صومِ حاملہ و مرضعہ کے متعلق ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کی تخریج

فاروق عبداللہ نراین پوری رمضانیات فقہیات

دوسری قسط: کیا مسئلہ صومِ حاملہ ومرضعہ کی کسی صورت پر علما کا اجماع ہے؟


تیسری قسط:

یہ اثر ان سے ان کے مولی اور مشہور جلیل القدر شاگرد نافع ابو عبد اللہ المدنی نے روایت کی ہے، اور نافع سے ان کے چار مشہور ثقہ تلامذہ نے، جن کے نام ہیں: عبید اللہ بن عمر العمری، علی بن ثابت بن عمرو البصری الانصاری، مالک بن انس امام دار الہجرہ اور ایوب السختیانی۔
آگے بالترتیب ہر ایک کی روایت مع اسناد ومتن پیش کی جا رہی ہے۔

●عبید اللہ بن عمر العمری کی روایت:
امام دار قطنی نے ان کی حدیث روایت کی ہے۔ فرماتے ہیں:
حدثنا أبو صالح ثنا أبو مسعود ثنا أبو أسامة عن عبيد الله عن نافع قال: كانت بنت لابن عمر تحت رجل من قريش، وكانت حاملًا، فأصابها عطش في رمضان، فأمرها ابن عمر أن تفطر وتطعم عن كل يوم مسكينًا۔ (سنن الدارقطني ، 2/ 207، حدیث نمبر 15)

اس کی سند صحیح ہے، اس کے تمام روات ثقہ ہیں۔
●علی بن ثابت البصری الانصاری کی روایت:
امام طبری اور ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیروں میں ”سَعِيد بن أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ“ کے طریق سے ان کی حدیث روایت کی ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں:
أَنَّهُ قَالَ لأُمِّ وَلَدِهِ: إِمَّا حَامِلٌ وَإِمَّا مُرْضَعٌ، أَنْتِ بِمَنْزِلَةِ الَّذِينَ لَا يُطِيقُونَهُ، عَلَيْكِ الطَّعَامُ وَلا قَضَاءَ عَلَيْكِ وَقَالَ أَبُو زُرْعَةَ: الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْحَامِلُ وَالْمُرْضِعُ، يُطْعِمُونَ لِكُلِّ يَوْمٍ مُدًّا مِنْ حنطة، ولا يقضوا. (تفسیر طبری، 3/428، ح2760، وتفسير ابن أبي حاتم , 1/ 307, ح1636, یہ الفاظ ابن ابی حاتم کے ہیں، اور طبری نے سابقہ الفاظ کی طرف احالہ کیا ہے جو اسی طرح ہیں)
اس کی سند بھی صحیح ہے۔
●امام مالک کی روایت:
امام شافعی نے ان سے روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ: أَنَّ ابْنَ عُمَرَ سُئِلَ عَنِ الْمَرْأَةِ الْحَامِلِ إِذَا خَافَتْ عَلَى وَلَدِهَا، قَالَ: تُفْطِرُ وَتُطْعِمُ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا مُدًّا مِنْ حِنْطَةٍ. (مسند الشافعي – ترتيب سنجر الجاولی المتوفی 745ھ-(2/121، ح 653)۔
اور ان کے ہی طریق سے امام بیہقی نے روایت کی ہے۔ (السنن الکبری، 4/389، ح8079، معرفۃ السنن والآثار، 6/273، ح8711)
یہ سند بھی صحیح ہے، بلکہ بعض علما نے اسے اصح الاسانید میں سے کہا ہے۔
●ایوب السختیانی کی روایت:
ان کے دو شاگردوں نے ان سے یہ حدیث روایت کی ہے: حماد بن سلمہ اور معمر بن راشد
■حماد بن سلمہ کی حدیث امام دار قطنی نے روایت کی، فرماتے ہیں:
حدثنا أبو صالح الأصبهاني ثنا أبو مسعود ثنا الحجاج ثنا حماد عن أيوب عن نافع عن ابن عمر أن امرأته سألته وهي حبلى فقال: أفطري وأطعمي عن كل يوم مسكينًا ولا تقضي. (سنن الدارقطني: 2/ 207, ح 14)
اس کی سند صحیح ہے، اس کے تمام روات ثقہ ہیں۔ ایوب سے روایت کرنے والے یہاں حماد بن سلمہ ہیں حماد بن زید نہیں، کیونکہ حجاج بن المنہال الانماطی جب حماد بن زید سے روایت کرتے ہیں تو ولدیت کے ساتھ پورا نام ذکر کرتے ہیں جیسا کہ امام مزی نے کہا ہے، جب کہ وہ حماد بن سلمہ سے دونوں طرح روایت کرتے ہیں۔ (تہذیب الکمال، 7/269)
اور ابن حزم کے یہاں حماد بن سلمہ کے نام کی صراحت ہے۔ (المحلی:4/411)
■اور معمر کی حدیث ان کے مشہور شاگرد عبد الرزاق الصنعانی نے اپنے مصنف میں روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: «الْحَامِلُ إِذَا خَشِيت عَلَى نَفْسِهَا فِي رَمَضَانَ تُفْطِرُ، وَتُطْعِمُ، وَلَا قَضَاءَ عَلَيْهَا» (مصنف عبد الرزاق الصنعاني (4/ 218، ح7561)

اس کی سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے۔ امام مسلم نے بعینہ اسی سند سے متعدد حدیثیں روایت کی ہیں۔ مثلا دیکھیں: حدیث نمبر:789، 1310، 1395، 1415، 1429، 1656، 1726، 2060، 2120/3
اسی طرح امام بخاری نے بھی ”عبد الرزاق عن معمر عن ایوب“ کے واسطے سے اپنی صحیح میں روایت کی ہے۔ مثلا دیکھیں: حدیث نمبر 2368 اور 4278۔ اور ”معمر عن ایوب“ کے واسطے سے دو حدیثیں روایت کی ہیں: 3352 اور 4320۔ بلکہ حدیث نمبر 4320 ”حدثني محمد بن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا معمر، عن أيوب، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما“ کے واسطے سے ہے۔ اور اسی طریق سے عبد الرزاق نے زیر بحث حدیث روایت کی ہے۔
امام بخاری نے یہ چاروں احادیث مسندًا روایت کی ہیں، سوائے (4278) والی حدیث کے، اس کے مُعلَّق ہونے کا شبہ ہے کیونکہ اسے ”وقال عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن أيوب“ کے صیغے سے روایت کی ہے۔
لہذا اس سند کے صحیح ہونے کے بارے میں ذرہ برابر شک نہیں کیا جاسکتا۔ یہ شیخین کی شرط پر بالکل صحیح ونظیف سند ہے۔
●اس صحیح ترین سند کے متعلق ایک شبہ اور اس کا زالہ:
■شبہ: یہ سند متکلم فیہ ہے۔ اس کی دلیل ابن معین رحمہ اللہ کا یہ قول ہے:
إذا حدثك مَعْمَر عَنِ العراقيين فخَفْه؛ إِلا عَنِ الزُّهْرِيّ، وابن طاووس؛ فإن حديثه عنهما مستقيم، فأما أهل الكوفة والبصرة فلا، وما عمل في حديث الأعمش شيئًا. (التاريخ الكبير = تاريخ ابن أبي خيثمة – السفر الثالث، 1/ 325)

یہاں امام ابن معین رحمہ اللہ نے معمر کی وہ حدیثیں جو انھوں نے اپنے عراقی شیوخ سے روایت کی ہیں ان سے محتاط رہنے کے لیے کہا ہے۔ اور ایوب السختیانی ان کے بصری شیوخ میں سے ہیں، لہذا یہ طریق متکلم فیہ ہے۔
■شبہ کا ازالہ: یہ بات متعدد اسباب کی بنا پر صحیح نہیں:
■ 1 – شیخین نے اس سند پر اعتماد کیا ہے اور مجھے کوئی ایسا امام جرح وتعدیل نہیں ملا جنھوں نے اس پر کلام کیا ہو۔
■ 2 – ایوب السختیانی معمر کے خاص قریبی مشایخ میں سے ہیں۔ معمر نے ان کی احادیث کا خصوصی اہتمام کیا ہے۔ درج ذیل امور اس پر بین دلیلیں ہیں:
◇پہلا: عبید اللہ بن عمرو الرقی فرماتے ہیں: “كُنْتُ بِالْبَصْرَةِ أَنْتَظِرُ قَدُومَ أَيُّوبَ مِنْ مَكَّةَ فَقَدِمَ عَلَيْنَا وَمَعْمَرٌ مُزَامِلُهُ”۔
(میں بصرہ میں ایوب کا مکہ سے لوٹنے کا انتظار کر رہا تھا، جب تشریف لائے تو معمر ان کے رفیق سفر تھے) (الطبقات الكبرى، 5/546)
◇دوسرا: ابن سعد فرماتے ہیں: “كانَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، فَانْتَقَلَ، فَنَزَلَ الْيَمَنَ، فَلَمَّا خَرَجَ مَعْمَرٌ مِنَ الْبَصْرَةِ شَيَّعَهُ أَيُّوبُ، وَجَعَلَ لَهُ سُفْرَة”۔
(معمر بن راشد بصری تھے، وہاں سے منتقل ہوکر یمن شفٹ ہوگئے، جب بصرہ سے نکلنے لگے تو ایوب انھیں رخصت کرنے گئے اور ان کے لیے ایک پارٹی دی) (الطبقات الكبرى: 5/546)
◇تیسرا: ایوب کی احادیث کا معمر نے کس قدر اہتمام کیا ہے خود ان کے اس قول سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے، فرماتے ہیں: “إنه ليعز علي أن أسمع لأيوب حديثا لم أسمعه من أيوب”.(جب میں ایوب کی کوئی ایسی حدیث سنتا ہوں جو میں نے خود ان سے نہیں سنی ہے تو مجھ پر بہت گراں گزرتا ہے) (الطبقات الکبری: 7/251 والتاريخ الكبير = تاريخ ابن أبي خيثمة – السفر الثالث (1/325)
■ 3 – محدثین کے نزدیک معمر سے روایت کرنے والے اگر بصری روات ہیں تو ان کی احادیث میں غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ جب وہ یمن سے اپنی ماں کی زیارت کے لیے بصرہ آئے تھے تو ان کے پاس کتابیں نہیں تھیں، اور بصرہ میں انھوں نے اپنے حفظ سے روایت کی تھی جس سے غلطیاں واقع ہوئیں، لیکن جہاں تک ہشام اور عبد الرزاق کی بات ہے تو انھوں نے معمر سے اس وقت روایت لی ہے جب وہ اپنی کتاب سے روایت کر رہے تھے۔ (دیکھیں: سیر اعلام النبلاء، 7/12)
اور زیر بحث حدیث میں معمر سے روایت کرنے والے عبد الرزاق الصنعانی ہیں، لہذا اس سند پر کلام نہیں کیا جاسکتا۔ نیز عبد الرزاق نے سات سے آٹھ سال تک ان کی صحبت اختیار کی ہے۔ لہذا وہ ان کی حدیثوں کے بڑے ماہر تھے۔ (تہذیب الکمال: 18/56)
■ 4 – معمر سے روایت کرنے والے رواة بصری ہوں تو اس پر محدثین کا کلام تو موجود ہے کہ معمر سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: “في رواية البصريين عنه مقال، لأنه حدثهم من حفظه”. (فتح الباری: 3/ 549)
لیکن مشایخ میں اگر بصری/ عراقی رواة ہوں تو ابن معین کے علاوہ کسی کا قول نہیں ملا کہ وہاں بھی معمر سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ ابن معین اسے کہنے میں متفرد ہیں۔ جہاں تک ابن رجب کی بات ہے تو انھوں نے بھی ابن معین کے کلام پر اعتماد کرتے ہوئے عراقی شیوخ سے ان کی حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ متقدمین میں ابن معین کے علاوہ کسی اور نے یہ بات نہیں کہی ہے۔ اور انھوں نے اس کی کوئی وجہ بھی بیان نہیں کی کہ عراقی مشایخ سے جب وہ روایت کریں تو کیوں ان کی احادیث نہ لی جائیں۔
■یہاں پر دوسرا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابن معین نے ان کے عراقی شیوخ میں سے جن کو مستثنی کیا ہے دونوں عراقی نہیں ہیں۔ زہری مدنی ہیں اور ابن طاووس یمنی۔ بلکہ عبد اللہ بن طاووس کی طرف ایوب کے مشورے پر ہی انھوں نے سفر کیا تھا۔ (تہذیب الکمال:15/131)
لہذا ایسا لگتا ہے کہ یہاں پر عبارت میں سے کوئی مؤثر لفظ ساقط ہے جس کی وجہ سے یہ مفہوم پیدا ہو رہا ہے۔
اگر ابن معین کا قول موجودہ عبارت کے ساتھ ہی من وعن تسلیم کرلیا جائے پھر بھی عراقی شیوخ میں سے ایوب السختیانی سابقہ دلائل کی بنا پر مستثنی ہوں گے اور ایوب کے علاوہ دوسرے عراقی شیوخ کے سلسلے میں ان کی بات قابل قبول ہوگی، ایوب کے سلسلے میں نہیں۔ اور اس اعلی درجے کی صحیح نظیف سند پر کوئی کلام نہیں کیا جائے گا، خصوصا جب کہ شیخین نے صحیحین میں اس پر اعتماد کیا ہے۔
شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
“إنَّني أقبل قول ابن معين في رواية معمر عن العراقيين بصريين وكوفيين إلاَّفي رواية قتادة وأيُّوب, فإنّهْ كان يحفظ حديثه عن قتادة، وكان بينه وبين أيُّوب صلة وثيقة أعتقد أنَّه بهذه الصلة كان يحفظ حديث أيُّوب، لأنَّ هذه الصلة عبارة عن الملازمة يُحسب لها حساب عند المحدثين ويرجحون بها عند الاختلاف، وانظر تهذيب التهذيب (10/245) وسير أعلام النبلاء (7/ 7-9) للتأكُّد من هذه الصلة بأيُّوب”. (الرد المفحم على من اعتدى على صحيح الإمام مسلم، ص: 50-51)

(عراقیوں سے چاہے وہ کوفی ہوں یا بصری معمر کی روایت کے متعلق ابن معین کا قول میں قتادہ وایوب کی روایت کے علاوہ قبول کرتا ہوں۔ کیونکہ معمر کو قتادہ کی حدیث حفظ تھی نیز ایوب اور ان کے درمیان گہرا ربط و تعلق تھا جس کی بنا پر مجھے یقین ہے کہ وہ ایوب کی حدیث کے حافظ تھے، کیونکہ اس ربط وتعلق سے مراد ملازمت ہے جس کی محدثین کے یہاں ایک قیمت ہے اور اس سے اختلاف کے وقت ترجیح کا کام لیتے ہیں۔ ان کا ایوب کے ساتھ ربط وتعلق جاننے کے لیے تہذیب التہذیب اور سیر اعلام النبلاء کی طرف رجوع کریں)
لہذا یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور اس کی صحت پر کوئی غبار نہیں ہے، وللہ الحمد والمنہ۔
●یہاں ایک اشکال اس کے لفظ کو لے کر آسکتا ہے کہ معمر کی روایت میں ”خوف علی النفس“ کی بات آئی ہے جو کسی دوسرے کی روایت میں موجود نہیں ہے۔ دوسروں کی روایت سے معمر کی روایت دو طرح سے مختلف ہے:
◇ 1 – علی بن ثابت، عبید اللہ العمری اور حماد بن سلمہ عن ایوب کی روایت میں خوف کا کوئی تذکرہ نہیں، نہ خوف علی النفس کا، نہ خوف علی الولد کا، جب کہ معمر کی روایت ان سے مختلف ہے۔
◇ 2 – امام مالک کی روایت میں ”خوف علی الولد“ کی بات ہے، جب کہ معمر کی روایت میں ”خوف علی النفس“ کی۔
■اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ اولا اسے مخالفت کہنا مناسب نہیں۔ ورنہ امام مالک کی روایت کو بھی نافع کے دوسرے اصحاب کی روایت کے مخالف کہنا پڑے گا اور مخالفت کی بنا پر شاذ کہنا پڑے گا، جس کا کوئی قائل نہیں۔
■دوسری بات: جس وجہ سے امام مالک کی روایت کو نافع کے دوسرے اصحاب کی روایت کے مخالف نہیں کہا جاتا اسی وجہ سے معمر کی روایت کو بھی حماد بن سلمہ اور نافع کے دوسرے اصحاب کی روایت کے مخالف نہیں کہا جائے گا۔ اگر اسے مخالف مانا گیا تو امام مالک کی روایت کو اس سے پہلے نافع کے تین اصحاب کی مخالفت کی بنا پر شاذ تسلیم کرنا پڑے گا۔
معمر کی روایت کو حماد بن سلمہ کی روایت کے مخالف ماننے کی صورت میں بھی ترجیح معمر کی روایت کو حاصل ہوگی، حماد بن سلمہ کی روایت کو نہیں۔ معمر کی ایوب سے نزدیکی اور اہتمام کی بات اوپر گزر چکی ہے کہ کس قدر وہ ان کی احادیث کے حریص تھے۔ اور حماد بھی گرچہ ان کے ثقہ تلامذہ میں سے ہیں لیکن اس درجے کے نہیں کہ معمر کے اوپر ان کو ترجیح دی جائے۔ ہاں اگر حماد بن زید ہوتے تو یہ بات کہی جاسکتی تھی۔
حافظ ذہبی حماد بن سلمہ کے متعلق فرماتے ہیں: كَانَ بَحْراً مِنْ بُحُورِ العِلْمِ، وَلَهُ أَوهَامٌ فِي سَعَةِ مَا رَوَى، وَهُوَ صَدُوْقٌ، حُجَّةٌ – إِنْ شَاءَ اللهُ -، وَلَيْسَ هُوَ فِي الإِتقَانِ كَحَمَّادِ بنِ زَيْدٍ، وَتَحَايدَ البُخَارِيُّ إِخرَاجَ حَدِيْثِهِ، إِلاَّ حَدِيْثاً خَرَّجَه فِي الرِّقَاقِ، فَقَالَ: قَالَ لِي أَبُو الوَلِيْدِ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أُبَيٍّ. وَلَمْ يَنحَطَّ حَدِيْثُه عَنْ رُتْبَةِ الحَسَنِ. وَمُسْلِمٌ رَوَى لَهُ فِي الأُصُوْلِ، عَنْ ثَابِتٍ وَحُمَيْدٍ، لِكَوْنِهِ خَبِيْراً بِهِمَا. (سير أعلام النبلاء: 7/ 446)
اور امام حاکم فرماتے ہیں: قَدْ قِيْلَ فِي سُوْء حِفْظِ حَمَّادِ بنِ سَلَمَةَ، وَجَمْعِهِ بَيْنَ جَمَاعَةٍ فِي الإِسْنَادِ بِلَفْظٍ وَاحِدٍ، وَلَمْ يُخرِّجْ لَهُ مُسْلِمٌ فِي الأُصُوْلِ، إِلاَّ مِنْ حَدِيْثِهِ عَنْ ثَابِتٍ، وَلَهُ فِي كِتَابِهِ أَحَادِيْثُ فِي الشَّوَاهِدِ عَنْ غَيْرِ ثَابِتٍ. (سير أعلام النبلاء ط الرسالة (7/ 446)
ان دونوں اقوال کی روشنی میں واضح ہے کہ حماد بن سلمہ کا درجہ معمر کی طرح نہیں۔ اسی وجہ سے امام بخاری نے ان سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ اور امام مسلم نے صرف ثابت اور حمید سے ان کی احادیث کو اصول میں جگہ دی ہے، دوسروں کی احادیث کو نہیں، اور یہاں انھوں نے ثابت وحمید سے نہیں بلکہ ایوب سے روایت کی ہے۔ اور ایوب سے معمر کی متعدد روایتیں صحیحین میں موجود ہیں۔ لہذا شیخین کے تعامل سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ایوب سے معمر کی روایت کہیں زیادہ اعلی وارفع ہے بہ نسبت حماد بن سلمہ کی روایت کے۔ اس لیے اگر ترجیح دینے پر کوئی مصر ہو تو بھی معمر کی روایت کو ترجیح حاصل ہوگی، حماد بن سلمہ کی روایت کو نہیں۔
■رہی بات اختلاف کی دوسری صورت کی، یعنی ”امام مالک کی روایت میں خوف علی الولد کی بات ہے، جب کہ معمر کی روایت میں خوف علی النفس کی“ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام مالک کی مخالفت ایوب سے ہے، معمر سے نہیں۔ اور ایوب وامام مالک دونوں نافع کے سب سے جلیل القدر شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بعض ائمہ جرح وتعدیل نے دونوں کو ایک ہی درجے میں رکھا ہے، جب کہ بعض نے نافع سے روایت کے وقت ایوب کو امام مالک پر فوقیت دی ہے، مثلا:
سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں: “ومن كَانَ أطلب لحديث نافع وأعلم به من أيوب”۔ (تهذيب الكمال: 3/ 461)
اور امام ابو داؤد فرماتے ہیں: میں نے امام احمد سے کہا: تقدم أيوب على مالك؟ قال: نعم.
(آپ ایوب کو امام مالک پر مقدم کریں گے؟ تو انھوں نے جواب دیا: ہاں)
امام ابو داؤد مزید فرماتے ہیں: میں نے صاعقہ سے سنا، وہ کہتے ہیں: میں نے علی [بن المدینی] کو یہ کہتے ہوئے سنا: “أثبت الناس في نافعٍ أيوبُ وعبيدُ الله”۔
(نافع سے روایت کرنے میں تمام شاگردوں میں سب سے اثبت ایوب وعبید اللہ ہیں)
اور صاعقہ کے علاوہ دوسرے نے یہ اضافہ کیا: “ومالك” یعنی امام مالک بھی۔ (تہذیب التہذیب، 1/398)
لہذا یہاں بھی اگر ترجیح دی جائے تو ایوب کی روایت کو ترجیح حاصل ہوگی، امام مالک کی روایت کو نہیں۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ نافع سے مروی تمام الفاظ ثابت شدہ ہیں، ترجیح کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ تمام ایک سے بڑھ کر ایک جلیل القدر حافظ وثقہ اور عَلَم من الاعلام ہیں اور ان کا تفرد کوئی مضر نہیں۔
ابن عمر کی اس صحیح ترین حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے خوف علی النفس یا علی الولد دونوں صورتوں میں روزہ چھوڑنے اور فدیہ دینے کا فتوی دیا ہے۔ اسی طرح انھوں نے ایک بار نہیں متعدد بار اس طرح کا فتوی دیا ہے جسے ان کے سب سے قریبی شاگرد نافع نے دیکھا اور سنا ہے۔ ایک بار انھوں نے یہ فتوی اپنی بیوی کو، ایک بار اپنی بیٹی کو اور ایک بار اپنی لونڈی کو دیا ہے۔ لہذا اسے واقعۃ العین قرار دینا قطعا صحیح نہیں۔ اس غلط فہمی کی تردید میں ان شاء اللہ آگے اور مزید دلائل پیش کیے جائیں گے۔

 

چوتھی قسط: حاملہ ومرضعہ کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اثر کی تخریج

آپ کے تبصرے

3000