مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری کی عربی تفسیر

راشد حسن مبارکپوری قرآنیات

قرآن مجید کے معانی و مطالب اور مفاہیم کی توضیح کو اہل علم ’’تفسیر‘‘ سے جانتے ہیں، اس علم کی حد درجہ اہمیت کے پیش نظر صحابہ کرام، تابعین عظام اور بعد کے علماء کرام اس کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے، قرآن مجید میں غور و فکر اور شعور و آگہی کی بابت عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں:

حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبداللہ بن مسعود جو ہمیں قرآن پڑھاتے تھے، وہ اللہ کے رسول ﷺ سے دس آیتیں سیکھتے تھے اور اس وقت تک آگے نہ بڑھتے جب تک کہ ان آیات میں موجود علم و عمل کو سیکھ نہ لیتے، لہٰذا ہم نے قرآن مجید کو علم اور عمل ہر دو اعتبار سے سیکھا اور نہاں خانۂ دل میں جاگزیں کیا۔

شروع شروع میں صحابہ آیات کی تفسیر اللہ کے رسول ﷺ سے سیکھتے اور باہم اسے محفوظ کرتے، پھر علماء فقہا کا دور آیا، مثلاً، بخاری، مسلم اور اہل سنن اربعہ وغیرہ، جنھوں نے احادیث کی کتابوں میں الگ الگ ابواب التفسیر یا کتاب التفسیر قائم کیا، پھر تیسرا مرحلہ وہ تھا جس میں باقاعدہ تفسیر کے موضوع پر کتابیں تصنیف کی گئیں، مثلا ابن ماجہ (ت۲۷۳ھ) ابن جریر طبری (ت۳۱۰ھ) ابوبکر بن المنذر (۳۱۸ھ) ابن ابی حاتم (ت۳۲۷ھ) و حاکم (۴۰۵ھ)، ان ساری تفسیروں میں  تفسیر ماثور یعنی اللہ کے رسول ﷺ سے منقول تفاسیر کا اہتمام کیا ہے، پھر اس کے بعد چوتھا مرحلہ ایسا آیا جس میں موضوع و اسرائیلیات ہر طرح کی چیزیں تفسیر میں جمع کی جانے لگیں۔ پھر بات رائے و اجتہاد پر آ رکی، الگ الگ موضوعات کو ذہن میں رکھ کر تفسیریں ترتیب دی گئیں، ان میں ’’البحر المحیط‘‘ میں ابو حیان نے علم نحو پر ترکیز رکھی ہے، ’’مفاتیح الغیب‘‘ میں رازی نے فلاسفہ کے افکار و نظریات پیش کیے ہیں، ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ میں قرطبی نے شرعی احکام و مسائل اور فقہ و معاملات پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ ’’الکشف والبیان عن تفسیر القرآن‘‘ میں ثعالبی نے انبیاء کے قصوں پر نگاہ رکھی ہے۔ ان اقسام کے دو بدو حاصل موضوعی انداز کی طرف بھی اہتمام رہا، چنانچہ (قتادہ بن دعامہ الدوسی ت ۱۱۸ھ) نے سب سے پہلے ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ کے نام سے قرآن کے خاص موضوع پر کتاب لکھی، اسی طرح ابو عبیدہ معمر بن المثنی (ت۲۱۰ھ) نے ’’مجاز القرآن‘‘ پر لکھی اور ابو عبید القاسم بن سلام (ت۲۴۴ھ) نے بھی ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھی، ان تمام کی ایک طویل فہرست ہے۔

علماء اسلام نے تفسیر کے دو طریقے بتائے: ایک تفسیر بالماثور دوسرا تفسیر بالرائے، تفسیر بالماثور کا مرجع خود قرآن مجید اور احادیث صحیحہ ہیں اور تفسیر بالرائے کا مرجع عقلی استنتاج اور فکری استشہاد ہے، پہلا ممدوح ہے دوسرا مذموم، تفسیر بالماثور کے سلسلے کی مشاہیر کتابیں:

۱۔ جامع البیان عن تأویل آی القرآن از جریر طبری (ت۔۳۱۰ھ)
۲۔ الکشف والبیان عن تفسیر القرآن از ثعالبی(ت۔۴۲۹ھ)
۳۔ معالم التنزیل از بغوی(ت۔۵۱۶ھ)
۴۔ تفسیر القرآن العظیم از ابن کثیر(ت۔۷۷۴ھ)
۵۔ الدر المنثور فی التفسیر الماثور از سیوطی(ت۔۹۱۱ھ)

اور تفسیر بالرأی کے سلسلہ میں مشہور کتابیں یہ ہیں:

۱۔ مفاتیح الغیب از رازی(ت۔۶۰۶ھ)
۲۔ الجامع الأحکام القرآن از قرطبی(ت۔۶۷۱ھ)
۳۔ ارشاد العقل السلیم الی مزایا الکتاب الکریم از ابو سعود عمادی حنفی(ت۔۹۸۲ھ)
۴۔ فتح القدیر از شوکانی(ت۔۱۲۵۰)
۵۔ روح المعانی از آلوسی(ت۔۱۲۷۰ھ)

مذکورہ تمام تفاسیر میں آثار و آحادیث اور عقلیاتی تفکیر کا امتزاج ہے، بس یہاں اغلب کا اعتبار ملحوظ رکھا گیا ہے، ایسا نہیں کہ محض ان میں آراء و افکار ہی ہیں، اسی طرح تفسیر بالماثور کے ضمن میں مذکورہ کتب محض آثار و احادیث پر مشتمل ہیں ایسا بھی نہیں۔

ہندوستان میں کتب تفسیر کی ایک سنہری تاریخ اور درخشندہ تسلسل ہے، اگر ہم اس ضمن میں قلم سے صرف اشاراتی مدد لیں تو بھی حکایت لذیذ دراز گفتم کا مسئلہ آسکتا ہے، جن حضرات کو تفصیل کی ضرورت ہو انھیں مولانا عبدالحئ حسنی کی نزھۃ الخواطر، نواب صدیق حسن خان کی ابجد العلوم، غلام علی آزاد بلگرامی کی سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان اور مولانا اسحاق بھٹی کی تاریخی کتابوں پر ایک نگاہ طائرانہ ڈال لینی چاہیے۔

باعظمت مفسرین کے سلسلۃ الذہب کی ایک شاندار کڑی حضرت مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری مرحوم  (۱۸۶۸م -۱۹۴۸م) ہیں۔ مولانا امرتسری نہایت ہی ہمہ جہت عالم تھے، ہر میدان میں مرد مجاہد بن کر کودے، رزم حق و باطل میں فولادی قوت رکھتے تھے، تدریس، تصنیف و تالیف، دعوت و تبلیغ، مناظرہ و مباحثہ، فرق ضالہ پر نقدو جرح، باطل افکار و نظریات پر رد و انتقاد، القصہ وہ ہر میدان کی صف اول میں رہے، لیلائے علم و دعوت میں مجنونانہ جاں  نثاری کا شوق اور جذبہ جنون کی حد تک تھا، اسلام کی خاطر جینا اور اسلام کی خاطر مرنا ان کی زندگی کا اولین مقصد بن چکا تھا، ویسے تو وہ ہر میدان میں درہ نایاب گوہر شب ناب تھے مگر اہل باطل سے مناطرہ میں امتیاز حاصل تھا، ان کی کتابوں کی تعداد ایک سو تیس (۱۳۰) کو پہنچتی ہے، ساری مختلف النوع اور گوناگوں ہیں مگر ان میں ان کا خاص رنگ غالب ہے، ان کی زندگی پر جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو ایسا محسوس ہوا کہ مولانا امرتسری کا اپنے زمانہ میں وہی مقام تھا یا انھوں نے اپنے زمانہ میں وہی کام کیا جو امام ابن تیمیہ(ت۔۷۲۸ھ=۱۳۲۸م) نے اپنے زمانہ میں کیا تھا، یعنی اس وقت بھی ابن تیمیہ نے مسیحیت، رافضیت، یہودیت، لادینیت، فلاسفہ، مناطقہ، ملحدین، مبتدعین کا نہ صرف قافیہ تنگ کیا بلکہ صحیح اسلام کی تصویر پیش کی، درء تعارض العقل والنقل، منہاج السنۃ، العقیدۃ الواسطیہ، بیان تلبیس الجہمیہ، الاکلیل فی المتشابہ والتاویل، الرد علی المنطقین، الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح، قاعدۃ جلیہ، العقیدۃ التدمریۃ،مجموع فتاوی وغیرہ اس سلسلہ کی واضح مثالیں ہیں۔

چنانچہ اگر غور کرو تو معلوم ہوگا کہ مولانا امرتسری نے کس دل سوزی اور جگر کاوی سے اس وقت کے فتنوں کا پوری پامردی اور جواں ہمتی سے مقابلہ کیا اور ہر مرحلہ کو کامیابی سے ختم کیا، جب عیسائیت نے سر اٹھایا تو زبانی مناظرہ کے دو بدو پے در پے (۱) عالمگیر مذہب اسلام ہے یا مسیحیت (۲) دین فطرت اسلا م ہے یا مسیحیت؟ (۳) اصول البیان فی توضیح القرآن، جیسی گراں قدر کتابیں تحریر فرمائیں، جب آریت کے بال و پر ابھرے تو ’ستیارتھ پرکاش‘ کے جواب میں ’حق پر کاش‘ لکھی، ترک اسلام کے جواب میں ’ترک اسلام بر ترک اسلام‘ شائع کی۔ اسی طرح اسی فتنہ کے رد میں ’کتاب الرحمن‘ لکھ کر ان کے تارو پو بکھیر دیئے، پھر رنگیلا رسول کے جواب میں ’مقدس رسول‘ لکھی تو آریت کے خیمہ میں بھونچال آگیا اور وہ خاموش ہوگئے، اسی طرح حضرت محمدرشی، نماز اربعہ، الہامی کتاب، بحث تناسخ ، حدیث وید، اصول آریہ اور القرآن العظیم جیسے رسائل سے اہل اسلام کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں، اسی طرح مرزائیت وقادیانیت کے رد میں زندگی وقف کر دی، جنگ کا آغاز تو مولانا محمد حسین بٹالوی (ت۔۱۳۳۸ھ=۱۹۲۰م) نے کیا تھا مگر اختتام مولانا امرتسری کے ہاتھوں ہوا، یہاں بالکل وہ منظر سامنے آجاتا ہے جس کا سامنا حضرت امام احمد بن حنبل (ت۔۲۴۱ھ =۸۵۵م) نے کیا تھا، فتنۂ خلق قرآن کے مقابلہ میں تنہا رہے اور پورا عالم اسلام ایک طرف ہوگیا مگر تنہا اس مرد مجاہد کو خدائے واحد و قہار نے فتح و نصرت کا پر کیف نغمہ سنایا، یہاں مولانا امرتسری تنہا لڑے اور اس وقت اس فتنہ کا خاتمہ کیا، گو گردش روزگار پر یہ فتنہ وقتا فوقتا اٹھتا رہا، قادیانیت کے سلسلہ میں مولانا کی تحریرات کا شمار قدرے مشکل ہے۔ انہی کے لفظوں میں ملاحظہ ہو: ’’مختصر طور پر یہ بتلاتا ہوں کہ قادیانی تحریک کے متعلق میری کتابیں اتنی ہی ہیں کہ مجھے خود ان کا شمار نہیں، ہاں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جس شخص کے پاس یہ کتابیں موجود ہوں قادیانی مباحث میں اسے کافی واقفیت حاصل ہو سکتی ہے‘‘۔ اسی طرح مولانا نے باطل افکار و نظریات پہ بھی بہت سی کتابیں لکھیں مثلا اہل حدیث کا مذہب، تقلید شخصی و سلفی، فتوحات اہل حدیث، اجتہاد اور تقلید، عصمت النبی وغیرہ، ساتھ ہی ان کی خالص ادبی و علمی کتابیں بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ مثلاً ادب العرب، التعریفات النحویہ، شریعت اور طریقت اسلام اور برٹش لا وغیرہ، پانچویں اور سب سے آخری قسم جو تفسیر و قرآنی علوم کی ہے، اس شاخ کی بابت مولانا خود رقم طراز ہیں:

’’چوتھی شاخ میری تصنیفات کی تفسیر نویسی ہے یوں تو میری سب تصنیفات قرآن ہی کی خدمت میں ہیں مگر خاص تفسیر نویسی میں  بھی   غافل نہیں رہا۔ روزانہ درس قرآن کے علاوہ پہلے میں نے ’’تفسیر ثنائی‘‘ غیر مسبوق طرز پر اردو میں لکھی۔ جو آٹھ جلدوں میں ختم ہوکر ملک میں شائع ہوچکی ہے اس کے تھوڑا عرصہ بعد، بلکہ ساتھ ساتھ ’’تفسیر القرآن بکلام الرحمن‘‘ خاص طرز پر عربی میں لکھی جس کی ملک میں خاص شہرت ہے۔

تیسری تفسیر موسومہ ’’بیان الفرقان علی علم البیان‘‘ عربی میں لکھنی شروع کی جس کا ایک حصہ (سورہ بقرہ تک) شائع ہو چکا ہے، باقی زیر غور ہے۔

تفسیر کے متعلق چوتھی کتاب موسومہ ’’تفسیر بالرای‘‘ لکھی، اس میں تفسیر بالرای کے معنی بتا کر مروجہ تفاسیر و تراجم قرآن (قادیانی، چکڑالوی، بریلوی اور شیعہ وغیرہ) کی اغلاط پیش کرکے ان کی اصلاح کی گئی، اس کا بھی ایک حصہ چھپ کر شائع ہو چکا ہے، باقی زیر غور ہے‘‘۔

پانچویں تفسیر برہان التفاسیر کے نام سے تحریر فرمائی، جو  ہفت روزہ اہل حدیث امرتسر میں علی الأقساط شائع ہوئی اور خوشی کی بات ہے کہ اب استاذ محترم مولانا محمد مستقیم سلفی صاحب استاذ جامعہ سلفیہ بنارس کی عنایت و توجہ خاص سے شائع ہوکر علمی حلقوں سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہے۔

’’تفسیر القرآن بکلام الرحمن‘‘ مکمل قرآن مجید کی تفسیر ہے، اس کا دارالسلام ریاض سے شائع شدہ نسخہ ہمارے پیش نگاہ ہے، جس میں تخریج احادیث شیخ عبدالقادر ارناؤوط (ت۔۱۴۲۵ھ=۲۰۰۴م) کی ہے اور تقدیم و مراجعہ کے باب میں مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (ت۔۱۴۲۷ھ=۲۰۰۶م) کا نام کندہ ہے، یہ نسخہ ۷۸۰؍صفحات پر مشتمل ہے، دیدہ زیب اور جاذب نظر ہونا دارالسلام کی مطبوعات کی خاص پہچان ہے، پہلی طباعت کے طور پر ۲۰۰۲ کا سن درج ہے، کلمۃ الناشر مولانا عبدالمالک مجاہد صاحب کے قلم سے ہے، اس کے بعد مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے ’’ترجمۃ المفسر‘‘ کے عنوان سے مولانا امرتسری رحمہ اللہ کے تفصیلی حالات ذکر کیے ہیں، اس میں اس تفسیر کے حوالہ سے کچھ گذارشات و تنبیہات بھی ہیں جو کتاب کے پس منظر اور بعض فروگذاشتوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں، مولانا امرتسری نے مقدمہ المفسر کے عنوان سے تین فصلوں اور دس صفحات میں تفسیر کے بعض مبادیات اشاراتی انداز میں تحریر فرمائے ہیں۔

اس کے پس منظر کے حوالہ سے مولانا امرتسری لکھتے ہیں:

’’سلف سے خلف تک جب میں نے قرآن مجید کی تفسیرات اور تشریحات کا مطالعہ کیا تو مشکل و پیچیدہ مقامات کی تشریح و تفسیر میں انھیں مختلف پایا، لہٰذا بعض نے سلف صالحین کے آثار سے تفسیر کی، توبعض نے عقلیاتی دلائل کا سہارا لیا، بایں ہمہ وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ تفسیر کا سب سے بہتر اور افضل طریقہ ’’قرآن کی قرآن سے تفسیر‘‘ کا ہے دلیل اللہ تعالی کا یہ قول ہے:

اللَّہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَاباً مُّتَشَابِہاً مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ

اللہ تعالی نے بہترین کلام نازل فرمایا جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے، جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں۔

مشہور مفسر امام ابن کثیر فرماتے ہیں:

تفسیر کا سب سے بہتر طریقہ ’’قرآن کی تفسیر قرآن کے ذریعہ‘‘ ہے کیونکہ ایک چیز قرآن مجید میں مجملاً آئی ہوتی ہے اور دوسری جگہ مفصل بیان ہوتا ہے، لہٰذا اگر تمھیں قرآن کی تفسیر قرآن سے نہ ملے تو سنت کی طرف رجوع کرو، کیوں کہ سنت قرآن مجید کی شارح اور اس کی وضاحت کرنے والی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر جلد اول مع حاشیہ فتح البیان ص:۴)، لہٰذا اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے اس کی راہنمائی فرمائی اور وہی ہر چیز پر قادر ہے اور جواب دینے کا سزاوار ہے، اللہ کے فضل سے یہ کتاب تیار ہوئی جو آپ کے سامنے ہے، اس میں پوری کوشش صرف کی ہے، نقص و عیب سے پاکی کا مدعی نہیں غلطیاں عین ممکن ہیں(ص:۳۳)۔ اس کے بعد فصل اول میں ’’ما معیار صحۃ التفسیر‘‘ کے عنوان سے یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر بغیر عربی زبان کی گہری واقفیت کے ناممکن ہے، دلیل کے طور پر چار قرآنی آیات، آثار صحابہ و تابعین کے ساتھ امام ابن تیمیہ، امام ابن القیم اور علا مہ نواب صدیق حسن خان قنوجی کی تصریحات کو خوبصورتی سے یکجا کیا ہے۔ دوسری فصل میں تفسیر بالرأی کی مذمت بیان کی گئی ہے پھر تیسری اور آخری فصل میں اسباب نزول اور دیگر موضوعات کے حوالہ سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب ’’الفوز الکبیر‘‘ سے ایک طویل اقتباس منقول ہے۔

ان تینوں فصلوں پر نگاہ ڈالنے سے کہیں یہ بات مترشح نہیں ہوتی کہ مولانا امرتسری کا فنی منہج کیا ہے، ہاں اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ مولانا ’’تفسیر القرآن بالقرآن‘‘ کو سب سے افضل اور اہم مانتے ہیں، جو ایک واضح حقیقت بھی ہے، ساتھ ہی عربیت کی پختگی اور اس کے اسرار و رموز سے گہری واقفیت بشمول دیگر علوم شرعیہ کو ایک مفسر کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔

اس سلسلہ میں امام رازی کا مشہور قول بھی نقل کیا ہے۔ یہ عجیب بات ہے مولانا امرتسری تفسیر القرآن بالقرآن کو سب سے افضل سمجھنے کے باوجود امام رازی کے اقوال (ان فصلوں میں)تفسیر رازی سے جابجا نقل کیے ہیں، جن کے متعلق مولانا آزاد کا جملہ شہرت کا حامل ہے:’’اس کتاب (تفسیر رازی) میں تفسیر کے ماسواء ہر چیز ہے‘‘۔ مولانا امرتسری کا صفات کے باب میں کیا عقیدہ تھا اس پر آگے ہم (اعتراضات و مواخذات کے ضمن میں) قدرے تفصیل سے روشنی ڈالیں گے، یہاں ہم چاہتے ہیں کہ بطور مثال کے سورہ فاتحہ کا ترجمہ بعینہ نقل کردیں، جس سے قارئین کو مولانا کا منہج اور اسلوب سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

سورہ فاتحہ مکی ہے جس میں سات آیتیں ہیں۔

طوالت کے خدشہ سے آیات کا ترجمہ قلم انداز کرتے ہیں، حوالہ تحریر ہے تاکہ مراجعت کی جا سکے۔

(الحمدللہ)

یعنی اے بندو! کہو: اس ذات کے نام سے شروع کرتے ہیں جو رحمن و رحیم ہے، ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے، کیونکہ ارشاد ہے:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ(علق:۱)

مزید فرمایا:

قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ وَسَلَامٌ عَلَی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفَی(النمل:۵۹)،

(رب العالمین)

اس ذات کے لیے تعریف جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا اور ان کے لیے اسباب رزق معین فرمائے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْأَرْضَ فِیْ یَوْمَیْْنِ وَتَجْعَلُونَ لَہُ أَندَاداً ذَلِکَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ٭وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ مِن فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیْہَا وَقَدَّرَ فِیْہَا أَقْوَاتَہَا فِیْ أَرْبَعَۃِ أَیَّامٍ سَوَاء  لِّلسَّائِلِیْنَ (فصلت:۹۔۱۰)، (الرحمن الرحیم)

وہ اپنے بندوں پر حد درجہ مہربان ہے کہ اس نے پیدا کیا اور ایمان اسباب سعادت اور اخروی کامرانی کی جانب پوری رہنمائی فرمائی، ارشاد ہے:

الرَّحْمَنُ٭عَلَّمَ الْقُرْآنَ٭خَلَقَ الْإِنسَانَ ٭ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ (رحمن:۱۔۴)

مزید ارشاد ہے:

ھوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْْکُمْ وَمَلَائِکَتُہُ لِیُخْرِجَکُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْماً (احزاب:۴۳)

شاید کہ دونوں آیتیں مترادف ہیں، لہٰذا اسے سمجھو۔

(ملک یوم الدین)

سے مراد قیامت کا دن ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:

ثُمَّ  مَآ اَدْرٰئکَ  مَا یَوْمُ  الدِّیْنِ٭ یَوْمَ  لَا  تَمْلِکُ نَفْسٌ  لِّنَفْسٍ شَیْئًا وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہِ (انفطار:۱۸۔۱۹)
(ایاک نعبد)

پورے اخلاص کے ساتھ تجھے خالص عبادت اور کامل محبت کا تنہا مستحق و سزاوار سمجھتے ہیں، کیوں کہ ارشاد باری ہے:

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللَّہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَاء (بینہ:۵)،
مزید ارشاد ہے:

وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبّاً لِّلّہِ(بقرہ:۱۶۵)

پورے سورہ فاتحہ کی تفسیر نقل کرنا طوالت سے خالی نہ ہوگا، کہ بسا اوقات قارئین ان چیزوں کو بوجھ بھی محسوس کرنے لگتے ہیں، اس اقتباس نے کافی حد تک یہ واضح کر دیا کہ مولانا امرتسری مرحوم کا انداز تفسیر کیا ہے، ظاہر ہے کہ ایک آیت کا نہایت اختصار کے ساتھ مفہوم بیان کرکے اس سے متعلقہ قرآن مجید سے ایک یا دو یا کئی آیات علی الترتیب ذکر کرتے چلے جاتے ہیں، یہاں بعض خصائص یا طریقۂ تفسیر کی بعض خوبیوں کی طرف اشارہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

۱۔طریقۂ تفسیر: قرآن مجید کی تفسیر قرآن سے کرتے ہیں، بسا اوقات ایک ہی آیت کی تفہیم کے لیے کئی آیات پے در پے ذکر کرتے چلے جاتے ہیں، سورۂ فاتحہ کی آیت نمبر ۶ ملاحظہ کر سکتے ہیں، اسی طرح دیگر آیات۔

۲۔ اختصار: اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں، بسا اوقات اجمال اس قدر ہوتا ہے کہ قاری کو سمجھنے میں پریشانی ہوتی ہے، مگر یہ کمال علمیت اور منتہائے بصیرت ہے۔

۳۔جگہ نزول: سورت کے مدنی یا مکی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں،بہت سارے مقامات پر اس حوالہ سے اختلاف پایا جاتا ہے، مگر اختصار کے پیش نظر اس جانب اشارہ نہیں کرتے۔

۴۔ ترکیبی ساخت: بسا اوقات قرآنی آیات کی ترکیبی ساخت کی طرف اشارہ کرتے ہیں،مثلاً (صراط الذین أنعمت علیھم) میں صراط کے منصوب ہونے کی وجہ لکھتے ہیں: یہ صراط المستقیم‘‘ سے عطف بیان کی وجہ سے منصوب ہے۔ پھر اخیر میں (غیر المغضوب) میں غیر کا اعراب بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’بدل من الموصول السابق‘‘ یعنی مذکورہ اسم موصول سے بدل ہے، اس میں اختصار کو دیکھیے اس درجہ کہ مبتدی رک جائے، اصل میں اشارہ مقصود ہے کہ الذین صراط کے مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے محلّاحالت جر میں ہوگا، لہٰذا ’’غیر‘‘جو حالت جر میں ہے وہ در اصل اسی موصول سے بدل ہے اور یہ معلوم ہے کہ تابع و متبوع کا اعراب ایک ہی ہوتاہے۔

۵۔ فلسفیانہ تعبیرات: چونکہ مولانا امرتسری منطق و فلسفہ میں بھی غیر معمولی ادراک رکھتے تھے، اس لیے حد درجہ اختصار کے ساتھ کہیں نہ کہیں اس کا ذکر کر جاتے ہیں اور پڑھنے والا شخص جو اس فن سے نسبت نہیں رکھتا حیران رہ جاتاہے، چنانچہ مولانا اس آیت : ’’إنّ الإنسان لظلوم کفّار‘‘ سے متعلق فرماتے ہیں: القضیۃ مھملۃ فی حکم الجزئیۃ، مزید اس آیت: ’’وکان الإنسان کفوراً‘‘کے تحت لکھتے ہیں: القضیۃ مھملۃ لاکلیۃ، پھر اس آیت کے متعلق ’واذا أنعمنا علی الإنسان مھملۃ‘ اسی طرح متعدد مقامات پہ انسان کے ذکر پر صرف ’’مہملۃ‘‘ ہی ذکر کیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ان مقامات پہ انسان کے متعلق یہ بیان نہیں کہ جزء مراد ہے یا کل، بلکہ یہاں مہمل ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔ لہٰذا منطق کی اصطلاح میں جب جملہ یا قضیہ مہمل مستعمل ہو تو مراد ’جز‘ ہوتاہے ’کل‘ نہیں، پس معلوم ہوا کہ ’إن الإنسان لظلوم کفار‘ میں سارے انسان ظلوم و کفار نہیں بلکہ بعض ہیں، قس علی ھذا، (دیکھیے ص:۷؍پر)

۶۔ لفظیاتی توضیح: اگر کہیں کسی لفظ کے مراد و مفہوم میں اختلاف ہے تو اشارہ کردیتے ہیں جیسے لکھتے ہیں: ’’غیر المغضوب‘‘ سے مراد یہود ہیں اور ’’ولاالضالین‘‘ سے مراد نصاری ہیں، ساتھ ہی اگر ضرورت ہو تو لفظی توضیح بھی فرماتے ہیں، مثلاً ’أم لکم أیمن‘ میں أیمان کا ترجمہ عہود سے کیا ہے، ص: ۷۱۸ دیکھیے، اسی طرح ’یوم عصیب‘ کا ترجمہ یوم شدید سے کیا ہے۔ ص:۳۲۱

۷۔ حدیثی استدلال: استدلالات و شواہد کے لیے آیات کے ساتھ ساتھ کبھی احادیث سے بھی مدد لیتے ہیں، چنانچہ ’’ومما رزقنھم ینفقون‘‘ کے تحت لکھتے ہیں: وہ اپنے مال، علم اور جاہ منصب (جو ہم نے انھیں عطا کیا ہے) کو خیر کی راہ میں لگاتے ہیں۔ ارشاد باری ہے: وأحسن کما أحسن اللہ إلیک (قصص:۷۷) اور نبیﷺ نے فرمایا: خیرُ الناس من ینفع الناس (کنز:حسن) لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا سب سے بہتر شخص ہے، اسی طرح ’مالیس لک بہ علم‘ کے تحت ایک آیت اور یہ حدیث نقل کی ہے:

’کفی بالمرء کذباً أن یحدّث بکلِّ ماسمع‘  (مسلم)

انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی چیز بیان کر دے۔ (ص:۲۸۹)

۸۔ شعریاتی استدلال: بسا اوقات مولانا امرتسری کسی لفظ و مفہوم کی توضیح میں اشعار سے مدد لیتے ہیں، چنانچہ (وماأھل بہ) کے معنی کو واضح کرنے کے لیے ’کروس بن زید‘ کا ایک شعر نقل کیا ہے اور بتایا ہے کہ ’إھلال‘ کا اصل معنی ’رفع الصوت‘ یعنی آواز بلند کرنا ہوتا ہے، مولانا نے استشھاد کے طور پر ایک ہی  شعر نقل کیا ہے۔ جی چاہتا ہے اس سے قبل کا بھی شعر نقل کردیا جائے تاکہ ترجمہ سے قارئین بھی محظوظ ہوں۔ کروس کہتا ہے:

لئن فرحت بي معقل عند شیبتی لقد فرحت بي بین أیدی القوابل
أھل بہ لما استھل بصوتہ حسان الوجوہ لینات الأنامل

بخدا اگر میرا قبیلہ (میری غیر معمولی فراست کی بنیاد پر) کبر سنی کے عالم میں مجھ سے خوش ہے، تو اس کو خوشی کا حق حاصل ہے، کیوں کہ میری پیدائش کے وقت بھی اسے یہی مسرت حاصل تھی۔

جب اس بچہ نے (مراد شاعر خود ہی ہے) پیدائش کے وقت پہلی آواز نکالی تو خوبصورت چہرے اور نرم خرام ہاتھوں والی عورتیں کیف و سرور میں چیخ اٹھیں۔

آخری شعر میں باریک بلاغی نکتہ ہے، استہل کا فاعل شاعر ہی ہے اور شیبتی میں ضمیر متکلم سے مراد بھی خود شاعر ہی ہے، شاعر کس خوبصورتی سے صیغۂ متکلم سے صیغہ غائب کی طرف منتقل ہوا ہے، کلام عرب میں ایک مشہور مگر لطیف چیز ہے، اسی طرح عورتوں کی نازکی و خوب روئی سے شاعر کہنا چاہتا ہے کہ عورتیں کوئی بازای نہیں تھیں بلکہ امیر زادیاں تھیں۔

مولانا شعر سے لفظیاتی استدلال کے ساتھ کبھی تفسیراتی استدلال بھی کرتے ہیں، مثلاً سورۂ مومن کی آیت نمبر ۶۸ میں ’’لعلکم تعقلون‘‘ کے ضمن میں فرماتے ہیں: یعنی شاید کہ سمجھ لو جو تبدیلیاں اور انتقالات پیش آچکے ہیں یا آئیں گے، شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

ستبدی لک الأیام ماکنت جاہلا ویأتیک بالأخبار من لم تزوِّد (طرفہ بن العبد)

عنقریب گردش روزگار ظاہر کر دیں گے ان عجائبات سے جن سے تم ناواقف ہو اور ایسا شخص تمھیں خبریں لاپہنچائے گا جس کو تم نے کوئی زاد سفر نہ دیا ہوگا۔

مولانا بسا اوقات مفہوم کی توضیح کے لیے فارسی شعر سے مدد لیتے ہیں، چنانچہ سورہ کہف کی آیت نمبر ۸۲ (وما فعلتہ عن أمری) کے تحت لکھتے ہیں:

میں نے خواہشات نفس کی بنیاد پر ایسا نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ کے الہام کے سبب کہا، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’وما علمناہ من لدنا علما‘ اور شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

گفتنہ اوگفتہ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

رسول کا کہنا اللہ کا کہنا ہے اگر چہ ادائیگی عبداللہ کے حلقوم سے ہو۔

اسی طرح ایک اور مقام پر سورہ انبیاء آیت نمبر ۶۸؍میں لکھتے ہیں:

’’أف لکم ولما تعبدون ۔۔‘‘

اف ہے تمھارے اور تمھارے معبودان باطلہ کے لیے کیا تم سمجھتے نہیں کہ ’’تمھارے اعمال ضائع ہوگئے تو ان کے پاس کوئی جواب نہ رہا اور کہا اسے آگ میں ڈال دو۔‘‘
جو حجت نماند جفا جوئی را ببیکار کردن کشد روئی را
جب ظالم کے پاس دلیل و حجت باقی نہیں رہتی تو وہ جنگ کے لیے اپنا چہرہ کھول دیتا ہے۔
۱۰۔ شان نزول: شان نزول کے متعلق ایک ہلکی سی جھلک گزری کہ مولانا مستقلاً کسی واقعہ کے تحت کسی آیت کے نزول کو درست نہیں سمجھتے، مگر بسا اوقات شان نزول کا تذکرہ کرتے ہیں،’’قل ادعو اللہ أوادعوا الرحمن‘‘ ص ۲۴۹ ؍کے تحت فرماتے ہیں، یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب اللہ کے رسول ﷺ دعا فرما رہے تھے اے اللہ! اے رحمن! تو مشرکوں نے یہ سن کر کہا کہ اسے دیکھو یہ آدمی ہمیں متعدد معبودوں سے ہٹاکر صرف دو معبودوں کی طرف ہوتا ہے۔
۱۱۔ باطل فرق و مذاہب پر رد: کبھی کبھی اختصار  کے ساتھ فرق باطلہ پر رد کرتے ہیں۔ ص ۳۲۳؍پر شیعوں پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’بقیۃ اللہ خیر لکم۔۔۔‘‘ بقیۃ اللہ سے مراد حلال روزی سے جو فائدہ حاصل ہو، ارشاد ہے: ’’لتبتغوا من فضلہ‘‘ یہاں فضل کا معنی بھی تجارت کی منفعت ہے، گویا دونوں ایک ہی معنی میں ہیں، مگر ہائے افسوس! بعض علماء شیعہ نے ’بقیہ‘ سے مراد امام مہدی موعود کو لیا ہے۔
اسی طرح مسیحیت پر رد کے لیے دیکھیے ص ۱۷۶؍پر، سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۷۸؍ ’’علی لسان داؤد و عیسی ابن مریم‘‘ کے تحت۔
مولانا چونکہ مناظرانہ رنگ و آہنگ کے مالک تھے اس لیے رنگ کہیں نہ کہیں نظر آہی جاتا ہے جیسا کہ گذشتہ سطور میں ہم نے دیکھا، یہی وجہ ہے ایک جگہ قرآن مجید کی اس آیت ’’وان نکثوا أیمانھم۔۔۔‘‘ کے تحت مولانا لکھتے ہیں: اگر انھوں نے تمھارے دین میں عناداً طعن کیا مناظرۃ نہیں۔ کیوں کہ مناظرۃ تو ثابت ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے: ’’وجادلھم بالتی ھی أحسن‘‘ تو ان کے ساتھ قتال کرو، گویا یہاں مناظرہ کے اثبات کی دلیل فراہم کی۔

٭ اس تفسیر کے لیے مولانا نے کن مقامات سے استفادہ کیا ہے یہ جستجو ذرا مشکل امر ہے، البتہ ان کی تفسیر میں امام رازی، ابن تیمیہ، ابن القیم، سیوطی، نواب صدیق حسن خاں صاحب وغیرہم کا ذکر آیا ہے، ظاہر ہے کہیں نہ کہیں ان سے استفادہ کیا ہے، لیکن اصل چیز خود مولانا کی بے پناہ ذہانت اور وسیع و گہری آگہی وشعور ہے، جس نے اس مشکل ترین کام کو بخوبی بلکہ نہایت عمدہ انداز میں ادا کیا، لاریب یہ اللہ تعالی کی جانب سے ان پر خاص فضل و احسان تھا۔ ع    یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا

پھر میدان عمل میں اترنے کے بعد مولانا نے عمومی انداز میں جن کتابوں سے استفادہ کیا ان کا خود اپنے ہی قلم سے ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’اس شغل میں میں نے چند علماء سلف کی تصنیف سے خاص فوائد حاصل کیے، حدیث شریف میں  قاضی شوکانی، حافظ ابن حجر اور ابن قیم وغیرہم کی تصانیف سے، علم کلام میں امام بیہقی، امام غزالی اور حافظ ابن حزم علامہ عبدالکریم شہرستانی حافظ ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ، امام رازی وغیرہم رحمہ اللہ علیہم اجمعین کی تصانیف سے فائدہ اٹھایا۔ ( دیکھیے: فتنۂ قادیانیت اور مولانا امرتسری، ص:۳۶)

اس اقتباس سے مکمل نہ سہی مگر کافی حد تک مولانا کے شائستہ اور بلند پایہ ذوق کا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کیونکہ جن جن کتابوں سے استفادہ کیا ہے وہ بڑی مقتدر اور چیدہ شخصیات ہیں۔

مواخذات: تفسیرالقرآن بکلام الرحمن پردو طرح کے مؤاخذات ہیں، ایک توصفات باری تعالی سے متعلق ہے، دوسرا طباعت و کتابت سے متعلق ہے، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مولانا کی یہ تفسیر جب ۱۹۰۳ء میں شائع ہوکر لوگوں کے سامنے آئی، جس میں مولانا نے صفات کے باب میں سلف صالحین کی روش تفویض سے ہٹ کر تاویل کا راستہ اختیار کیا، جس کا مقصد تھا باطل اپنے افکار کے ساتھ خاموش ہوجائے، مگر جب مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ تک یہ تفسیر پہنچی تو انھوں نے ایک کتاب بنام ’’الأربعین فی أن ثناء اللہ لیس علی مذہب المحدّثین بل ہو من المحدثین فی الدین الجہمیۃ والمعتزلۃ والقدریۃ والمحرّفین‘‘ لکھی اور اس کی صحت و توثیق کے طور پر متعد علماء سے دستخط لیے، جس میں ثابت کیا کہ مولانا امرتسری سلف صالحین کے منہج پر نہیں، تو اس کے جواب میں مولانا امرتسری نے ’’الکلام المبین‘‘نامی رسالہ لکھا، جس میں مولانا غزنوی کی بھرپور تردید کی، چنانچہ اعیان اہل حدیث نے صلح و صفائی کی بہت کوششیں کیں مگر نتیجہ حوصلہ افزا نہ رہا۔ ۱۹۰۴ء میں آرہ میں جماعت کا ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا، لہٰذا کوشش کی گئی کہ فریقین مصالحت پر راضی ہوجائیں، فریقین میں ثالث کے طور پر حافظ عبداللہ غازی پوری، مولانا شمس الحق ڈیانوی اور مولانا شاہ محمد عین الحق چھپرا کے نام پر اتفاق ہوا، بحث و تحمیص کے بعد ان عالی قدر حضرات نے لکھا ’’چالیس غلطیوں میں سے صرف چودہ ہی صحیح ہیں اور ان کی وجہ سے مولانا ثناء اللہ کافر نہیں‘‘(دکھے دل کی داستان ص:۱۰)

پھر ایک عرصہ تک خموشی رہی مگر جب مولانا امرتسری ۱۹۲۶ء کو فریضہ حج کے لیے عازم ہوئے تو مولوی عبداللہ صاحب روپڑی نے اس کا عربی ترجمہ حجاز بھیج دیا، تاکہ لوگ ان سے متنفر ہوجائیں، شدہ شدہ بات ملک عبدالعزیز تک پہنچی، لہٰذا انھوں نے مصالحت کے لیے ایک کمیٹی بنا کر ایک مجلس منعقد کی، اس کمیٹی میں سید رشید رضا مصری، شیخ محمد بن عبداللطیف آل الشیخ، شیخ عبدالعزیز بن حسن آل الشیخ، علامہ بہجۃ البیطار اور حجاز کے چیف جسٹس عبداللہ بن بلیہد جیسی عظیم شخصیتیں موجود تھیں، ان سب نے جو طے کیا اس کی روداد اخبار اہل حدیث امرتسر کی متعدد فائلوں میں موجود ہے، جس کا ماحصل یہ تھا کہ:

’’مولانا امرتسری نے اسماء وصفات باری تعالی میں متکلمین کے انداز پر جو تاویل کی ہے وہ اس سے رجوع کرتے ہیں، مخالفین کو بھی چاہیے کہ طعن و افتراء سے باز رہیں، نیز اربعین جلا دی جائے‘‘ (مقدمہ تفسیر القرآن ص۱۷؍ اور مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی قادیانیت اور مولانا امرتسری، مولانا عبدالمجید سوھدری کی سیرت ثنائی میں تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں)

اس کوشش سے یہ فتنہ قدرے انداز میں فرو ہوگیا مگر روپڑی علماء کی طرف سے کچھ نہ کچھ سلسلہ جاری رہا اور اس حوالہ سے مولانا امرتسری کی شان کریمانہ اور کشادہ ظرفی کے خوبصورت اور تابندہ نقوش بھی تاریخ میں ثبت ہیں۔

ثانیا کہیں کہیں کچھ املائی اغلاط نظر آرہی ہیں، بلکہ ہم اسے غلطی نہ کہیں تو بہتر ہوگا کیوں کہ ممکن ہے مؤلف کے خط کو باقی رکھنے کے لیے ایسا ہوگیا ہو، مثلاً ص ۳۳ پر الطلبہ کے بجائے ’’الطلباء‘‘ لکھا ہے، اسی طرح ’’الفوز الکبیر‘‘ کے بجائے ’’فوز الکبیر‘‘ ہے جو کہ موصوف صفت کی ترکیب ہے۔

اسی باب کے اخیرمیں مولانا امرتسری نے ایک ضعیف حدیث نقل کی ہے اور مراجعین کا کوئی اشارہ یا تعلق نہیں۔

’’کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المومن، فحیث وجدھا فھو أحق بھا‘‘

امام ترمذی نے لکھا ہے

’’حدیث غریب لا نعرفہ الا من ھذ الوجہ،

شیخ البانی رحمہ اللہ نے لکھا یہ حدیث ضعیف جدا ہے۔

مراجعہ کرنے والے اہل علم نے اس تفسیر میں وارد رموز کی توضیح کردی ہے۔ مثلاً کبیر سے مراد التفسیر الکبیر للرازی ہے، معالم سے مراد معالم التنزیل للبغوی ہے وغیرہ۔ تفصیلات کے لیے مراجعہ کرنا چاہیے۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی عظیم الشان اور بلند پایہ تفسیر کی شان میں خوب قصیدے پڑھے گئے اور کبار اہل علم نے خوب خوب داد تحقیق سے نوازا، ظاہر ہے یہ اپنے باب میں نہایت منفرد تفسیر تھی جسے سرزمین حجاز کے بعد سرزمین ہند میں ایک جلیل القدر عالم دین نے لکھی تھی، جن علماء نے اپنی بے پناہ خوشی کا اظہار کیا ہے، ان تمام کے اقوال مولانا نے اپنی کتاب ’’القول المبین مطبوع ۱۳۲۲ھ‘‘ میں نقل کیے ہیں۔ ان تمام اقوال کے یہاں نقل کرنے سے مقالہ نہایت طویل ہوجائے گا کیوں کہ قلم بھی ذرا آرام کی خواہش کر رہا ہے، اس لیے صرف ان کے اسماء گرامی کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں۔

۱۔جریدۃ ’’المؤید‘‘ مصر، ۲۔ جریدۃ ’’البیان‘‘ الھند، ۳۔ حضرت شیخ حسین الیمانی شیخ الحدیث بھوپال، ۴۔ حضرت مولانا محمودا لحسن دیوبندی، ۵۔ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری، ۶۔ حضرت مولانا شبلی نعمالی، ۷۔ حضرت الاستاذحافظ عبداللہ غازی پوری، ۸۔ حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، ۹۔ حضرت مولانا محمد غضنفر لودھیانوی، ۱۰۔ حضرت مولانا سید عبدالسلام ابن شیخ الحدیث علامہ سید نذیر حسین دہلوی، ۱۱۔  حضرت مولانا عبدالہادی شیخ الحدیث ہندی، ۱۲۔ حضرت مولانا الحافظ محمد الدین بستوی، ۱۳۔  حضرت مولانا الحافظ عبدالسلام ملتانی ہندی، ۱۴۔ حضرت مولانا مولوی محمد حسین فیر پوری پنجابی، ۱۵۔ حضرت مولانا عبدالتواب ملتانی ہندی، ۱۶۔حضرت مولانا مولوی عبدالکریم ملتانی، ۱۷۔ حضرت مولانا مولانا محمد سعید شیخ الحدیث بنارسی، ۱۸۔ حضرت مولانا سید علی لاہوری، ۱۹۔ حضرت مولانا سلیمان پھلواروی، ۲۰۔ حضرت مولانا غلام محمد ہوشیارپوری، ۲۱۔ حضرت مولانا عبدالجبار عمر پوری شیخ الحدیث، ۲۲۔حضرت مولانا ابو المکرم محمد أبی یحيٰ شاہجہاں پوری، ۲۳۔حضرت مولانا ابو محمد عبدالحق مؤلف تفسیر حقانی دہلوی۔

مولانا امرتسری رحمہ اللہ خود نہایت عظیم اور جلیل القدر عالم دین تھے، یہ تفسیر اس بات کی کھلی گواہی دے رہی ہے اور عالم اسلام کے کبار اہل علم کی جانب سے اس قدر پذیرائی بھی اس کے حق میں اس کی عظمت و برتری پر شاہد ہے۔ گذشتہ سطور میں خوانندگان ذی وقار نے اس تفسیر کے علمی و ادبی مقام کا اندازہ کرلیا ہوگا، ان بنیادوں پر یہ عرض کرنا بے جا نہ ہوگا کہ اس عظیم تفسیر کو اس کا عظیم مقام ملنا چاہیے، زیادہ سے زیادہ اسے عام کیا جائے، جامعات و مدارس کے ذمہ داران اسے نصاب میں جگہ دیں اور اعلی سطح پر اسے شائع کرکے علمی حلقوں میں تقسیم کیا جائے، کوئی بھی قابلِ ذکر لائبریری اس سے خالی نہ رہے، تاکہ لوگوں کے قرآنی شعور و مزاج میں انقلابی بیداری آئے اور تفسیر کا یہ اسلوب جو مٹتا جارہا ہے بحث و تحقیق کے گردوں پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔

 

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالغفار سلفی بنارس

ایک عظیم مصنف کی عظیم تصنیف پر بہترین تجزیاتی تحریر، آپ نے بڑے خوبصورت انداز میں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے کتاب کا تعارف کرا دیا. جزاکم اللہ خیرا و بارک فیکم