حاملہ ومرضعہ کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اثر کی تخریج

فاروق عبداللہ نراین پوری رمضانیات فقہیات

تیسری قسط: صومِ حاملہ و مرضعہ کے متعلق ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کی تخریج


چوتھی قسط:

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ان کے درج ذیل تلامذہ نے یہ حدیث ان سے روایت کی ہے:
(1) عطاء بن ابی رباح (2) عطاء الخراسانی (3) عکرمہ (4) سعید بن جبیر (5) مجاہد (6) علی بن ابی طلحہ اور (7) محمد بن سیرین۔
● (1) عطاء بن ابی رباح کی روایت:
عطا بن ابی رباح سے ان کے تین تلامذہ نے یہ حدیث روایت کی ہے: عمرو بن دینار، عبد اللہ بن ابی نجیح اور ابن جریج۔
■ عمرو بن دینار کی روایت:
امام بخاری نے اپنی صحیح میں ان کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ {وَعَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ}، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ، هُوَ الشَّيْخُ الكَبِيرُ، وَالمَرْأَةُ الكَبِيرَةُ لاَ يَسْتَطِيعَانِ أَنْ يَصُومَا، فَلْيُطْعِمَانِ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا. (صحیح بخاری، حدیث نمبر 4505)

اس حدیث میں صرف عمر رسیدہ مرد وعورت کا ذکر ہے، حاملہ ومرضعہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
■ عبد اللہ بن ابی نجیح کی روایت:
امام دار قطنی نے ان کی حدیث روایت کی ہے۔ فرماتے ہیں: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَكِيلُ أَبِي صَخْرَةَ , حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، ثنا رَوْحٌ، ثنا شِبْلٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، وَعَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ” {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ} [البقرة: 184] «وَاحِدٍ»، {فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا} [البقرة: 184] «زَادَ طَعَامَ مِسْكِينٍ آخَرَ»، {فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ} «وَلَا يُرَخَّصُ إِلَّا لِلْكَبِيرِ الَّذِي لَا يُطِيقُ الصَّوْمَ، أَوْ مَرِيضٍ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُشْفَى». وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ (سنن الدارقطني، 3/ 195، حدیث نمبر2379)
اسے بیہقی نے بھی ابن ابی نجیح سے روایت کی ہے۔ (السنن الکبری، 4/271، ح8575)
امام دارقطنی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
اس میں صرف عمر رسیدہ ضعیف اور دائمی مریض کی بات ہے، حاملہ ومرضعہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
■ جہاں تک ابن جریج کی روایت ہے تو عبد الرزاق نے اپنے مصنف میں ”عطاء“ سے دو حدیثیں روایت کی ہیں، ایک میں حاملہ ومرضعہ کا ذکر ہے، دوسرے میں نہیں۔
◇ پہلی روایت:
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ} قَالَ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَؤُهَا: «يُطَوَّقُونَهُ»۔ (مصنف عبد الرزاق الصنعاني، 4/221، ح 7575)۔

اس میں حاملہ ومرضعہ کا ذکر نہیں۔
◇ دوسری روایت:
عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَعَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «تُفْطِرُ الْحَامِلُ وَالْمُرْضِعُ فِي رَمَضَانَ، وَتَقْضِيَانِ صِيَامًا، وَلَا تُطْعِمَانِ» «مصنف عبد الرزاق الصنعاني (4/218, حدیث نمبر7564)

اس روایت میں عطا سے مراد عطاء بن ابی رباح ہیں یا عطاء الخراسانی یا کوئی دوسرے ہیں اس کی تعیین نہیں ہے۔ میں نے ایک مستقل مضمون میں بیان کیا ہے کہ سب سے قریب ترین احتمال عطاء الخراسانی کے ہونے کا ہے، اور انقطاع کی بنا پر اس کی سند ضعیف ہے۔ مزید معلومات کے لیے اس مضمون کی طرف رجوع کیا جائے۔
اس میں میں نے بیان کیا ہے کہ عطاء بن ابی رباح کا احتمال بہت بعید ہے، کیونکہ یہاں ان سے روایت کرنے والے سفیان ثوری بھی ہیں اور ثوری عطاء بن ابی رباح کے نہیں بلکہ عطاء الخراسانی کے شاگرد ہیں۔
اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ اس سے مراد عطا بن ابی رباح ہی ہیں تو یہ لازم آئے گا کہ ابن جریج نے عطاء کے دو معروف ومشہور ثقہ تلامذہ عمرو بن دینار اور عبد اللہ بن ابی نجیح کی مخالفت کی ہے اور عطا بن ابی رباح کی روایت میں حاملہ اور مرضعہ کا ذکر کیا ہے جسے ان دونوں نے نہیں کیا ہے جس بنا پر ان کی روایت شاذ ہے۔ امام احمد نے عمرو بن دینار کو عطاء کے شاگردوں میں مطلقا “اثبت الناس” کہا ہے۔ بلکہ خود عطاء سے جب پوچھا گیا کہ “بمن تأمرنا؟” تو فرمایا: “بعمرو بن دينار”. (سیر اعلام النبلاء، 5/303-304)
لیکن اب بھی میرا ماننا یہی ہے کہ ابن جریج کی روایت میں عطاء سے مراد عطاء الخراسانی ہیں اور انقطاع کی بنا پر ان کی روایت ضعیف ہے۔ اس کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ ابو عبید نے الناسخ والمنسوخ میں ”ابن جریج عن عطاء عن ابن عباس“ کی سند سے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس میں عطاء الخراسانی کی صراحت ہے۔ پوری روایت مع سند ومتن ملاحظہ فرمائیں:
قال أبو عبيد: حدثنا حجاج عن ابن جريج وعثمان بن عطاء عن عطاء الخراساني عن ابن عباس في هذه الآية وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ قال: كانت الإطاقة أنّ الرجل والمرأة كان يصبح صائما ثم إن شاء أفطر وأطعم لذلك مسكينا فنسختها هذه الآية فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ. (الناسخ والمنسوخ للقاسم بن سلام،1/43, ح59)

یہ روایت ابن الجوزی کی “نواسخ القرآن” میں بھی ہے اور وہاں بھی عطاء الخراسانی کی صراحت ہے۔
بہرحال مصنف عبد الرزاق کی قضا والی روایت ضعیف ہے، چاہے شذوذ کی بنا پر اسے ضعیف کہا جائے یا انقطاع کی بنا پر۔
شیخ محمد مبارک حکیمی نے اسے “غیر محفوظ” کہا ہے۔ (العتيق مصنف جامع لفتاوى أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم لمحمد مبارك حكيمي، ص: 2624، بترقيم الشاملة آليا).
● (2) عطاء الخراسانی کی روایت:
عطاء بن ابی رباح کی روایت کے ضمن میں ان کی روایت کا بیان گزر چکا۔
● (3) عکرمہ کی روایت:
عکرمہ سے ان کے پانچ تلامذہ نے اسے روایت کی ہے۔ خالد الحذاء، ایوب السختیانی، یزید النحوی، قتادہ اور عاصم۔

■ خالد الحذاء کی روایت:
امام دار قطنی نے اس لفظ کے ساتھ ان کی حدیث روایت کی ہے: رخِّصَ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ أَنْ يُفْطِرَ، وَيُطْعِمَ عَلَى كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا وَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِ. ( سنن الدارقطني، 3/ 195، ح 380)
اس کی سند کو انھوں نے صحیح کہا ہے۔
یہ لفظ وہیب نے ان سے روایت کی ہے۔ اسی طرح کا لفظ یزید بن زریع نے بھی ان سے نقل کیا ہے۔

■ ایوب السختیانی کی روایت:
مصنف عبد الرزاق میں ان کی روایت اس طرح آئی ہے: عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهَا لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ فَكَانَ يَقْرَؤُهَا» يُطَوَّقُونَهُ «هِيَ فِي الشَّيْخِ الَّذِي كُلِّفَ الصِّيَامَ، وَلَا يُطِيقُهُ، فَيُفْطِرُ، وَيُطْعِمُ» (مصنف عبد الرزاق الصنعاني (4/ 221، حدیث نمبر 7573)
اس کی سند صحیح ہے۔
■ یزید النحوی کی روایت:
امام ابو داؤد نے ان کی حدیث ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے:حدَّثنا أحمدُ بنُ محمد، حدثني عليُّ بنُ حسين، عن أبيه، عن يزيدَ النحوي، عن عِكرمَة عن ابنِ عباسِ {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ}، فكان من شاء منهم أن يفتدي بطعامِ مِسكين افتدى، وتمَّ له صومُه، فقال: {فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ} وقال: {فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ}. (سنن أبي داود، تحقیق الارنووط، 4/8، حدیث نمبر 2316)

شیخ شعیب ارنووط نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، فرماتے ہیں:
“ضعيف، وقد رُوي عن ابن عباس بأسانيد أصح من هذا وأوثق رجالاً بأنه كان يذهب إلى أن هذه الآية محكمة وليست بمنسوخة”۔

ان تینوں روایات میں حاملہ اور مرضعہ کا ذکر نہیں ہے۔
■ قتادہ کی روایت:
امام ابو داؤد نے ان کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
حدَّثنا موسى بنُ إسماعيل، حدَّثنا أبانُ، حدَّثنا قتادة، أن عِكرِمَة حدثه أن ابنَ عباسٍ قال: أُثْبِتَتْ لِلحُبلى والمُرْضِع. (سنن أبي داود ت الأرنؤوط (4/ 9) برقم 2317)
قال الضياء المقدسي في «الأحاديث المختارة» (12/ 223): كذا أخرجه أبو داود في ترجمته {وعلى الذين يطيقونه فدية}

یہ سند صحیح ہے۔
اس میں حاملہ ومرضعہ کا ذکر ہے۔
■ عاصم الاحول کی روایت:
امام طبری نے اپنی تفسیر میں ان کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
حدثنا هناد قال، حدثنا أبو معاوية، عن عاصم، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: الحاملُ والمرضعُ والشيخُ الكبير الذي لا يستطيع الصوم، يفطرون في رمضان، ويطعمون عن كل يوم مسكينًا، ثم قرأ: “وعلى الذينَ يُطيقونه فديةٌ طعامُ مسكين”. (تفسير الطبري، 3/ 432، ح 2783)

اس کی سند صحیح ہے، اس کے تمام روات شیخین کے روات ہیں، سوائے ہناد کے، وہ ثقہ ہیں اور امام مسلم کے روات میں سے ہیں۔
● خلاصہ: عکرمہ سے مروی روایات میں سے دو الگ الگ صحیح سندوں میں آیت کی تفسیر میں حاملہ اور مرضعہ کا ذکر ہے۔ جس میں سے عاصم الاحول کی روایت اتم ہے۔ اس میں حاملہ ومرضعہ کو عدم استطاعت کی صورت میں روزہ ترک کرنے اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا دینے کی صراحت ہے۔

● (4) سعید بن جبیر کی روایت:
ان سے ان کے چار شاگردوں نے اسے روایت کی ہے: عزرہ، ایوب السختیانی، سالم الافطس اور ابو بشر۔
■ عزرہ کی روایت:
”سعید بن ابی عروبہ عن قتادہ عن عزرہ عن سعید بن جبیر عن ابن عباس“ کے طریق سے بہت سارے روات نے اسے روایت کی ہے:
■ (الف، ب) مکی بن ابراہیم، روح بن عبادہ:
امام بیہقی نے السنن الکبری میں ان دونوں کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو , قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ، ثنا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، ح
وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ , أنبأ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّزَّازُ , ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَسَوِيُّ، ثنا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: ” رُخَّصَ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ، وَالْعَجُوزِ الْكَبِيرَةِ فِي ذَلِكَ وَهُمَا يُطِيقَانِ الصَّوْمَ أَنْ يُفْطِرَا إِنْ شَاءَا، وَيُطْعِمَا مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا، ثُمَّ نُسِخَ ذَلِكَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ {فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ} [البقرة: 185]، وَثَبتَ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْعَجُوزِ الْكَبِيرَةِ إِذَا كَانَا لَا يُطِيقَانِ الصَّوْمَ , وَالْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ إِذَا خَافَتَا أَفْطَرَتَا وَأَطْعَمَتَا مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا ” لَفْظُ حَدِيثِ مَكِّيٍّ، وَفِي رِوَايَةِ رَوْحٍ: وَالْحُبْلَى وَالْمُرْضِعِ إِذَا خَافَتَا، وَالْبَاقِي سَوَاءٌ۔ (السنن الكبرى للبيهقي، 4/ 388، حدیث نمبر 8077)

■ (ج) محمد بن عدی:
امام ابو داود نے ان کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
حدَّثنا ابن المثنى، حدَّثنا ابنُ أبي عَدي، عن سعيدٍ، عن قتادةَ، عن عَزْرَةَ، عن سعيد بنِ جبيرٍ عن ابنِ عباس {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ} قال: كانت رُخْصَةً للشيخِ الكبيرِ والمرأةِ الكبيرة وهما يُطيقان الصيام أن يُفْطِرَا ويُطْعِمَا مكان كُل يومٍ مسكيناً، والحُبْلى والمُرْضِعُ إذا خافتا۔ (سنن أبي داود ت الأرنؤوط 4/9، حدیث نمبر 2318)

ابن ابی عدی نے سعید بن ابی عروبہ سے اختلاط کے بعد سنا ہے، اس لیے ان کی یہ روایت ثابت نہیں۔ (شرح العلل لابن رجب: 2/567، والكواكب النيرات: 190)
■ (د) عبد الوہاب بن عطا الخفاف:
امام طحاوی نے احکام القرآن میں ان کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ لأُمِّ وَلَدٍ لَهُ حَامِلٍ أَوْ مُرْضِعٍ: ” أَنْتِ بِمَنْزِلَةِ الَّذِينَ لَا يُطِيقُونَهُ، عَلَيْكِ أَنْ تُطْعِمِي مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا، وَلا قَضَاءَ عَلَيْكِ “۔ (أحكام القرآن للطحاوي: 1/420، حدیث نمبر 914)

■ (ھ) ابن المبارک:
امام طبری نے ان کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
حدثني المثنى قال، حدثنا سويد قال، أخبرنا ابن المبارك، عن سعيد، عن قتادة، عن عروة عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس:”وَعلى الذين يُطيقونه”، قال: الشيخ الكبير، والعجوز الكبيرة، ثم ذكر مثل حديث بشر عن يزيد. (تفسير الطبري = جامع البيان ت شاكر (3/ 425، حدیث نمبر 2753)

اس میں ان کے مکمل الفاظ کا بیان نہیں ہے، بلکہ یزید بن زریع کے الفاظ کی طرف احالہ ہے، جو کہ اس سے پہلے والی حدیث ہے، جس کے الفاظ ہیں:
كان الشيخُ الكبير والعجوزُ الكبيرةُ وهما يطيقان الصوم، رُخص لهما أن يفطرَا إن شاءا ويطعما لكلّ يوم مسكينًا، ثم نَسخَ ذلك بعد ذلك:”فمن شَهد منكم الشهر فليصمه ومَنْ كان مريضًا أو عَلى سفر فعدةٌ من أيام أخر”، وثبت للشيخ الكبير والعجوز الكبيرة، إذا كانا لا يطيقان الصوم، وللحبلى والمرضع إذا خافتا۔

■ (و) محمد بن بشر:
ابن ابی حاتم نے ان کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدِ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، ثنا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عُرْوَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: رُخِّصَ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْعَجُوزِ الْكَبِيرَةِ وَهُمَا يُطِيقَانِ الصَّوْمَ، إِنْ شَاءَا أَطْعَمَا وَلَمْ يَصُومَا، ثُمَّ نُسِخَتْ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ اللَّهُ: فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سفر فعدة مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَثَبَتَ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْعَجُوزِ الْكَبِيرَةِ، إِذَا كَانَ لَا يُطِيقَانِ الصَّوْمَ، أَنْ يُطْعِمَا، وَلِلْحُبْلَى وَالْمُرْضِعِ إِذَا خَافَتَا أَفْطَرَتَا وَأَطْعَمَتَا، مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا، وَلا قَضَاءَ عَلَيْهِمَا. (تفسير ابن أبي حاتم 1/ 307، ح 1635)

سعید بن ابی عروبہ کے ان تمام شاگردوں کی روایت میں خوف کا لفظ عام ہے، اس کی تفصیل وارد نہیں ہے کہ اس سے مراد خوف علی النفس ہے یا خوف علی الولد، لیکن ان کے دوسرے شاگردوں کی روایات میں خوف علی النفس کی تخصیص موجود ہے، مثلا:
■ (ز) یزید بن زریع:
امام طبری نے ان سے دو جگہوں پر یہ حدیث روایت کی ہے، ایک جگہ فرماتے ہیں:
حدثنا بشر بن معاذ قال، حدثنا يزيد بن زريع قال، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن عَزْرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس قال: كان الشيخُ الكبير والعجوزُ الكبيرةُ وهما يطيقان الصوم، رُخص لهما أن يفطرَا إن شاءا ويطعما لكلّ يوم مسكينًا، ثم نَسخَ ذلك بعد ذلك: “فمن شَهد منكم الشهر فليصمه ومَنْ كان مريضًا أو عَلى سفر فعدةٌ من أيام أخر”، وثبت للشيخ الكبير والعجوز الكبيرة، إذا كانا لا يطيقان الصوم، وللحبلى والمرضع إذا خافتا. (تفسير الطبري = جامع البيان ت شاكر (3/ 425) 2752-

جب کہ دوسری جگہ فرماتے ہیں:
حدثنا بشر بن معاذ قال، حدثنا يزيد قال، حدثنا سعيد، عن قتادة قال: ذُكر لنا أن ابن عباس قال، لأم ولد له حبلى أو مرضع: أنت بمنزلة الذين لا يطيقونه، عليك الفداءُ ولا صومَ عليك. هذا إذا خافت على نفسها. (تفسير الطبري، 3/429، ح 2761)

دونوں جگہ قتادہ تک کی سند بالکل ایک جیسی ہے۔ لیکن پہلی سند میں قتادہ نے اپنے اوپر کی مکمل سند بیان کی ہے، جب کہ دوسری جگہ ابہام سے کام لیا ہے، لیکن یہ مضر نہیں کیونکہ اس ابہام کی تعیین دوسری سند سے ہو جاتی ہے۔ قابل غور چیز یہ ہے کہ دوسری سند کے الفاظ میں ”خوف علی النفس“ کی صراحت ہے۔ اور یزید بن زریع سے یہ لفظ ثابت ہے، کونکہ دونوں جگہ ان تک سند بعینہ ایک جیسی ہے۔
■ (ح) یحیی بن سعید:
ان سے ان کے دو شاگردوں نے یہ حدیث روایت کی ہے: مسدد نے اپنی مسند میں اور ابو عبید القاسم بن سلام نے الناسخ والمنسوخ میں۔
مسدد بن مسرہد کی مسند مطبوع نہیں ہے کہ اصل کتاب میں اس کے الفاظ کو دیکھا جاسکے، لیکن حافظ ابن حجر نے “المطالب العالیہ” میں ان کی یہ حدیث ذکر کی ہے، فرماتے ہیں:
وَقَالَ مُسَدَّدٌ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي عروبة، عن قتادة، عن عزرة عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه قَالَ: الْحَامِلُ وَالْمُرْضِعُ إِذَا خَافَتَا أَفْطَرَتَا وَأَطْعَمَتَا وَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِمَا، إِسْنَادُهُ حَسَنٌ. (المطالب العاليہ، 6/102، ح 1047)

اس میں خوف کی تفصیل نہیں ہے۔ لیکن یہی حدیث ان سے ابو عبید نے اس طرح روایت کی ہے:
حدثنا يحيى بن سعيد عن سعيد بن أبي عروبة عن قتادة عن عزرة عن سعيد بن جبير عن ابن عباس: في الحامل والمرضع إذا خافتا على أنفسهما قال: يفطران ويطعمان۔ (الناسخ والمنسوخ للقاسم بن سلام 1/65، حدیث نمبر 110)

اس میں ”خوف علی النفس“ کی صراحت ہے۔ چونکہ ابوعبید معروف ثقہ راوی ہیں اس لیے ان کی یہ تخصیص قابل قبول ہے۔ اور حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ کوئی مخالفت بھی نہیں ہے، مسدد نے اختصار سے کام لیا ہے جب کہ ابو عبید نے مکمل بیان کیا ہے۔
■ (ط) عبدۃ بن سلیمان الکلابی:
امام طبری نے اپنی تفسیر میں ان کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
حدثنا هناد قال، حدثنا عبدة، عن سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة، عن عَزْرَة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس قال: إذا خَافت الحاملُ على نفسها، والمرضع على ولدها في رمضان، قال: يفطران ويطعمان مكانَ كل يوم مسكينًا، ولا يقضيان صومًا. (تفسير الطبري , 3/ 427, ح 2758)

سعید بن ابی عروبہ سے مروی یہ تمام طرق ثابت شدہ ہیں۔ امام دارقطنی وغیرہ نے ان کی اسانید کو صحیح کہا ہے۔ اور ان کے بعد آنے والے علما نے بالاتفاق اسے قبول کیا ہے۔
اس تفصیل سے پتہ چلا کہ سعید بن ابی عروبہ کے تین جلیل القدر شاگردوں (یزید بن زیع، یحیی بن سعید القطان اور عبدۃ بن سلیمان الکلابی) نے ابن عباس کی روایت میں ”خوف علی النفس“ کی صراحت کی ہے۔ اور یہ تینوں سعید بن ابی عروبہ کے سب سے اثبت تلامذہ میں سے ہیں۔ بلکہ عبدۃ کو امام ابن معین نے علی الاطلاق سعید بن ابی عروبہ کے شاگردوں میں اثبت الناس سماعًا قرار دیا ہے۔ لہذا اگر وہ اکیلے ہی اس لفظ کی روایت کرتے پھر بھی ان کی زیادتی قابل قبول تھی۔
اگر کوئی کہے کہ ابن عدی نے یزید بن زیع اور یحیی بن سعید القطان کو سعید بن ابی عروبہ سے اثبت الناس کہا ہے تو اس کا جواب یہ کہ ابن عدی نے حصر کے ساتھ انھیں اثبت الناس نہیں کہا ہے بلکہ ان کے الفاظ ہیں: “أثبت الناس عنه يزيد بن زريع وخالد بن الحارث ويحيى بن سعيد ونظراؤهم قبل اختلاطه”۔ (الكامل في ضعفاء الرجال، 4/451)
یہاں ان کے الفاظ پر غور فرمائیں، انھوں نے تین تلامذہ کا ذکر کرنے کے بعد ”ونظراؤهم قبل اختلاطه“ کہہ کر دوسرے شاگردوں کو بھی شامل کیا ہے، اور ان میں سب سے پہلے عبدۃ جیسے جلیل القدر شاگرد شامل ہوں گے۔ جب کہ ابن معین نے عبدۃ کو علی الاطلاق اثبت الناس کہا ہے، فرماتے ہیں: “وأثبت الناس سماعا منه عبدة بن سليمان”. (الكامل في ضعفاء الرجال (4/ 447)
لہذا اگر عبدۃ اس زیادتی کو بیان کرنے میں متفرد ہوتے پھر بھی اسے شاذ نہیں کہا جا سکتا تھا، لیکن وہ متفرد نہیں ہیں، یزید بن زریع اور یحیی القطان نے بھی ان کی متابعت کی ہے، اور ابن عدی کے مطابق وہ اثبت الناس عن سعید ہیں۔ لہذا اس ”زیادتی“ کو ”شاذ“ کہنا صحیح نہیں۔ اسی وجہ سے متقدمین سے لے کر متأخرین تک کسی نے اسے شاذ نہیں کہا ہے۔ اور امام دارقطنی کی تصحیح کو سب نے بالاتفاق قبول کیا ہے۔
امام ابن عبد البر فرماتے ہیں: “رواه عن ابن عباس سعيد بن جبير وعطاء وعكرمة بأسانيد حسان أنهما تفطران وتطعمان ولا قضاء عليهما”۔ (الاستذكار، 3/ 365)
عطا کی روایت میں مجھے حاملہ ومرضعہ کا ذکر نہیں ملا۔
امام قرطبی بھی فرماتے ہیں کہ صحیح اسانید سے یہ ابن عباس سے ثابت ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن، 2/288-289)
امام نووی نے بھی اس کی تصحیح کی ہے۔ (المجموع، 6/220)
اسے روایت کرنے میں ہشام الدستوائی نے سعید بن ابی عروبہ کی متابعت بھی کی ہے۔ امام دارقطنی نے ان کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
حدثنا أبو صالح ثنا أبو مسعود ثنا أبو عامر العقدي ثنا هشام عن قتادة عن عزرة عن سعيد بن جبير عن بن عباس أنه كانت له أمة ترضع فأجهضت فأمرها بن عباس أن تفطر يعني وتطعم ولا تقضي۔ هذا صحيح۔ (سنن الدارقطني، 2/207، حدیث نمبر 10)

اور یہ دونوں (ہشام الدستوائی اور سعید بن ابی عروبہ) قتادہ کے سب سے جلیل القدر شاگرد ہیں۔ انھیں علما نے شعبہ کے درجے میں رکھا ہے۔
ابن معین فرماتے ہیں: “أثبت النَّاس فِي قَتَادَة سعيد بن أبي عرُوبَة وَهِشَام يَعْنِي الدستوَائي وَشعْبَة وَمن حدث من هَؤُلَاءِ بِحَدِيث عَن قَتَادَة فَلَا يُبَالِي أَلا يسمعهُ من غَيره”۔( التعديل والتجريح، لمن خرج لہ البخاري في الجامع الصحيح، 3/1162)
اور ابن عدی الكامل في ضعفاء الرجال (4/451) میں فرماتے ہیں: “وهو مقدم في أصحاب قتادة ومن أثبت الناس رواية عنه وثبتا عن كل من روى عنه إلا من دلس عنهم، وهو الذين ذكرتهم ممن لم يسمع منهم”۔
اور ابُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ فرماتے ہیں: كَانَ سَعِيْدٌ أَحْفَظَ أَصْحَابِ قَتَادَةَ. (سير أعلام النبلاء:6/417)
اور أَبُو حَاتِم فرماتے ہیں: ثِقَةٌ قَبْلَ أَنْ يَختَلِطَ، وَكَانَ أَعْلَمَ النَّاسِ بِحَدِيْثِ قَتَادَةَ. (سير أعلام النبلاء:6/415)
اسی لیے علامہ البانی رحمہ اللہ اس کی سند کی تصحیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “وإسناده صحيح على شرط مسلم”. (إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل: 4/19)
■ ایوب السختیانی کی روایت:
امام دارقطنی نے سفیان بن عیینہ اور محمد بن جابر کے طریق سے ان سے یہ حدیث روایت کی ہے، لیکن اس میں شک کے ساتھ ابن ”عباس أو ابن عمر“ موجود ہے۔ امام دارقطنی فرماتے ہیں:
حدثنا أبو صالح ثنا أبو مسعود ثنا محمد بن يوسف عن سفيان عن أيوب عن سعيد بن جبير عن ابن عباس أو ابن عمر قال: الحامل والمرضع تفطر ولا تقضي۔ (سنن الدارقطني:2/207)

اور محمد بن جابر کے الفاظ ہیں: لا بأس تفطر الحبلى والمرضع في رمضان اليوم بين الأيام ولا قضاء عليهما۔ (سنن الدارقطني:4/ 141)
سفیان بن عیینہ کے طریق کو امام دارقطنی نے صحیح کہا ہے۔ یہ روایت قتادہ عن عزرہ کی روایت کو مزید قوت پہنچاتی ہے۔ جہاں تک ابن عباس اور ابن عمر کے درمیان شک کی بات ہے تو یہی روایت ابو عبید نے الناسخ والمنسوخ میں بغیر شک کے صرف ابن عباس سے روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن كثير عن حماد بن سلمة عن قتادة وأيوب عن سعيد بن جبير عن ابن عباس أنه قال لامرأة ترضع: أنت من الذين يطوقونه أفطري وأطعمي كل يوم مسكينًا. (الناسخ والمنسوخ للقاسم بن سلام: 1/ 65، ح109)

■ سالم الافطس کی روایت:
ان سے ان کے دو شاگردوں نے روایت کی ہے: اسرائیل بن یونس، اور شریک بن عبد اللہ النخعی القاضی۔
◇ اسرائیل کی روایت:
اسرائیل سے ان کے دو شاگردوں نے اسے روایت کی ہے: عبید اللہ بن موسی اور مخول بن ابراہیم:
■ عبید اللہ بن موسی کی حدیث امام بیہقی نے الخلافیات میں روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
أخبرنا أبو الْحُسَيْنِ الْقَطَّانُ، أنا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ مَاتِي، أنا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمِ بْنِ أَبِي غَرْزَةَ، أنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِ اللَّهِ – عز وجل -: {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ} يَتَجَشَّمُونَهُ وَلَا يُطِيقُونَهُ؛ الْحَامِلُ، وَالْكَبِيرُ، وَالْمَرِيضُ، وَصَاحِبُ الْعُطَاشِ۔ (الخلافيات بين الإمامين الشافعي وأبي حنيفة وأصحابه، 5/58، ح 3546)

اس کی سند بالکل صحیح ہے۔
■ اور مخول بن ابراہیم کی حدیث امام طحاوی نے روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
حدثنا فهد بن سليمان قال: حدثنا مخول بن إبراهيم قال: حدثنا إسرائيل بن يونس، عن سالم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما في قول الله عز وجل: {وعلى الذين يطيقونه} [البقرة: 184] قال: ” الذين يتجشمونه ولا يطيقونه – يعني إلا بالجهد -: الحبلى، والكبير، والمريض، وصاحب العطاش”۔ (شرح مشكل الآثار: (6/ 185)

اس کی سند حسن ہے، اس میں مخول بن ابراہیم پر کچھ کلام ہے، خصوصا جب وہ اسرائیل سے روایت کریں۔ لیکن عبید اللہ بن موسی کی سابقہ متابعت کی وجہ سے یہ مضر نہیں۔
■ شریک کی روایت:
امام طبری نے درج ذیل سند سے یہ حدیث روایت کی ہے:
حدثنا إسماعيل بن موسى السديّ قال، أخبرنا شريك، عن سالم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس:”وعلى الذين يُطوَّقونه” قال: يَتجشمونه يَتكلفونه. (تفسير الطبري: 3/ 431، ح2775)

اس کی سند حسن ہے۔
لہذا سالم الافطس کی یہ روایت ثابت ہے۔ اس میں ایک اشکال یہ ہو سکتا ہے کہ مریض وصاحب العطاش کو بھی حاملہ ومرضعہ کے حکم میں شامل کیا گیا ہے۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ مریض سے مراد مریض دائمی ہے عارضی نہیں۔
اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جسے امام طبری نے تخریج کی ہے، فرماتے ہیں: حدثني المثنى قال، حدثنا أبو صالح قال، حدثني معاوية، عن علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس في قوله: “وَعلى الذين يُطيقونه فديةٌ طعامُ مسكين”، يقول: من لم يطق الصوم إلا على جَهد، فله أن يفطر ويطعم كل يوم مسكينًا، والحاملُ والمرضعُ والشيخُ الكبيرُ والذي به سُقمٌ دائم. (تفسير الطبري: 3/ 432، ح 2780)
البتہ یہ روایت مرسل ہے، لیکن استیناس کی حد تک ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں۔
جہاں تک صاحب العطاش کی بات ہے تووہ شین معجمہ کے ساتھ العطاش ہے، سین مہملہ کے ساتھ العطاس نہیں۔ اور صاحب العطاش کا معنی علما نے یہ ذکر کیا ہے:
العُطاش: شدة العطش، وقد يكون داء يشرب معه ولا يَرْوَى صاحبُه. النهاية (عطش)
وفي «لسان العرب»: العُطَاشُ: داءٌ يصيبُ الإِنسانَ والحيوانَ، يَشربُ الماءَ فلا يَرْوى۔
وقال في المعجم الوسيط: ذو العطاش: من به داء العطش بحيث لا يقدر على ترك شرب الماء فترة طويلة، ولذا يسقط عنه الصوم۔

یعنی یہ ایک خاص بیماری ہے، اس میں انسان پیاس برداشت نہیں کر پاتا، لہذا اس میں مبتلا شخص کا معاملہ بھی دائمی مریض کی طرح ہے۔ اس لیے اس سیاق میں کوئی نکارت نہیں ہے۔
■ ابو بشر جعفر بن ابی وحشیہ کی روایت:
ضیاء الدین مقدسی نے المختارہ میں ان کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
أخبرنا أبو جعفر محمد بن أحمد الصيدلاني أن أبا بكر محمد بن عبد الله بن محمد بن الحسين بن الحارث خوروعست أخبرهم وهو حاضر أبنا أبو أحمد عبد الملك بن الحسين العطار المقرىء ثنا أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد بن مهدي الحافظ في صفر سنة أربع وثمانين وثلاثمائة ثنا يحيى بن محمد بن صاعد ثنا أبو عبيد الله المخزومي هو سعيد بن عبد الرحمن ثنا سفيان بن عيينة عن أيوب السختياني عن أبي بشر عن سعيد بن جبير عن ابن عباس في قوله {وعلى الذين يطيقونه} قال هو الشيخ الكبير والحامل في شهرها والمرضع تخاف على ولدها يفطرون ويطعمون عن كل يوم مسكينا ولا قضاء عليهم. (الأحاديث المختارة:10/ 86, ح 81)

اس کی سند ”لا بأس بہ“ ہے۔ اس میں ابو احمد عبد الملک بن الحسین العطار المقرئ کو شمس الدین الجزری نے “شيخ معروف مقرئ ناقل متصدر” کہا ہے۔ (غاية النهاية في طبقات القراء، 1/468)
اور ان کے شاگرد مُحَمَّدِ بْن عَبْد اللَّه بْن مُحَمَّدِ بْنِ الحسين بن الحارث، أبو بكر خوروست کو سمعانی نے ”شیخ صالح“ کہا ہے۔ (تاريخ الإسلام (11/210)
اور ان کے شاگرد الصَّيْدَلاَنِيُّ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بنُ أَحْمَدَ بنِ نَصْرٍ کو حافظ ذہبی نے صدوق کہا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء: 21/430)
باقی دوسرے روات ثقہ ہیں۔
● (5) مجاہد کی روایت:
بہت سارے ائمہ نے صحیح اسانید سے ان کی حدیث روایت کی ہے۔ مثلا امام دار قطنی فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَكِيلُ أَبِي صَخْرَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، ثنا رَوْحٌ، ثنا شِبْلٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، وَعَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ” {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ} [البقرة: 184] «وَاحِدٍ» {فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا} [البقرة: 184] «زَادَ طَعَامَ مِسْكِينٍ آخَرَ» {فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ} [البقرة: 184] «وَلَا يُرَخَّصُ إِلَّا لِلْكَبِيرِ الَّذِي لَا يُطِيقُ الصَّوْمَ أَوْ مَرِيضٍ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُشْفَى». وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ۔ (سنن الدارقطني (3/ 195) ح 2379)

ان کی حدیث میں حاملہ ومرضعہ کا ذکر نہیں ہے۔
● (6) علی بن ابی طلحہ کی روایت:
امام طبری نے ان کی روایت کی تخریج کی ہے، فرماتے ہیں: حدثني المثنى قال، حدثنا أبو صالح قال، حدثني معاوية، عن علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس في قوله: “وَعلى الذين يُطيقونه فديةٌ طعامُ مسكين”، يقول: من لم يطق الصوم إلا على جَهد، فله أن يفطر ويطعم كل يوم مسكينًا، والحاملُ والمرضعُ والشيخُ الكبيرُ والذي به سُقمٌ دائم۔ (تفسير الطبري، 3/432، ح 2780)
یہ روایت مرسل ہے۔ ابو حاتم فرماتے ہیں: “علي بن أبي طلحة عن بن عباس مرسل”۔ (جامع التحصيل ص: 240)
● (7) محمد بن سیرین کی روایت:
خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں ان کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَرَ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبَّادٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عَلَقَمَةَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قرأهَا {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ}، وَقَالَ: وَهَذِهِ مَنْسُوخَةٌ “۔ (تاريخ بغداد، 14/428، ح 4274)

یہ روایت بھی مرسل ہے۔ امام احمد اور علی بن المدینی فرماتے ہیں: “لم يسمع من بن عباس شيئا” (ابن سیرین نے ابن عباس سے کچھ نہیں سنا ہے)۔ (جامع التحصيل، ص: 264)
اس کے علاوہ بھی بعض علما نے بعض دوسری روایات کا تذکرہ کیا ہے اور انھیں ضعیف کہا ہے۔
● خلاصۂ کلام:
ابن عباس کی یہ حدیث ان سے ان کے سات شاگردوں نے روایت کی ہے۔ عطاء الخراسانی، ابن سیرین اور علی بن ابی طلحہ کی روایات ثابت نہیں۔ باقی جن چار تلامذہ کی روایتیں ثابت ہیں ان میں سے دو کی روایت میں حاملہ اور مرضعہ کا ذکر ہے، اور دو میں اس کا ذکر نہیں۔ ذکر کرنے والوں میں عکرمہ اور سعید بن جبیر ہیں۔ اور یہ دونوں ثقہ ہیں اس لیے اس کی صحت پر کوئی کلام نہیں۔
عکرمہ سے ثابت شدہ لفظ ہے: “الحاملُ والمرضعُ والشيخُ الكبير الذي لا يستطيع الصوم، يفطرون في رمضان، ويطعمون عن كل يوم مسكينًا، ثم قرأ: ﴿وعلى الذينَ يُطيقونه فديةٌ طعامُ مسكين﴾”
جب کہ سعید بن جبیر کی روایت میں اس کی مزید تفصیل وارد ہے۔ فرماتے ہیں: “إذا خَافت الحاملُ على نفسها، والمرضع على ولدها في رمضان، قال: يفطران ويطعمان مكانَ كل يوم مسكينًا، ولا يقضيان صومًا”۔
یہ عبدۃ بن سلیمان الکلابی کا لفظ ہے جسے انھوں نے ”عن سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة، عن عَزْرَة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس“ کے طریق سے روایت کی ہے۔ اور ابن معین نے صراحت کی ہے کہ ابن ابی عروبہ کے شاگردوں میں عبدۃ سماع کے اعتبار سے سب سے اثبت شاگرد ہیں۔ اس پر ابن ابی عروبہ کے اور دو سب سے جلیل القدر شاگردوں (یزید بن زیع اور یحیی بن سعید القطان) نے ان کی متابعت کی ہے۔ اور ان دونوں کو ابن عدی نے ابن ابی عروبہ کے سب سے اثبت تلامذہ میں شمار کیا ہے۔ لہذا ابن ابی عروبہ کے بعض دوسرے شاگردوں کا ”خوف علی النفس“ کی زیادتی کا لفظ روایت نہ کرنے کی وجہ سے اسے شاذ قرار دینا صحیح نہیں۔
سعید بن جبیر سے عزرہ کی روایت کی متابعت اور تین راویوں نے کی ہے: ایوب السختیانی، سالم الافطس اور ابو بشر جعفر بن ابی وحشیہ۔
ابو بشر کی سند لابأس بہ ہے، جب کہ ایوب اور سالم الافطس سے بسند صحیح یہ ثابت ہے۔
اس لیے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث پر کلام کرنا درست نہیں۔ والله أعلم وعلمه أتم وأحكم

پانچویں قسط: حدیث «إن الله وَضَعَ عن المُسافِر الصَّومَ، وشَطْرَ الصَّلاة، وعن الحامِل أو المُرْضِعِ الصَّومَ» میں دلالت اقتران کی حیثیت

آپ کے تبصرے

3000