دل یہ کہتا ہے فراق انجمن سہنے لگوں (۲)

رشید سمیع سلفی سفریات

دل یہ کہتا ہے فراق انجمن سہنے لگوں (پہلی قسط)
ملگجے اندھیرے میں سواری سے اتر کر گھر کی دہلیز پر قدم رکھا تو ایک ٹھنڈک سی دل میں اترتی محسوس ہوئی،ایسا لگا کہ دیواروں پر ماضی کی انگنت کہانیاں بول رہی ہوں،عجیب نشاط انگیز لمحہ تھا،دل کے ارماں مچل رہے تھے۔ رسمی مصروفیات سے فارغ ہوکر باغ کی طرف نکل گیا اور چند لمحوں میں برسوں کے رنگ برنگ مناظر آنکھوں کےسامنے گھوم گئے، جن درختوں کے نیچے ہم کھیلا کرتے تھے وہ بوڑھے ہوکر اپنا وجود کھو چکے تھے،گرد وپیش میں دوسرے درخت ہرے بھرے پتوں اور نئی نویلی شاخوں سے لیس ہوکر اپنا جلوہ بکھیر رہے تھے، چند ثانیے کے لیے لگا کہ بچپن لوٹ آیا ہے، ایک گھنے درخت کی خنک چھاؤں میں گذرے لمحوں کا لطف لینے لگا، پھلوں سے لدی شاخیں اور ٹہنیوں سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئیں جیسے کان میں سرگوشیاں کررہی ہوں۔کہیں دور سے کوئل کی کوکو اور پپیہے کی پی پی کی رس بھری آواز آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی؎

شہروں کی خاک چھان کر آیا ہوں گاؤں میں

کتنا سکوں ملا ہے درختوں کی چھاؤں میں

(سلیم بیتاب)
دنیا عالم تغیرات ہے،قدم قدم پر پرانے نقوش کی جگہ نئے رنگ و روغن نےلےلیا ہے،دیہاتوں میں تیزرفتار تبدیلیاں پتہ نہیں گاؤں کو کہاں لے جارہی ہیں۔سڑکوں کی جدیدکاری،لب روڈ خودرو پودوں کی طرح اگتے ہوئے پختہ مکانات،گھرگھر بائک اور عمارتوں کے بلند ہوتے قد وقامت،منظر سے غائب ہوتے مویشی اورمشینوں پر بڑھتا انحصاردیکھ کر لگا کہ اب گاؤں پرانی پوشاک اتار کر نئی قبا زیب تن کررہا ہے۔اس ہمہ گیر تبدیلی کے ساتھ قدریں بھی پامال ہورہی ہیں،رویوں سے وہ خلوص اور اپنائیت رخصت ہورہی ہے جو کبھی دیہی زندگی کا امتیاز ہوتی تھی،دولت کی نمائش ہورہی ہے،فخرومباہات شباب پر ہے،دنیوی مقابلہ آرائی جاری ہے،قول وعمل سے حسد ورقابت کی بساند اٹھ رہی ہے،جمعہ کے دن مسجد بھرتی تو ہے لیکن خطبۂ جمعہ شروع ہوتے ہی لوگ نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں پھر دعا کے اختتامی کلمات پر آمین کہتے ہوئے بیدار ہوتے ہیں،فارغ اوقات میں گاؤں کے ہنگامے سمٹ کر چائے خانوں میں سما‌ جاتے ہیں،سب کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہےلیکن دیہی روایات ابھی بھی اپنی بقا کے لیے وقت کی ہواؤں سے نبرد آزما ہیں؎

ہم سے تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا

دشت وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں

(فراغ روہوی)
دو دن تک صرف گھر میں رہا اور گرد وپیش کو دیکھ کر پرانی یادیں تازہ کرتا رہا،کہتے ہیں کہ ظاہر باطن کی چغلی کردیتا ہے،لاک ڈاؤن کے بعد کے احوال پر اندر کا کرب امڈ امڈ کر آتا تھا،جب لاک ڈاؤن نے شہروں میں ہاہاکار مچادی تھی تو دیہات پرکیا گذری ہوگی،تصور کیا جاسکتا ہے۔یہاں فلاحی تنظیمیں بھی نہیں تھیں کہ صبح وشام لنگر چلتا رہا ہو اور میڈیا بھی نہیں تھا کہ غریبوں کے خاموش فاقوں کو اسکرین پر دکھاتا رہا ہو،مصائب وآلام کا ایک مہیب طوفان تھا جو زیر زمین گذر گیا۔سنا ہے برے وقتوں میں گاؤں کے غریب اپنے سےغریب تر پڑوسیوں کو اپنے کھانوں میں شریک کرلیا کرتے تھے،کون کہتا ہے کہ مروت مرگئی ہے،ذراان واقعات میں جھانکیے اور اندازہ کیجیے کہ کس طرح انسانی شقاوت کا کٹھور جذبہ اسلامی اخوت کے قدموں میں دم توڑ رہا ہے۔سچ کہا ہے شاعر نے؎

آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے

گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے

(معراج فیض آبادی)
علماء کا درد باتوں سے چھلک چھلک پڑتا تھا،بہتیرے کئی مہینوں سے تنخواہوں سے محروم تھے،جو بھی ملتا یہ ضرور پوچھتا کہ آپ لوگوں کو لاک ڈاؤن میں تنخواہ مل رہی ہے؟میں نے کہا جامعۃ التوحید میں جب سے لاک ڈاؤن ہے نہ صرف اساتذہ کو تنخواہ مل رہی ہے،بلکہ پھنسے ہوئے طلبہ کو جیب خرچ تک گاہے بگاہے ذمے داران دیتے رہے ہیں،تنخواہوں سے محروم اساتذہ کا دکھڑا بیان سے باہر ہے،دنیا کام دھندے پر لگ گئی ہے لیکن اساتذہ امید و بیم کے جان لیوا دور سےگذر رہے ہیں،کم تنخواہوں پر کسمپرسی کی زندگی گذارنے والے علماء کے مقدر میں شاید کوئی صالح انقلاب نہیں ہے لیکن گردش ایام ڈھونڈتے ہوئے ان کے دروازے تک پہنچ جاتی ہے؎

ہم بے کسوں کی بزم میں آئے گا اور کون

آ بیٹھتی ہے گردش دوراں کبھی کبھی

کچھ اور بڑھ گئی ہے اندھیروں کی زندگی

یوں بھی ہوا ہے جشن چراغاں کبھی کبھی

(قابل اجمیری)
تیسرے دن جامعہ احد سوہانس پہنچاتو پرانے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی،زندگی کے تدریسی سفر کا آغاز یہاں سے شروع ہوکر مختلف منازل سے ہوتا ہوا جامعۃ التوحید تک پہنچا ہے،درسگاہوں سے گذرا تو عالم تصور میں کئی تصویریں ابھریں اور نہاں خانۂ ذہن میں واپس چلی گئیں،لوگ آتے جاتے رہتے ہیں لیکن کاروبار دین اپنی طبعی رفتار سے چلتا رہتا ہے،مدرسے نے کافی ترقی کرلی ہے،مگر جماعت رابعہ سے آگے کی طرف قدم نہیں بڑھایا ہے،ایک اچھی بات یہ تھی کہ لاک ڈاؤن کے پورے پیریڈ میں اساتذہ کو مکمل تنخواہ دی گئی ہے،واقعی قابل مبارکباد ہیں جامعہ کے ذمے دار۔
اگلی باری مادر علمی اور سدھارتھ نگر کے مایہ ناز ادارہ جامعہ دار الھدی یوسف پور کی تھی۔دارالھدی یوسف پور۱۸۵۴کا قائم کردہ وہ قدیم ادارہ تھا جس نے ۱۸۵۷کے غدر کے ساتھ موسم کے نہ معلوم کتنے سرد وگرم جھیلے ہیں،یہ وہی دبستان علم و دانش ہے جس کی شروعات کھیتوں کے منڈیر اور کھلیان کی دھول مٹی میں پڑھائی سے ہوئی تھی،جس نے انگریزوں کا عتاب بھی برداشت کیا ہے،پونے دو صدی سے زائد عرصے سے منہج کتاب وسنت کی تابشیں قرب وجوار میں بکھیر رہا ہے،ہزاروں فارغین میدان دعوت میں سرگرم عمل ہیں،مانا کہ بعض دوسرے اداروں کی ترقی اور خدمات دارالھدی سے بے شک زیادہ ہوں گی لیکن قدامت اور زمینی کاموں کا امتیاز دارالھدی کو حاصل ہے۔
شیخ رضوان فیضی حفظہ اللہ نے استقبال کیا،آپ علم وصلاحیت سے بھرپور ہیں،صلاحیت کو قلم کا مرکب مل جائے تو پیش قدمی حیرت انگیز ہوگی،شیخ صہیب فیضی بھی بڑی محبت و شوق سے ملے ،شیخ عزیر رشید اور دوسرے احباب سے بھی شرف ملاقات حاصل ہوا،جامعہ کی پرشکوہ مسجد آج بھی پورے وقار وتمکنت کے ساتھ جامعہ پر سایہ فگن ہے،لیکن چند ثانیے کے لیے میں ٹھٹکا اور حزن وملال کی ایک خاموش لہر دل ودماغ تک دوڑ گئی،آہ مسجد کا وہ وسیع وعریض صحن جہاں سردیوں میں شیخ یونس اثری رحمہ اللہ بیٹھ کر بخاری کادرس دیتے تھے وہ اب حسرت و نامرادی کی تصویر تھا،پردۂ ذہن پر چند تصویریں ابھریں اور ایک ہیجانی کیفیت نے آنکھوں کو لبریز کردیاکیونکہ اس پیکر زہد و اتقااور البیلے شیخ الحدیث کی مسند سونی پڑی تھی؎

غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی

دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری

(رام نرائن موزوں)
شیخ عبدالرشید اثری،شیخ حسن فیضی،شیخ رحمت اللہ اثری،شیخ اسداللہ فیضی،شیخ مجیب اللہ فیضی رحمہم اللہ بہت یادآئے،یہی لوگ تھے جنھوں نے ہماری نوک پلک سنواری تھی،انھی کی حسن تربیت نے لکھنے پڑھنے کے لائق بنایا تھا،آج دارالھدی کی خاک اور اس کے چپے چپے میں ان کے خلوص ووفا کی مہک ضرور ملے گی؎

وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں

اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

(محمد رفیع سودا)
شیخ الجامعہ شیخ عبدالرحیم امینی جامعہ میں موجود نہیں تھے،مگر یہ کہاں ممکن تھا کہ آپ سے ملے بغیر واپس ہوجاتا،معمولی انتظار کے بعد آپ بھی تشریف لے آئے،شیخ آج بھی چاق وچوبند اور نشیط تھے،صرف بالوں کے رنگ تبدیل ہوئے ہیں باقی پورے ہیئت کذائیہ پر عہد شباب کا گمان گذرتا ہے،زمانۂ طالب علمی سے ہی آپ کی زبان وقلم کا گرویدہ رہا ہوں،تین گھنٹے کی مجلس میں پرمغز گفتگو سے شادکام ہوتا رہا،مختلف موضوعات پر آپ کی نکتہ آفرینی،علمی سیلانی، فکری جولانی نے دماغ میں جل تھل کردیا،سچ تو یہ ہے کہ اساتذہ کی قدروقیمت کا اندازہ شعور کی بالیدگی کے بعد ہی ہوتا ہے،وقفے وقفے سے چائے اور ناشتے کا بھی دور چلتا رہا،جب علم وادب کا یہ بحر ذخار ٹھاٹھیں ماررہاتھا تو حافظے سے ایک شعر بار بار زبان پر آرہا تھا،ذرا سی ترمیم کےساتھ؎

ترے بعد اکبر کہاں ایسی باتیں

وہ دل ہی نہ ہوں گے کہ یہ آہ نکلے

شیخ الجامعہ دارالھدی کے علمی قافلے کو لے کر گیسوئے تعلیم کی پیچوں کو سنوار رہے ہیں،آپ کے دور میں کافی تبدیلیاں اور ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے،جامعہ سے جڑی ہر چیز شیخ کے ذوق نفیس کا مظہر بن گئی ہے،جامعہ میں کئی بار آمد ورفت ہوئی اور ہر بار لوگ چشم براہ تھے،دوسری آمد پر شیخ مطیع اللہ سلفی کی زیارت نصیب ہوئی،اپنی تازہ تصنیف ’’تاریخ مرکزی دارالعلوم‘‘ اور دیگر تصانیف بھی مجھے عنایت کیااور مدیر فری لانسر ابو المیزان صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے ان کے لیے بھی کتابیں ہدیہ کیں۔ ابوالمیزان کا نام آتے ہی مجلس کے تمام لوگ ہماری طرف متوجہ ہوگئے تھے،یہ سب جواں سال مدیر کی علمی وجاہت اور قلمی فلک پیمائیوں سے واقف تھے،امینی صاحب نے فری لانسر قلم کارواں کی اس باغ وبہار مجلس میں شامل ہونے کی خواہش بھی ظاہر کی۔(جاری)

آپ کے تبصرے

3000