دل یہ کہتا ہے فراق انجمن سہنے لگوں

رشید سمیع سلفی سفریات

سفرنامہ ادب کی وہ صنف ہے جس نے واقعات ومشاہدات اور عبر ونصائح کا غیر معمولی سرمایہ اپنے دامن میں سجا رکھا ہے،بعض سفرناموں نے بہت شہرت بھی حاصل کی ہے،ناچیزنے سفرنامے تو کئی پڑھے ہیں لیکن باقاعدہ سفرنامہ تحریر کرنے کی جسارت نہیں کرسکاہے،نارسائی اور بے بضاعتی تو اجازت نہیں دیتی لیکن جب سفر نے مشاغل دنیا سے فارغ کررکھا ہو تو وقت گذاری کا بہتر مصرف اس کے سوا کیا ہوگا کہ کچھ قلم و قرطاس سے مشغلہ کرلیا جائے،لہذا بے سروسامانی کے باوجودرہوار قلم کو ایڑ لگا دی ہے؎

انجام اُس کے ہاتھ ہے، آغاز کر کے دیکھ

بھیگے ہوئے پروں سے ہی پرواز کر کے دیکھ

(نواز دیوبندی)
وطن اور آبائی گاؤں سے لگاؤ کسے نہیں ہوتا ہے؟جب زندگی کے خوبصورت دنوں کی خوشبو گاؤں کی گلیوں میں بکھری ہو اور جہاں کی تلخ و شیریں یادیں دل ودماغ پر سایہ فگن ہوں تو یہ تعلق اور بھی گہرا ہوجاتا ہے۔بچپن کی باغ و بہار زندگی، بے فکری اور شوخیاں مدۃ العمر کے لیے حسین سرمایہ ہوتی ہیں، شہروں کی زندگی اگرچہ چمک دمک اور آسائشوں سے معمور ہوتی ہے لیکن گاؤں کی سادگی اور فطری رعنائی کا مزہ ہی کچھ اور ہے، زندگی کے گرد و پیش میں ہریالیاں،کھیت ،باغات،موسم کی نیرنگیاں،صبح وشام کے نشاط انگیز لمحے،تازہ ہوائیں،کھلی فضا،ندی تالاب کے پر کیف مناظر،سادگی اور خلوص میں رچے بسے رشتے ساز دل کو چھیڑتے ہیں،انشا نے کہا ہے؎

یہاں اُلجھے اُلجھے رُوپ بہت

پر اصلی کم، بہرُوپ بہت

اس پیڑ کے نیچے کیا رُکنا

جہاں سایہ کم ہو، دُھوپ بہت

چل اِنشاؔ اپنے گاؤں میں

بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں

بچپن میں تعلیم اور جوانی میں روزگار نے ہمیشہ گاؤں سے دور ہی رکھا،دو چار سال پر جب وطن مالوف کی طرف عازم سفر ہوتا ہوں تو گاؤں اور گلیوں کا ایک ایک منظر اور خوبصورت ماضی کا ایک ایک ورق ذہن میں الٹنے لگتا ہے،حسین یادوں کے قافلے دل کے آنگن میں اترنے لگتے ہیں،طویل لاک ڈاؤن کی نا قابل برداشت کوفت سے زچ ہوکر ایک دن بیٹھے بیٹھے موبائل پر ٹکٹ بک کرلیا اور وقت مقررہ کا انتظار کرنے لگا۔
۲۴؍اکتوبرکی تاریخ جیسے جیسے قریب آرہی تھی خیالات و احساسات کا سرا دیاروطن کی طرف لپکنے لگا تھا،چار سال کی طویل مدت کے بعد اپنے گاؤں جنک نگر سدھارت نگر کی طرف روانگی تھی۔مگر ہائے رے جمود قلب ٹوٹا بھی تو کتنی دیر سے،جب پرانے دوست لاک ڈاؤن گزار کر شہروں کی طرف عازم سفر ہونے لگے تھے ،گاؤں کی گہما گہمی پھر ماند پڑنے لگی تھی،شکم کی آگ انسان کو چین سے بیٹھنےکہاں دیتی ہے۔ضروریات کی بہتات نے گاؤں کے جگر پاروں کو شہروں کا مہاجر بنا دیا ہے؎

جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی

مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی

(عارف شفیق)
کلیان سٹیشن سے بورڈنگ تھی،سدھارتھ نگر(نوگڈھ) سٹیشن پر اترنا تھا،سٹیشن بھیڑ بھاڑ سے پاک تھا،غیر متعلق آدمی کی اندر انٹری نہیں تھی،قلی کی مدد سے مطلوبہ پلیٹ فارم پر پہنچ گئے،منزل تو بہت دور تھی،لیکن جدید ترقی نے سفر کو دور ماضی کے تمام مصائب وآلام سے مکت کردیا ہے،اب سفر قطعۃ من النار نہیں رہ گیا ہے،سفر کی تکان،موسم کی سختی،رستوں کےجان جوکھم سب گذرے دنوں کی باتیں ہیں،سوچو! اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمیں بھی ندا فاضلی کی طرح کہنا پڑتا؎

سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو

سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو

سفر شروع ہونے پر پتہ چلا کہ کورونا وائرس کےسبب اے سی کوچ میں کمبل اور تکیہ نہیں دیا جارہا ہے،سردی کی آمد آمد تھی،رات بڑی دشوار گزار تھی،لیٹنے کے تھوڑے ہی دیر بعد موسم رنگ بدلنے لگا،متحرک ٹرین اور اس پر ہلکی ہلکی سردی سے آنکھ اور نیند کا ملاپ نہیں ہو سکا،وقت بوجھل قدموں سے آگے بڑھ رہا تھا،کیا کرتا؟آخر وجودکی تمام حسیات سمیٹ کر موبائل کی سکرین پر مرکوز کرلی اور تھوڑی ہی دیر میں دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوگیا؎

اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی

ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی

(راہی معصوم رضا)
خدا خدا کرکے رات تو گذر گئی اب دن کے پہاڑ کو سر کرنا تھا،دل کرتا تھا بس ایک جست میں گاؤں پہنچ جاؤں مگرایسا کہاں ممکن تھا۔ایک اچھی بات یہ رہی کہ ہم نشین سب اچھے لوگ تھے،کوآپریٹیو تھے، بس رسمی سی گفتگو چلتی رہی،سفر میں جب کوئی ہم خیال اور باذوق رفیق سفر ملے اور موضوعات بدل بدل کر تبادلۂ خیال کا سلسلہ چلتا رہے تو وقت گذرنے کا احساس نہیں ہوتا،قسمت کی مہربانی کہیے یا پھر حسن اتفاق سمجھ لیجیے کہ دو ایسے دوستوں سے ملاقات ہوگئی جو ہم مزاج ہم خیال ہم فکر اور علم دوست ہونے کے ساتھ پختہ کار عالم دین تھے،جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں کے شعبان صفاوی اور بھیونڈی کے اقبال فیضی بھی عازم سفر تھے۔شعبان‌صفاوی علم‌وادب کی دنیا کا ایسا معتبر نام ہے جسے سن کر ذہن میں علمی وقلمی جولانیوں کی ایک طویل داستان جھلملانے لگتی ہے،تفصیلی تعارف دکتور وسیم محمدی نےبڑی خوش اسلوبی سے کیاہے جو آج بھی ان کی وال پر دستیاب ہے،میں صرف اتنا کہہ کر آگے گذرتا ہوں کہ آپ ایک بلند پایہ قلمکار ہونے کے ساتھ قلمکار گر بھی ہیں۔
اس مجلس کے دوسرے ساتھی شیخ اقبال فیضی صاحب تھے،آپ ایک اچھے عالم وخطیب ہونے کے ساتھ کامیاب بزنس مین بھی ہیں،علماء کی تعداد دوسرے میدانوں میں بہت ہے لیکن وہ علماء جنھوں نے تجارت کے ساتھ میدان دعوت وتبلیغ سے رشتہ برقرار رکھاہے وہ کم ہی ہیں،اقبال فیضی کا نام ان میں سر فہرست ہے۔جو لوگ کہتے ہیں کہ ایک عالم کا علم کے ساتھ کچھ اور بھی کرنا،دوکشتی میں پیر رکھ کر چلنے کے مترادف ہے،آدمی نہ ادھر کا رہتا ہے اور نہ ہی ادھر کا رہ جاتا ہے،ان کو اقبال فیضی سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ٹھیک ہے کہ مطالعہ رک سا جاتا ہے ،وقت بٹ جاتا ہے لیکن ایک دائرے اور ایک مخصوص رفتار کے ساتھ کار دین بھی انجام پاتا رہتا ہے،بلکہ یہ تاریخی سچائی ہے کہ دین کی تبلیغ میں تجارت کا بھی بہت بڑا کردار ہے ،مجلس جمی تو چند ساعتیں تو برق رفتاری سے گذر گئیں،بوگی علیحدہ ہونے کے سبب رفاقت زیادہ دیر نہ رہی،مجھے پھر اسی خشک مجلس میں آنا پڑا،بوریت کی تلافی موبائل سے کی جاتی رہی،گھر والوں سے بس رسمی گفتگو وقفے وقفے سے چلتی رہی،سچ تو یہ ہے کہ پورے سفر میں چند ساعتوں کو چھوڑ کر اپنی ذات کے خول ہی میں بند رہناپڑا،سررشتۂ ذہن خیالات وتفکرات کی شاخوں میں الجھتا اور سلجھتارہا؎

اپنے آپ میں گہرا اتر گیا شاید

مرے سفر سے الگ ہو گئی روانی مری

(عباس تابش)
بچے تو خوش تھے کہ چارسال بعد گاؤں کی پر لطف زندگی کا مزہ لینے جارہے ہیں،لیکن میں ماضی کے ایک ایک ورق کو الٹ رہا تھا،یادوں کے سرد وگرم جھونکے چلتے رہے،کبھی دار الھدی یوسف پور کا دور طالب علمی یاد آتا تھا اور کبھی جامعہ سلفیہ کے پر کیف شب وروز یاد آتے تھے،کبھی کرب کا احساس پیدا ہوتا اور کبھی دل میں مسرت کی شبنم اترنے لگتی،موبائل پر پی ڈی ایف میں چند چیزیں پڑھ چکا تھا،زیادہ نہیں پڑھ سکتا تھا کیونکہ موبائل پر کتابوں جیسا استقلال کہاں سے آسکتا ہے۔اتنا ضرور ہے کہ موبائل نے کتابوں کے بوجھ سے نجات دے دی ہے،ایک چلتی پھرتی لائبریری ہمارے ہاتھوں میں تھما دی ہے،جہاں بھی دل کرے پڑھنا شروع کردو۔موبائل نے قوت خرید سے محروم لوگوں کو استفادے کے لائق بنادیا ہے،فوائد پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن یہ موقع نہیں ہے۔
ٹرین اپنے مسافروں کو لےکر ایک سٹیشن سے دوسرے سٹیشن کی طرف دوڑ لگارہی تھی،ٹرین کے اندر سے باہر کا رنگ بدلتا منظر لطف دے رہاتھا،ایک منظر کے بعد دوسرا منظر ایسے آاور جارہاتھاجیسے کھڑکی کانچ پر کوئی فلم متحرک ہو،ندیوں کے طویل اور کوہ پیما بریج سےگذرتے ہوئے زبان پر رب کی کبریائی کے کلمے ہوتے تھے،یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی اسی عقل کی ایجاد ہے جس سے بڑی دنیا میں کوئی ایجاد نہیں ہے،کبھی تو دور دور تک صحراکا سلسلۂ دراز ہوتا تھا اور کبھی ہرے بھرے درختوں کی ایسی خوبصورت قطارہوتی تھی جو ختم ہی نہیں ہوتی تھی اور جن کی ٹھنڈی چھاؤں دامن پھیلائے دعوت تفریح دیتی نظر آتی تھی،پر جدید دور کے سفر نے درخت کے گھنے سایوں سے بھی لطف اندوز ہونےکا موقع باقی نہیں رکھا ہے،بس صرف آنکھوں سے منظر کا لطف لیا جاسکتا ہے؎

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

(حیدر علی آتش)
صبح وشام کی چند گردشوں کے بعد ریل گاڑی یوپی کی وسعتوں اور ہم اس رات میں داخل ہورہے تھے جو منزل پر لنگر ڈالنے والی تھی،منزل قریب ہوتو مختصر راستہ بھی طویل لگنے لگتا ہے،طویل انتظار کے بعد ٹرین سدھارتھ نگر (نوگڈھ)سٹیشن پر رینگ رہی تھی،ریسیو کرنے والے احباب پہلے سے موجود تھے، چندلمحوں کے بعد گاڑی ہمیں لیے ہوئے گھر کی طرف رواں دواں تھی،راستوں میں کچے مکان اور پھوس کی جھونپڑیاں،خالی اور سنسان سڑک،جانوروں کی مٹرگشتی دیہی زندگی کا تعارف کرارہی تھی، صاف ستھری فضااور حیات بخش ہوا دل کے تاروں کو چھیڑ رہی تھی؎

واہ رے دیہات کے سادہ تمدن کی بہار

سادگی میں بھی ہے کیا کیا تیرا دامن زرنگار

دل یہ کہتا ہے فراق انجمن سہنے لگوں

شہر کی رنگینیاں چھوڑ کر یہیں رہنے لگوں

دل یہ کہتا ہے فراق انجمن سہنے لگوں (دوسری قسط)

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Hilal Ahmad

ماشاء اللہ
زبردست
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ