنوں اور ہی ایجاد کی، ایک نئی بدعت کو جنم دیا ہے جس کے نتیجہ میں دین اتباعِ دینی(دین کی پیروی) کے بجائے اقناعِ عقلی (عقل کو مطمئن کرنے)کا مرقع بن کر رہ گیا۔

عقلانیت دراصل عقل کے استعمال میں افراط کامظہر ہے، عقل کی سرکشی ہے، جس طرح خواہشات کو بے لگام چھوڑنا انسان کو انسانیت کی حد پھلانگ کر حیوانیت کے دائرے میں لے جاتا ہے اسی طرح عقل کو بے لگام چھوڑنا بھی انسان کو بندگی کے دائرے سے نکال کر طغیانی اور سرکشی کی راہ پر لگادیتا ہے، فتدبر۔

عقل اور عقلانیت کے سلسلے میں شریعت کا طے کردہ ضابطہ بہت آسان اورقابل فہم ہے، عقل مدارِ تکلیف ہے تاہم دین اس عقل کے تابع نہیں ہے۔ عقل کے معاملہ میں ہوا یہ کہ لوگوں میں افراط و تفریط در آئی، صوفیاء کے ایک طبقہ نے تفریط کی راہ اپنائی اور عقل کو سلوک کی راہ میں رکاوٹ گردانا، تو فلاسفہ، معتزلہ اورعصر حاضر کے جدت پسندوں اور ان کے حواریوں نے افراط سے کام لیا اور عقل کی تقدیس کی راہ اپنائی۔ عقل نے خود کہا: میری پہنچ غیبی امور تک نہیں، مگر یاروں نے پھر بھی اسے آزمایا۔۔۔۔ نہ صرف آزمایا بلکہ اسی پر دار و مدار رکھ چھوڑا، نقل (قرآن وسنت) کو عقل کے تابع کردیا، عقل وخرد کے معاملہ میں افراط پر مبنی اسی طرز فکرکا شاخسانہ عصر حاضر کا یہ ”عقلی بیانیہ” ہے ورنہ دین کے فہم اور تفہیم میں اس عقل کے کردار سے کس کافر کو انکار ہے؟؟

عقل کے سلسلے میں معتدل موقف کیا ہونا چاہیے اسے بیان کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ رقمطراز ہیں:

(العقل شرط فی معرفۃ العلوم و کمال و صلاح الأعمال و بہ یکمل العلم و العمل، لکنہ لیس مستقلا بذلک بل ہو غریزۃ فی النفس و قوۃ فیہا بمنزلۃ قوۃ البصر فی العین، فإن اتصل بہ نور الإیمان والقرآن کان کنور العین إذا اتصل بہ نور الشمس والنار، وإن انفرد بنفسہ لم یبصر الأمور التی یعجز وحدہ عن درکہا)علم کے حصول اور اعمال کی درستگی وکمال کے لیے عقل شرط ہے او ر اسی عقل کے ذریعے علم وعمل کا کمال نصیب ہوتا ہے۔تاہم علم وعمل کے اس باب میں عقل ہی سب کچھ نہیں ہے، عقل تو انسان کے اندر ایک جبلت اور قوت ہے جس طرح آنکھوں میں قوت بصارت ہے۔ اب اس عقل کے ساتھ ایمان اور قرآن کی روشنی شامل ہوجائے تو اس کی مثال آنکھوں کی اس روشنی جیسی ہوجاتی ہے جسے خارجی طور پر سورج کی یا آگ کی روشنی کاسہارا مل جائے اور اگر صرف وہی ہو (سورج یا آگ کی خارجی روشنی ساتھ نہ ہوتو)تو بہت ساری ایسی چیزوں کو دیکھنے سے قاصر رہ جائے گی جنھیں ان خارجی سہاروں کے بغیر دیکھنا ناممکن ہے۔(مجموع الفتاوی:۳:۳۳۸)

ابن تیمیہ کے اس اقتباس کی روشنی میں جو بات مقصود ہے وہ یہ کہ عقل بذات خود تمام حقائق کے ادراک کی طاقت نہیں رکھتی بلکہ اسے دیگر سہاروں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ کامل بینائی کے باوجود آنکھوں کے سامنے چھایا اندھیرا جس طرح آدمی کو اندھا کردیتا ہے بالکل اسی طرح عقل انسانی بھی نقل کی مدد کے بنا بہت سارے حقائق کے ادراک سے قاصر ہے، بالخصوص وہ بہت سارے معاملات جن کا تعلق دین سے ہے اسی لیے صحیح موقف یہ ہے کہ عقل ِانسانی کو نقل (قرآن و سنت)کے تابع رکھا جائے نہ یہ کہ نقل کو عقل کے تابع کردیا جائے یا عقل کو حاکم مان کرغیر مقبول عقلانی توجیہات کی جائیں یا عقلی بیانیہ کو رواج دیا جائے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
زکریا

ماشاء الله
استاذ محترم کی تحريروں میں جو چاشنی ہوتی ہے وہ یقیناً نا قابلِ بیان ہے اور اس کا اندازہ ایک قاری ہی کرسکتا ہے
اللہ شیخ محترم کی عمر کو عملِ صالح کے ساتھ دراز کرے
اور آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے علم وعمل سے ایک دنیا کو روشن کرے آمین