عالم اسلام اور برصغیر کی بڑی معتبر شخصیت مولانا حافظ صلاح الدین یوسف آج ۱۲؍ جولائی ۲۰۲۰ء کو انتقال فرماگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حافظ صاحب کی تربیت مشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ نے فرمائی تھی اور تصنیف وتحقیق کے میدان میں وہی ان کے رہنما رہے تھے۔ حافظ صاحب برصغیر کی سلفی تحریک کے ہراول دستے سے موجودہ نسلوں کو جوڑنے والی ایک اہم کڑی تھے جو آج ٹوٹ گئی۔ انھوں نے اپنے قلم سے جماعت اہل حدیث اور اس کی دعوت کی متنوع خدمات انجام دیں اور اس کی فکری بنیادوں کو استحکام بخشا۔ وہ زندگی بھر ایسی تمام تحریروں کا علمی تعاقب کرتے رہے جن میں جماعت اور اس کی دعوت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ ان کی تحریروں میں پختگی، گہرائی، متانت وسنجیدگی اور عالمانہ وقار پایا جاتا ہے۔ زیر نظر تحریر میری کتاب “اہل حدیث فضلاء کی قرآنی خدمات” کا حصہ ہے جو میں نے مئی ۲۰۱۹ء میں لکھی تھی۔ اس میں حافظ صاحب کی زندگی کے مختصر حالات اور ان کی قرآنی خدمات کا تذکرہ ہے اور ان کی مشہور تفسیر “احسن البیان” کا قدرے تفصیل سے تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حافظ صاحب کی اس تفسیر کو جو مقبولیت عطا فرمائی ہے، اس کی اردو تفاسیر میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کی اس عظیم خدمت کو شرف قبولیت بخشے اور ان کے درجات بلند فرماکر انھیں اپنے مقبول بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین [رفیق احمد رئیس سلفی، علی گڑھ۔ اتوار، ۱۲؍جولائی،۲۰۲۰ء بوقت ۱۵-۱۱ بجے دن)
مولانا حافظ صلاح الدین یوسف پڑوسی ملک پاکستان کے مشہور اہل حدیث عالم ہیں۔ ان کی ولادت 1945ء میں جے پور (راجستھان) میں ہوئی۔ والد کا اسم گرامی حافظ عبدالشکور تھا جو “حقیقۃ الفقہ” کے مصنف مولانا محمد یوسف جے پوری کے شاگرد تھے۔ تقسیم ملک کے بعد 1949ء میں ان کے والد اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان چلے گئے اور حیدرآباد (سندھ) میں قیام کیا۔ پھر کراچی منتقل ہوگئے۔ ان کے گھرانے میں تعلیم وتعلم کا بہت زیادہ رواج نہ تھا۔ والد صاحب صرف حافظ قرآن تھے اور اردو کی چند ایک کتابیں پڑھی تھیں۔ البتہ دین سے محبت تھی اور علماء کے قدر داں تھے، بعض علماء کا ان کے گھر آنا جانا بھی تھا۔ حافظ صلاح الدین یوسف نے اردو کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی، پھر جب ان کا گھرانہ کراچی منتقل ہوا تو اس وقت حافظ صاحب کی عمر دس سال کی ہوچکی تھی۔ ناظرہ قرآن کی تعلیم انھوں نے قاری محمد بشیر تبتی سے حاصل کی اور ایک سال میں حفظ قرآن کی تکمیل قاری محمد اشفاق سے کی۔ جامع العلوم سعودیہ میں درس نظامی کا آغاز کیا، یہاں ان کے استاذ مولانا حاکم علی دہلوی تھے۔ مولانا عبدالرشید ندوی لداخی سے بھی یہیں تعلیم حاصل کی جو ایک وسیع الطالعہ استاذ تھے، انہی کی ترغیب سے ہم نصابی کتابوں اور دینی رسائل وجرائد کے مطالعے کا آغاز کیا۔ اس کے بعد حالات نے کروٹ لی اور حافظ صلاح الدین یوسف کراچی سے لاہور آگئے۔ یہاں انھوں نے دارالعلوم تقویۃ الاسلام میں داخلہ لیا جس کے مہتمم مولانا سید داود غزنوی تھے۔ اسی مدرسے میں انھوں نے درس نظامی کی تکمیل کی۔ یہاں ان کے اساتذہ میں شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد اسحاق، مولانا حافظ عبدالرشید گوہڑوی اور مولانا عبدالرشید مجاہد آزادی وغیرہ تھے۔ لاہور ہی میں انھوں نے مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی صحبت سے بھی بہت استفادہ کیا۔مطالعہ بہ کثرت کرنے کی وجہ سے طالب علمی ہی کے زمانے میں انھوں نے مضمون نویسی کا آغاز کردیا تھا۔بیس یا اکیس سال کی عمر میں انھوں نے مولانا مودودی کی کتاب ’’خلافت وملوکیت‘‘ کا جواب لکھا جو ’’خلافت وملوکیت کی شرعی حیثیت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا اور علمی حلقوں میں جسے کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے ان کی صلاحیتوں کو دیکھ کر انھیں اپنے ہفت روزہ رسالہ ’’الاعتصام‘‘ کا مدیر بنادیا اور پھر پورے چوبیس سال تک وہ اس کے مدیر رہے اور اس طویل عرصے میں انھوں نے بہ کثرت علمی مضامین لکھے اور ان کو علمی حلقوں میں نمایاں شہرت حاصل ہوئی۔
ہفت روزہ ’’الاعتصام لاہور‘‘ سے علاحدہ ہونے کے بعد بین الاقوامی اشاعتی ادارے ’’دارالسلام ریاض‘‘ کے مدیر مولانا عبدالمالک مجاہد نے ان کی خدمات حاصل کرلیں۔ آج کل وہ اسی ادارہ کی لاہور شاخ کے ذمہ دار ہیں اور علما اور محققین کی ایک ٹیم کے ساتھ تصنیفی وتحقیقی کاموں میں مصروف ہیں۔
علمی وتصنیفی خدمات
’’تفسیر احسن البیان ‘‘(۱) اور ’’خلافت وملوکیت کی شرعی حیثیت‘‘ کے علاوہ ان کی کئی ایک تصانیف ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
ریاض الصالحین اردو ترجمہ وفوائد، عورتوں کے امتیازی مسائل وقوانین، زکوۃ وعشر کے احکام اور مسائل وفضائل، رمضان المبارک:فضائل اور احکام ومسائل، مفرور لڑکیوں کا نکاح اور ہماری عدالتیں، نفاذ شریعت کیوں اور کیسے؟، اجتہاد اور تعبیر شریعت کے اختیار کا مسئلہ، حد رجم کی شرعی حیثیت، عورت کی سربراہی کا مسئلہ اور شبہات ومغالطات کا جائزہ وغیرہ۔
قرآنی خدمات:
لفظ بہ لفظ رواں اردو ترجمہ قرآن
’’تفسیر احسن البیان‘‘ کے علاوہ حافظ صلاح الدین یوسف کی ایک اہم قرآنی خدمت ’’لفظ بہ لفظ رواں اردو ترجمہ قرآن‘‘ ہے جو باکس کی شکل میں دارالسلام ریاض سے شائع ہوا ہے۔ حافظ صاحب نے یہ خدمت مولانا محمد عبدالجبار کے اشتراک سے انجام دی ہے۔ یہ ترجمہ زبان میں سادہ، مفہوم میں واضح، اسلوب میں دل نشیں، عربی متن کے قریب اور ہر عمر کے باذوق قارئین کے لیے نہایت مفید اور نافع ہے۔ شاہ ولی اللہ کے فارسی اور ان کے دو نامور صاحبزادوں کے دونوں تراجم کو اس ترجمۂ قرآن کی اساس بنایا گیا ہے۔
۔THE NOBLE Quran کا اردو ترجمہ
حافظ صلاح الدین کی ایک تیسری قرآنی خدمت ڈاکٹر تقی الدین ہلالی اور ڈاکٹر محمد محسن خان کے ذریعے قرآن کے انگریزی ترجمہ اور مختصر حواشی THE NOBLE Quran کا اردو ترجمہ ہے جو ’’تفسیر احسن الکلام‘‘ (عربی، اردو، انگلش) کے نام سے شائع ہورہا ہے۔عرض مترجم میں وضاحت کی گئی ہے کہ متن قرآن کا ترجمہ حافظ صلاح الدین یوسف اور مولانا محمد عبدالجبار نے کیا ہے جب کہ انگریزی حواشی کا اردو ترجمہ ڈاکٹر محمد امین نے کیا ہے۔ آخر میں دارالسلام ریسرچ سنٹر کی تیار کردہ قرآنی مضامین کی فہرست بھی اس میں شامل ہے۔
تفسیر سورۃالفاتحہ
حافظ صلاح الدین یوسف کی ایک اور قرآنی خدمت ’’تفسیر سورۃ الفاتحہ‘‘ بھی ہے۔ اپنی تفسیر ’’احسن البیان‘‘ کی تکمیل کے بعد عام قارئین کے مطالبہ اور اپنی ذاتی دل چسپی سے انھوں نے قرآن مجید کی ایک مفصل تفسیر لکھنے کا آغاز کیا لیکن دوسرے علمی کاموں کی وجہ سے یہ سلسلہ رک گیا۔ سورہ فاتحہ کی تفسیر مکمل کرچکے ہیں اور ابھی سورہ بقرہ کی تفسیر پائے تکمیل کو نہیں پہنچی ہے۔ دارالسلام ریاض نے 2006ء میں سورہ فاتحہ کی تفسیر شائع کردی ہے جو96 ؍صفحات پر مشتمل ہے۔اس میں مفسر نے سورہ فاتحہ کے تفسیری نکات صحیح احادیث کی روشنی میں شرح وبسط کے ساتھ بیان کیے ہیں۔(۲)
تفسیر احسن البیان
تفسیر احسن البیان ایک مختصر اردو تفسیر ہے، اس میں زیادہ تفصیل سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ عوام کو قرآن فہمی اور اس کے مشکل مقامات کے لیے جس قدر تفصیل کی ضرورت تھی، اسے اختصار اور جامعیت کے ساتھ پیش کردیا گیا ہے۔ اس تفسیر کا اولین ایڈیشن 860 صفحات پر مشتمل ہے۔ آیات کا ترجمہ بین السطور ہے اور تفسیر حاشیے پر ہے لیکن جب مجمع ملک فہد، سعودی عرب نے اس کی اشاعت کی تو قرآنی آیات اور ان کا ترجمہ آمنے سامنے کردیا اور تفسیر حاشیے کی بجائے نیچے درج کی گئی۔ اس ایڈیشن کے صفحات کی تعداد 1765 ہے۔ اس تفسیر کی بعض خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
٭اس تفسیر میں اسرائیلی اور ضعیف روایات کے بیان کرنے سے گریز اور صرف صحیح ومقبول احادیث کے اہتمام کی پوری کوشش کی گئی ہے۔
٭شان نزول اور سورتوں کے فضائل میں بہ کثرت روایات مروی ہیں لیکن ان میں بھی صحیح روایات بہت کم ہیں۔عدم گنجائش کی وجہ سے مشہور ضعیف روایات کی تردید تو ممکن نہیں تھی، اس لیے حتی المقدور یہ کوشش کی گئی ہے کہ اپنے علم کے مطابق صرف صحیح اور مستند روایات ذکر کردی جائیں۔
٭تفصیلی علمی مسائل ومباحث سے اسے گراں بار نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ اس کا محل مفصل تفسیر ہے۔ حتی الامکان پوری تفسیر میں احادیث کے مکمل حوالوں کا التزام کیا گیا ہے تاکہ تفصیل کے خواہش مند اہل علم کو مراجعت میں آسانی ہو۔
٭تفسیر ابن کثیر، تفسیر فتح القدیر، تفسیر ابن جریر طبری، ایسر التفاسیر وغیرہ جیسی سلفی تفاسیر اس کے بنیادی مآخذ ہیں، زیادہ تر انہی کو سامنے رکھا گیا ہے۔دیگر عربی اور اردو تفاسیر سے بہت کم اعتنا کیا گیا ہے۔
٭توضیح وتشریح میں سلف(صحابہ وتابعین) کی تعبیر اور ان کے منہاج کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ سلفی تفاسیر کا خلاصہ، صحابہ وسلف کے منہج ومسلک کا آئینہ اور تفسیر بالاحادیث الصحیحہ کی الحمد للہ ایک عمدہ کوشش ہے۔
٭اس تفسیر کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں کوشش کی گئی ہے کہ’’خدا‘‘ کا لفظ سوائے ناگزیر تراکیب کے کہیں استعمال نہ ہو۔ اسی طرح خدا کا لفظ مولانا جونا گڑھی کے ترجمۂ قرآن میں بھی جہاں جہاں استعمال ہوا تھا، اس کو اللہ کے لفظ سے بدل دیا گیا ہے۔ (۳)
تفسیر پر ایک طائرانہ نظر
حافظ صلاح الدین یوسف نے اپنی اس تفسیر میں قرآن کریم کو ایک زندہ کتاب کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ وہ تفسیر کرتے ہوئے دنیا کے حالات، مسلم امہ کے مسائل اور معاصر افکار ونظریات کو پیش نگاہ رکھتے ہیں اور موقع ومحل کے مطابق ان پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں اور مختصر لفظوں میں ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اس انداز تفسیر سے قارئین معاصر دنیا کے لیے قرآن کے پیغام کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور روزمرہ کے حالات میں قرآن کی رہنمائی کا ادراک کرسکتے ہیں۔ اپنے دور کے حالات سے بے نیاز یا بے خبر رہ کر قرآن کی تفہیم اور تطبیق آسان نہیں ہے۔ تفسیر احسن البیان میں یہ خوبی ہمیں جگہ جگہ نظر آتی ہے کہ مفسر موصوف آیات قرآنی کی تفسیر کرتے ہوئے معاصر افکار ونظریات پر قرآنی نقطۂ نگاہ پیش کرتے ہیں اور جنچے تلے الفاظ میں اگر ضرورت ہوتی ہے تو ان پر تنقید کرتے ہیں۔ ذیل میں اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
وحدت ادیان کا نظریہ
(۱)’’وحدت ادیان‘‘ کا تصور معاصر دنیا کا ایک ایسا نظریہ ہے جسے قبول عام حاصل ہے اور جس کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ اگر مذاہب کے درمیان صلح وآشتی مطلوب ہے تو اس سے بہتر کوئی نظریہ نہیں۔ سارے ادیان کی منزل ایک ہے اور انسانیت کی خدمت سب کی ترجیحات میں شامل ہے۔ لہذا کسی مذہب کو کسی دوسرے مذہب پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ سب کو ایک نظر سے دیکھنا اور سب کو یکساں اہمیت دینا عالمی امن وسلامتی کے لیے ضروری ہے۔ بعض حضرات نے اس نظریہ کو قرآن سے کشید کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے لیے سورہ بقرہ کی آیت (62) کا حوالہ دیا ہے۔ حافظ صلاح الدین اسی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’بعض مفسرین کو اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں بڑی غلطی لگی ہے اور اس سے انھوں نے ’’وحدت ادیان‘‘ کا فلسفہ کشید کرنے کی مذموم سعی کی ہے۔ یعنی رسالت محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو بھی جس دین کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا ہے اور اچھے عمل کرتا ہے اس کی نجات ہو جائے گی۔ یہ فلسفہ سخت گمراہ کن ہے ۔آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیات میں یہود کی بدعملیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحق عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہو سکتا تھا کہ ان یہود میں جو لوگ ’’صحیح‘‘ کتاب الٰہی کے پیرو اور اپنے پیغمبر کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ فرمایا یا کیا معاملہ فرمائے گا؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی کہ صرف یہودی نہیں، نصاریٰ اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنھوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صالح کرتے رہے وہ سب نجات اخروی سے ہمکنار ہوں گے اور اسی طرح اب رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے ایمان باللہ والیوم الآخر اور عمل صالح کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقیناً آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔ نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ وہاں بے لاگ فیصلہ ہوگا۔ چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرہم‘‘۔(۴)
سود کے بارے میں بعض غلط فہمیاں
(۲)قرآن کا واضح اور صاف اعلان یہ ہے سود خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ہو، حرام ہے۔ دنیا نے معاشیات کا جو جدید نظام ترتیب دیا ہے، اس میں سود کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور آج بھی یہ کہا جارہا ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ حافظ صلاح الدین یوسف نے سورہ بقرہ کی آیت (275) کے تحت سود کی تمام قسموں کو ناجائز قرار دیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں:
’’رِبَوا کے لغوی معنی زیادتی اور اضافے کے ہیں اور شریعت میں اس کا اطلاق رِبَاالفَضْلا و ربا النسیئۃ پر ہوتا ہے۔ ربا الفضل اس سود کو کہتے ہیں جو چھ اشیا میں کمی بیشی یا نقد و ادھار کی وجہ سے ہوتا ہے (جس کی تفصیل حدیث میں ہے) مثلاً گندم کا تبادلہ گندم سے کرنا ہے تو فرمایا گیا ہے کہ ایک تو برابر برابر ہو، دوسرے ہاتھوں ہاتھ ہو، اس میں کمی بیشی ہوگی تب بھی اور ہاتھوں ہاتھ ہونے کے بجائے ایک نقد اور دوسرا ادھار یا دونوں ہی ادھار ہوں تب بھی سود ہے۔ ربا النسیئۃ کا مطلب ہے کسی کو (مثلا) چھ مہینے کے لیے اس شرط پر سو روپے دینا کہ واپسی ۱۲۵؍روپے ہو گی۔ ۲۵؍روپے چھ مہینے کی مہلت کے لیے جائیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قول میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’کل قرض جر منفعۃ فھو ربا‘‘ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ج۵، ص:۲۸) (قرض پر لیا گیا نفع سود ہے)۔ یہ قرضہ ذاتی ضرورت کے لیے لیا گیا ہو یا کاروبار کے لیے، دونوں قسم کے قرضوں پر لیا گیا سود حرام ہے۔ اور زمانہ جاہلیت میں بھی دونوں قسم کے قرضوں کا رواج تھا، شریعت نے بغیر کسی قسم کی تفریق کے دونوں کو مطلقا حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ تجارتی قرضہ (جو عام طور پر بنک سے لیا جاتا ہے) اس پر اضافہ سود نہیں ہے اس لیے کہ قرض لینے والا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے جس کا کچھ حصہ وہ بنک کو یا قرض دہندہ کو لوٹا دیتا ہے تو اس میں قباحت کیا ہے؟ اس کی قباحت ان متجددین کو نظر نہیں آتی جو اس کو جائز قرار دیتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تو اس میں بڑی قباحتیں ہیں۔ مثلاً قرض لے کر کاروبار کرنے والے کا منافع تو یقینی نہیں ہے بلکہ منافع تو کجا اصل رقم کی حفاظت کی بھی ضمانت نہیں ہے بعض دفعہ کاروبار میں ساری رقم ہی ڈوب جاتی ہے جب کہ اس کے برعکس قرض دہندہ (چاہے وہ بنک ہو یا کوئی ساہوکار) کا منافع متعین ہے جس کی ادائیگی ہر صورت میں لازمی ہے۔ یہ ظلم کی ایک واضح صورت ہے جسے شریعت اسلامیہ کس طرح جائز قرار دے سکتی ہے؟ علاوہ ازیں شریعت تو اہل ایمان کو معاشرے کے ضرورت مندوں پر بغیر کسی دنیاوی غرض و منفعت کے خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے جس سے معاشرے میں اخوت، بھائی چارے، ہمدردی، تعاون اور شفقت ومحبت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس سودی نظام سے سنگ دلی اور خود غرضی کو فروغ ملتا ہے۔ ایک سرمائے دار کو اپنے سرمائے کے نفع سے غرض ہوتی ہے چاہے معاشرے میں ضرورت مند بیماری، بھوک، افلاس سے کراہ رہے ہوں یا بے روزگار اپنی زندگی سے بیزار ہوں۔ شریعت اس شقاوت وسنگدلی کو کس طرح پسند کر سکتی ہے؟ اس کے اور بہت سے نقصانات ہیں تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ بہرحال سود مطلقاً حرام ہے چاہے ذاتی ضرورت کے لیے لیے گئے قرضے کا سود ہو یا تجارتی قرضے پر‘‘۔(۵)
شراب کی حرمت پر متجددین کے شبہات
(۳)قرآن مجید نے شراب کو تدریجا حرام کیا ہے اور اب وہ کلی طور پر حرام ہے۔ قرآن اور احادیث میں اس کے صاف اور واضح دلائل موجود ہیں لیکن بعض دانش ور کہتے ہیں کہ شراب سے متعلق آیات میں صراحۃً حرام کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے، صرف اخلاقی طور پر اس سے دور رہنے کی بات کہی گئی ہے۔ مفسر موصوف نے سورہ المائدہ کی آیت (90) کے تحت اس پر ذرا تفصیل سے گفتگو کی ہے اور دور جدید کے دانشوروں کی تردید کی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’یہ شراب کے بارے میں تیسرا حکم ہے۔ پہلے اور دوسرے حکم میں صاف طور پر ممانعت نہیں فرمائی گئی لیکن یہاں اسے اور اس کے ساتھ جوا، پرستش گاہوں یا تھانوں اور فال کے تیروں کو رجس (پلید) اور شیطانی کام قرار دے کر صاف لفظوں میں ان سے اجتناب کا حکم دے دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس آیت میں شراب اور جوا کے مزید نقصانات بیان کر کے سوال کیا گیا ہے کہ اب بھی باز آؤگے یا نہیں؟ جس سے مقصود اہل ایمان کی آزمائش ہے۔ چنانچہ جو اہل ایمان تھے، وہ تو منشائے الٰہی سمجھ گئے اور اس کی قطعی حرمت کے قائل ہوگئے اور کہا انْتَھَیْنَا رَبَّنَا! اے رب ہم باز آ گئے۔(مسند احمد جلد۲،ص:۳۵۱) لیکن آج کل کے بعض ’’دانشور‘‘ کہتے ہیں کہ اللہ نے شراب کو حرام کہاں قرار دیا ہے؟ (بریں عقل و دانش بباید گریست)۔ یعنی شراب کو رجس (پلیدی) اور شیطانی عمل قرار دے کر اس سے اجتناب کا حکم دینا نیز اس اجتناب کو باعث فلاح قرار دینا ان مجتہدین کے نزدیک حرمت کے لیے کافی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے نزدیک پلید کام بھی جائز ہے، شیطانی کام بھی جائز ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ اجتناب کا حکم دے وہ بھی جائز ہے اور جس کی بابت کہے کہ اس کا ارتکاب عدم فلاح اور اس کا ترک فلاح کا باعث ہے، وہ بھی جائز ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔(۶)
تفسیر کے کچھ اور مباحث
قرآن مجید میں عقیدۂ توحید ورسالت کی تفصیل مختلف انداز میں پیش کی گئی ہے اور ماضی کی اقوام میں اس کے تعلق سے جو انحرافات رونما ہوئے، ان کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ برصغیر کے دینی ماحول میں بھی کئی ایک عوامل واسباب سے اس سلسلے میں بے اعتدالیاں موجود ہیں۔ مفسر اپنے اس دینی ماحول سے اچھی طرح واقف ہیں، انھوں نے قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے عقیدۂ توحید ورسالت کے منافی افکار واعمال پر تنقید کی ہے اور کتاب وسنت کی روشنی میں صحیح نقطۂ نظر کو پیش کیا ہے۔ ذیل میں اس کی چند ایک مثالیں درج کی جارہی ہیں:
(۱)بنو اسرائیل کے تابوت سکینہ سے بعض حضرات نے نبی اکرمﷺ کے آثار اور امت محمدیہ کے دیگر صالحین وبزرگان دین کے تبرکات کو باعث شفا اور مصیبتوں اور پریشانیوں کے مواقع پر ان کی زیارت کرنے کو مفید قرار دے رکھا ہے۔ اس نوعیت کے آثار وتبرکات کئی ایک مقامات پر موجود بتائے جاتے ہیں اور ان سے فیض حاصل کرنے کے لیے لوگ دور دراز علاقوں سے سفر کرتے ہیں جب کہ تاریخی طور پر یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ آثار وتبرکات اصلی ہیں۔ مولانا حافظ صلاح الدین یوسف سورہ بقرہ کی آیت (۲۴۸) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء وصالحین کے تبرکات یقیناً باذن اللہ اہمیت وافادیت رکھتے ہیں بشرطیکہ وہ واقعی تبرکات ہوں۔ جس طرح اس تابوت میں یقیناً حضرت موسی وہارون علیہما السلام کے تبرکات تھے لیکن محض جھوٹی نسبت سے کوئی چیز متبرک نہیں بن جاتی؛ جس طرح آج کل ’’تبرکات‘‘ کے نام پر کئی چیزیں مختلف جگہوں پر رکھی ہوئی ہیں، جن کا تاریخی طور پر پورا ثبوت نہیں ہے۔ اسی طرح خود ساختہ چیزوں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ جس طرح بعض لوگ نبیﷺ کے نعل مبارک کی تمثال بناکر اپنے پاس رکھنے کو، یا گھروں میں لٹکانے کو، یا مخصوص طریقے سے اس کے استعمال کو قضائے حاجات اور دفع بلیات کے لیے اکسیر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح قبروں پر بزرگوں کے ناموں کی نذرونیاز کی چیزوں کو اور لنگر کو متبرک سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ غیراللہ کے نام کا چڑھاوا ہے جو شرک کے دائرے میں آتا ہے، اس کا کھانا قطعاً حرام ہے۔ قبروں کو غسل دیا جاتا ہے اور اس کے پانی کو متبرک سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ قبروں کو غسل دینا بھی خانہ کعبہ کے غسل کی نقل ہے، جس کا کوئی جواز نہیں ہے، یہ گندا پانی کیسے متبرک ہوسکتا ہے؟ بہر حال یہ سب باتیں غلط ہیں جن کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے۔‘‘(۷)
(۲)دعاؤں میں کسی کا وسیلہ لینے کی شرعی حیثیت کے سلسلے میں علمائے اسلام کی آراء مختلف ہیں، جو حضرات اس کو جائز سمجھتے ہیں، انھوں نے سورہ المائدہ کی آیت (۳۵) سے دلیل اخذ کی ہے۔ مفسر نے آیت کا صحیح مفہوم متعین کیا ہے اور ان لوگوں کی تردید کی ہے جنھوں نے قبروں میں مدفون بزرگوں کو اپنا وسیلہ سمجھ لیا ہے اور ان کے صدقے اور طفیل میں اپنی دعاؤں کی قبولیت کی درخواست اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو۔ ’’اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرو‘‘ کا مطلب ہوگا ایسے اعمال اختیار کرو جس سے تمھیں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجائے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں: ان الوسیلۃ- التی ھی القربۃ- تصدق علی التقوی وعلی غیرھا من خصال الخیر التی یتقرب العبادبھا الی ربھم۔ ’’وسیلہ جو قربت کے معنی میں ہے، تقویٰ اور دیگر خصال خیر پر صادق آتا ہے جن کے ذریعے سے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں‘‘۔ اسی طرح منہیات ومحرمات کے اجتناب سے بھی اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے منہیات ومحرمات کا ترک بھی قرب الٰہی کا وسیلہ ہے لیکن جاہلوں نے اس حقیقی وسیلے کو چھوڑ کر قبروں میں مدفون لوگوں کو اپنا وسیلہ سمجھ لیا ہے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ البتہ حدیث میں اس مقام محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے جو جنت میں نبی کو عطا فرمایا جائے گا۔ اسی لیے آپ نے فرمایا جو اذان کے بعد میرے لیے یہ دعائے وسیلہ کرے گا وہ میری شفاعت کا مستحق ہوگا۔(صحیح بخاری، کتاب الأذان ، صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ)[۸]
سورۃ الاسراء آیت (۵۷) میں وسیلے کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مذکورہ آیت میں {مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ} سے مراد فرشتوں اور بزرگوں کی وہ تصویریں اور مجسمے ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے، یا حضرت عزیر و مسیح علیہما السلام ہیں جنھیں یہودی اور عیسائی ابن اللہ کہتے ہیں اور انھیں ربوبیت صفات کا حامل مانتے تھے، یا وہ جنات ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور مشرکین ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس لیے کہ اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ یہ تو خود اپنے رب کا قرب تلاش کرنے کی جستجو میں رہتے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور یہ صفت جمادات (پتھروں) میں نہیں ہوسکتی۔ اس آیت سے واضح ہوجاتا ہے کہ {مِنْ دُوْنِ اللّٰہ} (اللہ کے سوا جن کی عبات کی جاتی رہی ہے) وہ صرف پتھر کی مورتیاں ہی نہیں تھیں، بلکہ اللہ کے وہ بندے بھی تھے جن میں سے کچھ فرشتے، کچھ صالحین، کچھ انبیاء اور کچھ جنات تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کی بابت فرمایا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے، نہ کسی کی تکلیف دور کرسکتے ہیں، نہ کسی کی حالت بدل سکتے ہیں۔ ’’اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں‘‘ کا مطلب اعمال صالحہ کے ذریعے سے اللہ کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔ یہی’’الوسیلۃ‘‘ ہے جسے قرآن نے بیان کیا ہے وہ نہیں ہے جسے قبر پرست بیان کرتے ہیں کہ فوت شدہ اشخاص کے نام کی نذر نیاز دو، ان کی قبروں پر غلاف چڑھاؤ اور میلے ٹھیلے جماؤ اور ان سے استمداد و استغاثہ کرو کیونکہ یہ وسیلہ نہیں یہ تو ان کی عبادت ہے جو شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے‘‘۔(۹)
قرآن میں ناسخ ومنسوخ
قرآن میں ناسخ ومنسوخ کا مسئلہ علوم قرآن کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ علمائے اسلام نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں۔ بعض مفسرین کے یہاں منسوخ آیات کی تعداد شمار سے باہر ہے، انھوں نے رحمت اور ہمدردی کی تمام آیات کو آیات جہاد سے منسوخ قرار دیا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ قرآن میں نسخ کے بالکل قائل نہیں ہیں۔حافظ صلاح الدین یوسف کے سامنے علوم قرآن کا یہ مسئلہ ہے، انھوں نے اس سلسلے میں سورۃ البقرۃ آیت:(۱۰۶۔۱۰۷) کی تفسیر میں ناسخ ومنسوخ کی شرعی حیثیت پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر اس طرح پیش کیا ہے:
’’نسخ کے لغوی معنی تو منسوخ کرنے کے ہیں، لیکن شرعی اصطلاح میں ایک حکم کو بدل کر دوسرا حکم نازل کرنے کے ہیں۔ یہ نسخ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے جیسے آدم (علیہ السلام) کے زمانے میں سگے بہن بھائیوں کا آپس میں نکاح جائز تھا، بعد میں اسے حرام کردیا گیا، وغیرہ۔ اسی طرح قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے بعض احکام منسوخ فرمائے اور ان کی جگہ نیا حکم نازل فرمایا۔ ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ شاہ ولی اللہ نے ’’الفوز الکبیر‘‘ میں ان کی تعداد صرف پانچ بیان کی ہے۔ یہ نسخ تین قسم کا ہے: ایک تو مطلقاً نسخ حکم یعنی ایک کو بدل کو دوسرا حکم نازل کردیا گیا، دوسرا ہے نسخ مع التلاوہ یعنی پہلے حکم کے الفاظ قرآن مجید میں موجود رکھے گئے ہیں، ان کی تلاوت ہوتی ہے لیکن دوسرا حکم بھی جو بعد میں نازل کیا گیا، قرآن میں موجود ہے یعنی ناسخ ومنسوخ دونوں آیات موجود ہیں۔ نسخ کی ایک تیسری قسم یہ ہے کہ ان کی تلاوت منسوخ کردی گئی یعنی قرآن کریم میں نبیﷺ نے انھیں شامل نہیں فرمایا لیکن ان کا حکم باقی رکھا گیا جیسے: ’’الشیخ والشیخۃاذا زنیا فارجموھما البتۃ‘‘(موطا امام مالک)۔ ’’شادی شدہ مرد اور عورت اگر زنا کا ارتکاب کریں تو یقیناً انھیں سنگسار کردیا جائے‘‘۔ اس آیت میں نسخ کی پہلی دو قسموں کا بیان ہے۔ {مَا نَنْسَخْ مِنْ آیَۃٍ} میں دوسری قسم اور {أوْ نُنْسِھَا} میں پہلی قسم۔ نُنْسِھَا (ہم بھلادیتے ہیں) کا مطلب ہے کہ اس کا حکم اور تلاوت دونوں اٹھالیتے ہیں گویا کہ ہم نے اسے بھلادیا اور نیا حکم نازل کردیا۔ یا نبیﷺ کے قلب سے ہی ہم نے اسے مٹادیا اور اسے نسیاً منسیاً کردیا گیا۔ یہودی تورات کو ناقابل نسخ قرار دیتے تھے اور قرآن پر بھی انھوں نے بعض احکام کے منسوخ ہونے کی وجہ سے اعتراض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی کہا کہ زمین اور آسمان کی بادشاہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جو مناسب سمجھے کرے، جس وقت جو حکم اس کی مصلحت و حکمت کے مطابق ہو، اسے نافذ کرے اور جسے چاہے منسوخ کر دے، یہ اس کی قدرت ہی کا مظاہرہ ہے۔ بعض قدیم گمراہوں (مثلا ابو مسلم اصفہانی معتزلی) اور آج کل کے بھی بعض متجددین نے یہودیوں کی طرح قرآن میں نسخ ماننے سے انکار کیا ہے لیکن صحیح بات وہی ہے جو مذکورہ سطروں میں بیان کی گئی ہے، سلف صالحین کا عقیدہ بھی اثبات نسخ ہی رہا ہے‘‘۔(۱۰)
محکم اور متشابہہ کا مفہوم
قرآن مجید کی آیات دو قسم کی ہیں: محکم اور متشابہہ۔محکم اور متشابہہ سے کیا مراد ہے اور قرآن مجید میں کس نوع کی آیات کو محکم اور کس کو متشابہہ کہا گیا ہے، اس پر حافظ صلاح الدین یوسف نے سورہ آل عمران آیت (۷) کی تفسیر میں یہ تفصیل پیش کی ہے:
’’محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوامر ونواہی، احکام و مسائل اور قصص وحکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا اس کے برعکس آیات متشابہات ہیں مثلا اللہ کی ہستی، قضا و قدر کے مسائل، جنت و دوزخ، ملائکہ وغیرہ یعنی ماوراء عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو۔ اس لیے آگے کہا جا رہا ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ آیات متشابہ کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کے ذریعے سے فتنے برپا کرتے ہیں جیسے عیسائی ہیں۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو عبد اللہ اور نبی کہا، یہ واضح اور محکم بات ہے لیکن عیسائی اسے چھوڑ کر قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ جو کہا گیا اس سے اپنے گمراہ کن عقائد پر غلط استدال کرتے ہیں یہی حال اہل بدعت کا ہے۔ قرآن کے واضح عقائد کے برعکس اہل بدعت نے جو غلط عقائد گھڑ رکھے ہیں وہ انہی متشابہات کو بنیاد بناتے ہیں۔ اور بسا اوقات محکمات کو بھی اپنے فلسفیانہ استدلال کے گورکھ دھندے سے متشابہات بنا دیتے ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ۔ ان کے برعکس صحیح العقیدہ مسلمان محکمات پر عمل کرتا ہے اور متشابہات کے مفہوم کو بھی اگر اس میں اشتباہ ہو محکمات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ قرآن نے انھیں اصل کتاب قرار دیا ہے، جس سے وہ فتنے سے بھی محفوظ رہتا ہے اور عقائد کی گمراہی سے بھی۔ جعلنا اللہ منہم۔(۱۱)
چار رکعات والی نمازوں کے دونوں قعدوں میں درود شریف
عام طور سے نماز کے آخری قعدہ میں التحیات کے بعد درود شریف پڑھا جاتا ہے۔ فقہی مسالک میں بھی عام طور پر یہی رائج ہے بلکہ بعض ائمۂ فقہ کے یہاں اس مسئلے میں یہ سختی پائی جاتی ہے کہ اگر کسی نے قعدہ اولیٰ میں درود پڑھ لیا تو اس پر سجدۂ سہو لازم آئے گا جب کہ اس کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے۔ حافظ صلاح الدین یوسف نے سورہ الأحزاب کی آیت (۵۶) سے بڑا لطیف اور برمحل استدلال کیا ہے کہ دونوں قعدوں میں درود شریف پڑھنا ضروری ہے۔ یہ بصیرت افروز تحریر ملاحظہ فرمائیں:
’’اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس مرتبہ و منزلت کا بیان ہے جو ملأ اعلی (آسمانوں) میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے اور یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرشتوں میں آپﷺ کی ثنا و تعریف کرتا اور آپﷺ پر رحمتیں بھیجتا ہے اور فرشتے بھی آپﷺ کی بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے عالم سفلی (اہل زمین) کو حکم دیا کہ وہ بھی آپﷺ پر صلوٰۃ اور سلام بھیجیں تاکہ آپﷺ کی تعریف میں علوی اور سفلی دونوں عالم متحد ہوجائیں۔ حدیث میں آیا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ! سلام کا طریقہ تو ہم جانتے ہیں (یعنی التحیات میں السلام علیک ایھا النبی! پڑھتے ہیں) ہم درود کس طرح پڑھیں؟ اس پر آپ نے وہ درود ابراہیمی بیان فرمایا جو نماز میں پڑھا جاتا ہے (صحیح بخاری) علاوہ ازیں احادیث میں درود کے اور بھی صیغے آئے ہیں جو پڑھے جاسکتے ہیں۔ نیز مختصرا صلی اللہ علی رسول اللہ وسلم بھی پڑھا جاسکتا ہے تاہم الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ! پڑھنا اس لیے صحیح نہیں کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب ہے اور یہ صیغہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عام درود کے وقت منقول نہیں ہے اور تحیات میں السلام علیک ایھا النبی!چونکہ آپ سے منقول ہے اس وجہ سے اس وقت میں پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں مزید برآں اس کا پڑھنے والا اس فاسد عقیدے سے پڑھتا ہے کہ آپ اسے براہ راست سنتے ہیں۔ یہ عقیدہ فاسدہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور اس عقیدے سے مذکورہ خانہ ساز درود پڑھنا بھی بدعت ہے جو ثواب نہیں گناہ ہے۔ احادیث میں درود کی بڑی فضیلت وارد ہے۔ نماز میں اس کا پڑھنا واجب ہے یا سنت؟ جمہور علماء اسے سنت سمجھتے ہیں اور امام شافعی اور بہت سے علماء واجب اور احادیث سے اس کے وجوب ہی کی تائید ہوتی ہے۔ اسی طرح احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آخری تشہد میں درود پڑھنا واجب ہے پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنے کی وہی حیثیت ہے اس لیے نماز کے دونوں تشہد میں درود پڑھنا ضروری ہے۔ اس کے دلائل مختصراحسب ذیل ہیں:
ایک دلیل یہ ہے کہ مسند احمد میں صحیح سند سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبیﷺ سے سوال کیا یارسول اللہ آپ پر سلام کس طرح پڑھنا ہے یہ تو ہم نے جان لیا (کہ ہم تشہد میں السلام علیک پڑھتے ہیں) لیکن جب ہم نماز میں ہوں تو آپ پر درود کس طرح پڑھیں؟ توآپ نے درود ابراہیمی کی تلقین فرمائی (الفتح الربانی،ج۴، ص ۲۰۔۲۱) مسند احمد کے علاوہ یہ روایت صحیح ابن حبان، سنن کبری بیہقی، مستدرک حاکم اور ابن خزیمہ میں بھی ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ جس طرح سلام نماز میں پڑھا جاتا ہے یعنی تشہد میں، اسی طرح یہ سوال بھی نماز کے اندر درود پڑھنے سے متعلق تھا۔ نبیﷺ نے درود ابراہیمی پڑھنے کا حکم فرمایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ نماز میں سلام کے ساتھ درود بھی پڑھنا چاہیے اور اس کا مقام تشہد ہے اور حدیث میں یہ عام ہے اسے پہلے یا دوسرے تشہد کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا ہے جس سے یہ استدلال کرنا صحیح ہے کہ (پہلے اور دوسرے) دونوں تشہد میں سلام اور درود پڑھا جائے اور جن روایات میں تشہد کا بغیر درود کے ذکر ہے انھیں سورۃ احزاب کی آیت {صلوا علیہ وسلموا}کے نزول سے پہلے پر محمول کیا جائے گا لیکن اس آیت کے نزول یعنی ۵ ہجری کے بعد جب نبیﷺ نے صحابہ کے استفسار پر درود کے الفاظ بھی بیان فرمادیے تو اب نماز میں سلام کے ساتھ صلوۃ (درودشریف) کا پڑھنا بھی ضروری ہوگیا چاہے وہ پہلا تشہد ہو یا دوسرا۔ اس کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان فرمایا کہ نبیﷺ (بعض دفعہ) رات کو ۹ رکعات ادا فرماتے، آٹھویں رکعت میں تشہد میں بیٹھتے تو اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر پر درود پڑھتے پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے اور نویں رکعت پوری کر کے تشہد میں بیٹھتے تو اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر پر درود پڑھتے اور پھر دعا کرتے، پھر سلام پھیر دیتے (السنن الکبری للبیہقی ج۲، ص ۷۰۴،طبع جدید سنن النسائی مع التعلیقات السلفیۃ ،کتاب قیام اللیل ج۱،ص۲۰۲، مزید ملاحظہ ہو: صفۃ صلاۃ النبی للألبانی، ص۱۴۵)
اس میں بالکل صراحت ہے کہ نبی نے اپنی رات کی نماز میں پہلے اور آخری دونوں تشہد میں درود پڑھا ہے۔ یہ اگرچہ نفلی نماز کا واقعہ ہے لیکن مذکورہ عمومی دلائل کی آپ کے اس عمل سے تائید ہوجاتی ہے اس لیے اسے صرف نفلی نماز تک محدود کردینا صحیح نہیں ہوگا‘‘۔ (۱۲)
بادشاہت اور جمہوریت کا قضیہ
اسلام کے سیاسی نظریے میں بادشاہت اور جمہوریت کی بحث دور حاضر کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ چند تحفظات کے ساتھ بعض مسلم سیاسی مفکرین مغربی جمہوریت کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ مفسر کو اس سے اختلاف ہے، وہ مسلمان عادل اور متقی بادشاہ کی بادشاہت کو جمہوریت سے بہتر سمجھتے ہیں۔ وہ سورہ المائدۃ کی آیت: {وَإِذْ قَالَ مُوسَیٰ لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَۃَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیکُمْ أَنبِیَاء َ وَجَعَلَکُم مُّلُوکًا وَآتَاکُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِینَ (۲۰) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بیشتر انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہی ہوئے ہیں جن کا سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم کردیا گیا اور آخری پیغمبر بنو اسماعیل سے ہوئےﷺ۔ اسی طرح متعدد بادشاہ بھی بنی اسرائیل میں ہوئے اور بعض نبیوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ملوکیت (بادشاہت) سے نوازا، جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبوت کی طرح ملوکیت (بادشاہت) بھی اللہ کا انعام ہے، جسے علی الاطلاق برا سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اگر ملوکیت بری چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی نبی کو بادشاہ بناتا نہ اس کا ذکر انعام کے طور پر فرماتا، جیسا کہ یہاں ہے۔ آج کل مغربی جمہوریت کا کابوس اس طرح ذہنوں پر مسلط ہے اور شاطران مغرب نے اس کا افسوں اس طرح پھونکا ہے کہ مغربی افکار کے اسیر اہل سیاست ہی نہیں بلکہ اصحاب جبہ و دستار بھی ہیں۔ بہرحال ملوکیت یا شخصی حکومت، اگر بادشاہ اور حکمراں عادل ومتقی ہو تو جمہوریت سے ہزار درجے بہتر ہے‘‘۔(۱۳)
سورہ الشوری کی آیت (۳۸) سے بھی بعض حضرات نے ملوکیت کی تردید اور جمہوریت کا اثبات کیا ہے۔ حافظ صلاح الدین یوسف نے آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اس کی عملی تطبیق کی کئی ایک مثالیں ذکر کی ہیں اور پھر مغربی جمہوریت کی تردید کرتے ہوئے اسے اسلام کے منافی بتایا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’شوریٰ کا لفظ ذکریٰ اور بشریٰ کی طرح باب مفاعلہ سے اسم مصدر ہے۔ یعنی اہل ایمان ہر اہم کام باہمی مشاورت سے کرتے ہیں، اپنی ہی رائے کو حرف آخر نہیں سمجھتے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ نے حکم دیا کہ مسلمانوں سے مشورہ کرو (آل عمران:۱۵۹) چنانچہ آپ جنگی معاملات اور دیگر اہم کاموں میں مشاورت کا اہتمام فرماتے تھے، جس سے مسلمانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی اور معاملے کے مختلف گوشے واضح ہوجاتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب نیزے کے وار سے زخمی ہوگئے اور زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہی تو امر خلافت میں مشاورت کے لیے چھ آدمی نامزد فرما دیے: عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد اور عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم۔ انھوں نے باہم مشورہ کیا اور دیگر لوگوں سے بھی مشاورت کی اور اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے مقرر فرما دیا۔ بعض لوگ مشاورت کے اس حکم اور تاکید سے ملوکیت کی تردید اور جمہوریت کا اثبات کرتے ہیں۔ حالانکہ مشاورت کا اہتمام ملوکیت میں بھی ہوتا ہے۔ بادشاہ کی بھی مجلس مشاورت ہوتی ہے، جس میں ہر اہم معاملے پر سوچ بچار ہوتا ہے اس لیے اس آیت سے ملوکیت کی نفی قطعاً نہیں ہوتی علاوہ ازیں جمہوریت کو مشاورت کے ہم معنی سمجھنا یکسر غلط ہے۔ مشاورت ہرکہ ومہ سے نہیں ہوسکتی، نہ اس کی ضرورت ہی ہے۔ مشاورت کا مطلب ان لوگوں سے مشورہ کرنا ہے جو اس معاملے کی نزاکتوں اور ضرورتوں کو سمجھتے ہیں جس میں مشورہ درکار ہوتا ہے۔ جیسے بلڈنگ، پل وغیرہ بنانا ہو تو کسی تانگہ بان، درزی یا رکشہ ڈرائیور سے نہیں، کسی انجینئر سے مشورہ کیا جائے گا، کسی مرض کے بارے میں مشورے کی ضرورت ہوگی تو طب و حکمت کے ماہرین کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ جب کہ جمہوریت میں اس کے برعکس ہر بالغ شخص کو مشورے کا اہل سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ کورا ان پڑھ، بے شعور اور امور سلطنت کی نزاکتوں سے یکسر بے خبر ہو۔ بنا بریں مشاورت کے لفظ سے جمہوریت کا اثبات، تحکم اور دھاندلی کے سوا کچھ نہیں، اور جس طرح سوشلزم کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگانے سے سوشلزم مشرف بہ اسلام نہیں ہوسکتا، اسی طرح ’’جمہوریت‘‘ میں ’’اسلامی‘‘ کی پیوند کاری سے مغربی جمہوریت پر خلافت کی قبا راست نہیں آسکتی۔ مغرب کا یہ پودا اسلام کی سر زمین پر نہیں پنپ سکتا‘‘۔ (۱۴)
مختصر یہ کہ عصر حاضر کی یہ ایک اہم اور مفید اردو تفسیر ہے جس میں آیات قرآنی کا مفہوم سلف صالحین کے منہج کے مطابق بیان کیا گیا ہے، شان نزول بیان کرتے ہوئے روایات کی صحت کا خیال رکھا گیا ہے، مسلم معاشرے میں قرآن کی تعلیمات کے خلاف جو چیزیں نظر آتی ہیں، ان کی تردید کی گئی ہے، جدید مسائل سے بھی قارئین کو واقف کرایا گیا ہے اور علوم قرآن کے کئی ایک مسائل پر علمی انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔
تعلیقات وحواشی
(۱)مقدمہ ’’قرآن کریم مع اردو ترجمہ وتفسیر‘‘ از معالی الشیخ صالح بن عبدالعزیز بن محمد آل الشیخ، شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس، مدینہ منورہ، ۱۴۱۷ھ۔ استاذ محترم مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے ایک ملاقات میں اس نظر ثانی کی نوعیت یہ بتائی تھی کہ شام کو کتابت شدہ ایک فرمہ مجھ تک پہنچادیا جاتا تھا اور صبح کو ایک ملازم آکر اسے لے جاتا تھا۔ رات کے وقت سرسری طور پر مجھے اسے دیکھنے کا موقع ملتا تھا، اسی لیے بہت کم مقامات پر میں نے کچھ اصلاحات کی تھیں۔ میرے فاضل دوست ڈاکٹر لیث محمد بستوی نے بتایا کہ مقدمہ میں مذکور دونوں بزرگوں کے ساتھ وہ بھی نظر ثانی کے کام میں مصروف عمل تھے۔ ترجمہ اور تفسیر کی خواندگی کی جاتی تھی اور باہمی مشورے سے اصلاحات کی جاتی تھیں۔ نظر ثانی کرتے وقت تفسیر کے کئی ایک حواشی نکال بھی دیے گئے ہیں اور کہیں کہیں بعض جملے اور الفاظ کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ راقم نے اس تفسیر کا ایک بڑا سائز تیار کرکے ادارہ علوم الحدیث، جامعہ اردو روڈ علی گڑھ سے شائع کیا ہے جس میں تفسیر کے اولین ایڈیشن کے تفسیری حواشی کے مضامین کی فہرست کو سعودی ایڈیشن سے ہم آہنگ کرکے اس میں شامل کیا ہے۔
(۲)مولانا حافظ صلاح الدین یوسف کی زندگی کے حالات اور ان کی متنوع علمی خدمات کی تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں:
دبستان حدیث، مولانا محمد اسحاق بھٹی، مکتبہ قدوسیہ لاہور، اشاعت اول:۲۰۰۸ء، ص: ۵۷۸۔۵۸۸
برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن، مولانا محمد اسحاق بھٹی، مکتبہ قدوسیہ، لاہور، ۲۰۰۵ء، ص: ۲۰۸۔۲۰۹
ارمغان مولانا محمد اسحاق بھٹی، حمیداللہ خاں عزیز، ادارہ تفہیم الاسلام، بھاول پور، پاکستان،اشاعت اول: ۲۰۱۷ء، ص:۷۶۷
برصغیر پاک وہند میں علمائے اہل حدیث کی تفسیری خدمات، ملک عبدالرشید عراقی، صادق خلیل اسلامک لائبریری، فیصل آباد، پاکستان، اشاعت اول : ۲۰۰۰ء،ص:۵۴۔۵۵۔
(۳)مقدمہ تفسیر احسن البیان، ص :۱۸۷۹۔۱۸۸۰
(۴)تفسیر احسن البیان،ص:۲۸
(۵)نفس مصدر، ص:۱۲۱۔۱۲۲
(۶)نفس مصدر،ص:۳۲۶
(۷)نفس مصدر،ص: ۱۰۵۔۱۰۶
(۸)نفس مصدر،ص:۳۰۰
(۹)نفس مصدر،ص:۷۸۱۔۷۸۲
(۱۰)نفس مصدر،ص:۴۴
(۱۱)نفس مصدر،ص:۱۳۱
(۱۲)نفس مصدر، ص:۱۱۹۰۔۱۱۹۱
(۱۳)نفس مصدر،ص:۲۹۴
(۱۴)نفس مصدر،ص:۱۳۷۲۔۱۳۷۳
آپ کے تبصرے