ملت اسلامیہ جب سیاسی اعتبار سے زوال کا شکار ہوئی اور استعماری قوتوں نے ایک ایک کرکے اس کے بیشتر ممالک پر اپنا تسلط جمالیا تو ملت کے کئی ایک مخلصین نے اس زوال وشکست کے اسباب کا تجزیہ کیا اور ملت اسلامیہ میں در آنے والی بیماریوں کی نشان دہی کی ،اس تجزیے اور تشخیص سے کھل کر یہ حقیقت سامنے آئی کہ ملت اسلامیہ کو لاحق ہونے والی بیماریوں میں ایک بڑی بیماری اس کے اندر پیدا ہونے والی فرقہ پرستی،گروہ بندی اور مسلکی عصبیت اور منافرت بھی ہے۔زوال وشکست کی تکلیف دہ صورت حال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ملت اتحاد واتفاق کی نعمت سے محروم ہوچکی تھی۔ملت کو دوبارہ اتحاد واتفاق کی لڑی میں پرونے کے لیے ضروری تھا کہ جن وجوہات سے ان کے درمیان منافرت پھیلی ہے ،ان کو دور کیا جائے ۔
ملت کے ارباب فکر ودانش کواحساس ہواکہ بعض دوسرے اسباب کے علاوہ فقہی اور بعض اعتقادی مسائل میں نقطہائے نظر کے اختلاف نے بھی ملت کا اتحاد پارہ پارہ کیاہے لہذا افراد ملت کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جن مختلف فیہ مسائل کی وجہ سے تمھارے درمیان دوریاں بڑھی ہیں، ان کی حیثیت اور ان کا مقام وہ نہیں ہے جو تمھارے دلوں میں بیٹھ چکا ہے یا مسلکی عصبیت کو ہوا دینے والے بعض نام نہاد علماء شب وروز جس کی تبلیغ کرتے ہیں تکفیر،تفسیق اور تبدیع کا فتنہ عام ہوا ہے، نماز جیسی اہم عبادت کی ادائیگی بھی صرف اپنے ہم مسلک امام کے پیچھے ہی درست ہوتی ہے ،مسلکی عصبیت اور منافرت کا نقطۂ عروج یہ تھا کہ بیت اللہ شریف میں چاروں مسالک کے الگ الگ مصلے بچھادیے گئے،اصل دین وہ تعلیمات ہیں جو قرآن مجید سے ہمیں معلوم ہوتی ہیں،اگر ان تعلیمات پر کوئی مسلمان عمل پیرا ہے تو وہ ایک سچا مسلمان ہے خواہ اس کا فقہی مسلک اور نقطۂ نظر کچھ بھی ہو ۔
مثال میں ہم برصغیر میں ترتیب پانے والے مناظرانہ لٹریچر کا مطالعہ کریں تو دکھائی دے گا کہ اللہ اور آخری رسول پر ایمان رکھنے والی ملت اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو مسلمان تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں،اس کے بعض افرادایک دوسرے کے ایمان کو شک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور بعض علاقوں میں تو شادی بیاہ تک کی ممانعت پائی جاتی ہے۔بات یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ جو ایک فرقے کے ذریعے کافر ٹھہرائے گئے مسلمانوں کو کافر نہ سمجھے ،وہ خودبھی کافر ہے اور اگر کوئی ان کے کافر ٹھہرائے گئے مسلمانوں کے جنازے میں شریک ہوجائے تو اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے،اس کے لیے لازم ہے کہ تجدید نکاح کرائے ورنہ اسے سماجی بائیکاٹ کی اذیت برداشت کرنی پڑے گی۔جن علاقوں میں تعلیم کا تناسب کچھ بہتر ہے ،وہاں صورت حال اتنی پیچیدہ نہیں ہے لیکن جہاں تعلیم نہیں ہے ،وہاں اس کا کافی زور ہے اور ہمارے بعض محترم علمائے کرام ایسے علاقوں میں جاکر اس بات کی تاکید عوام کو ضرور کرتے ہیں کہ کس طرح کے مسلمانوں سے تمھیں رسم وراہ رکھنی ہے اور کس سے فاصلہ بناکر رکھنا ہے ،کن مسلمانوں کا ذبیحہ تمھارے لیے حلال ہے اور کن کے ہاتھوں کا ذبیحہ تمھارے لیے حرام ہے۔جہالت وظلمت کی یہ صورت حال بعض مخلصین اور بعض دینی جماعتوں اور تنظیموں کی کوششوں سے کسی حدتک تبدیل تو ہوئی ہے لیکن عمومی طور پر برصغیر کا دینی ماحول اسی عصبیت اور منافرت کا شکار ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ مخلصین ملت نے ان اعتقادی اور فقہی اختلافات کا جائزہ نہیں لیا ہے اور اس کی حقیقت ونوعیت واضح نہیں کی ہے ،اس موضوع پر مسلسل لکھا جارہا ہے اور دینی مجالس میں بھی یہ موضوع زیر بحث آتا ہے۔ہمیں غور یہ کرنا ہے کہ ان تمام کوششوں کے خاطر خواہ نتائج سامنے کیوں نہیں آرہے ہیں،کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم دو چہروں کے ساتھ دعوتی کام انجام دیتے ہیں۔عام مجالس میں ہمارا رویہ کچھ ہوتا ہے اور خصوصی مجالس میں ہماری ترجیحات بدل جاتی ہیں،خدانخواستہ اگر ایسا ہے تو یہ بحکم قرآنی صریح منافقت ہے ، اس سے ہمیں ہر حال میں دور رہنا ہوگا۔
خلافت عثمانیہ کے زوال وانحطاط کے بعدملت اسلامیہ زبوں حالی کا شکار ہوئی اوراسلام دشمن طاقتیں ایک ایک کرکے اس کے ممالک کا معاشی اور سیاسی استحصال کرنے لگیں،وہ دل سے چاہتی تھی کہ کوئی ایسا نسخہ ہاتھ آئے جو اس کے اضطراب اور بے چینیوں کو دور کرسکے۔یہی وہ موقع تھا جب اتحاد واتفاق کی راہ میں حائل مسلکی عصبیت اور منافرت سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس نے رجوع الی القرآن کی تحریک کو شرح صدر کے ساتھ قبول کیا اور اس تحریک سے وابستہ شخصیات اور تنظیموں کو مسلم معاشرے میں پذیرائی بھی حاصل ہوئی اور احترام وافتخار بھی ملا۔
رجوع الی القرآن کی تحریک کا یہ پس منظر بتاتا ہے کہ اس کے پیچھے خدا نخواستہ کوئی سازش نہیں بلکہ اخلاص کا جذبہ کار فرما تھا۔یہ اور بات ہے کہ رجوع الی القرآن کی یہ تحریک کوئی منصوبہ بند تنظیم کی شکل میں نہیں تھی اور نہ اس سے وابستہ افراد تنظیمی طور پر ایک دوسرے سے وابستہ تھے بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں بہت سے درد مند اور ملت کے تئیں مخلص افراد اپنے طور پر اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے اپنے اپنے دائرے میں رہ کر قرآن مجید کی تعلیمات کو عام کرنا شروع کردیاتاکہ افراد ملت خود ساختہ دینی ترجیحات سے باہر نکلیں اور قرآن مجید کے ابدی پیغام کو سینے سے لگائیں۔
قرآن کریم کی تعلیمات ہماری ترجیحات بن جائیں،بھلا اس سے زیادہ اچھی بات کیا ہوسکتی ہے ۔شکست وہزیمت سے دوچار ملت نے اس تحریک پر لبیک کہا اور کئی ایک علمی حلقوں میں دروس قرآن اور مطالعۂ قرآن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس تحریک کے پیچھے جو شخصیات تھیں،ان میں اہم ترین حضرات سید جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہ،رشید رضا مصری ،مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا حمید الدین فراہی اور ان کے ممتاز تلامذہ،شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری ،مولانا محمد اسماعیل گوجرانوالہ،مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ،مولانا نذیر احمد املوی ،مولانا محمد حنیف ندوی، شکیب ارسلان،حسن البنا شہید، سید قطب شہید،مولانا مودودی ،مولانا امین احسن اصلاحی اور ڈاکٹر اسرار احمدوغیرہ تھے۔
ملت کی خاصی بڑی تعداد نے اپنے ان مخلصین کی آواز پر لبیک کہا اور انفرادی اور اجتماعی ہر دو طریقے پر ان کے افکار وخیالات کو عام کرنے میں مصروف ہوگئی۔رجوع الی القرآن کی اسی تحریک کا فیضان ہے کہ آج جگہ جگہ دروس قرآن کے حلقے قائم ہیں اور قرآن مجید پر غور وفکر کا دائرہ وسیع اور اس کاسلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ایک دور تھا جب قرآن مجید کو ایصال ثواب ،آسیب زدہ پر دم کرنے اور اس کی مختلف سورتوں اور آیات کو بہ طور تعویذ استعمال کرنے کا چلن عام تھا لیکن دروس قرآن اور رجوع الی القرآن کی موجودہ کوششوں کا مثبت نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ مکمل تو نہیں لیکن بڑی حد تک یہ سیاہ بادل چھٹے ہیں اور نور الٰہی نے دلوں کی دنیا کو روشن کرنا شروع کردیا ہے۔قرآن مجید کے کتاب ہدایت ہونے کا تصور غالب آرہا ہے جب کہ اس کے کتاب برکت ہونے کا تصور عام رہا ہے اور آج بھی جہاں جہاں علم کی روشنی مدھم ہے،یہی تصور پایا جاتا ہے۔
رجوع الی القرآن کی یہ تحریک چاہتی ہے کہ مسلمان اللہ کی کتاب کو سینے سے لگائیں ، اس کی تعلیمات پر غور وفکر کریں اور اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی ہدایات کو نافذ کریں۔قرآن کریم کی ترجیحات کو اپنی ترجیح بنائیں اور اس کے فرامین کو اہمیت دیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ قرآن کی اساسی تعلیمات میں توحید،رسالت اور آخرت کو اولیت حاصل ہے۔یہ عقائد انسان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں اور افکار واعمال کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔اسی طرح نکاح،طلاق،بیع وشراء اور اخلاقیات کے باب میں اس کی اصولی اور بنیادی تعلیمات نہ صرف اپنی تفہیم چاہتی ہیں بلکہ چلتی پھرتی زندگی میں ایک مسلمان کو ان پر عمل پیرا دیکھنا چاہتی ہیں۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ رجوع الی القرآن کی یہ تحریک آگے چل کر کئی ایک انحرافات کا شکار ہوگئی اور اس تحریک کا جو بنیادی مقصد تھا،وہ فوت ہوگیا۔ملت آج بھی کئی ایک فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم ہے ،منافرت اور عصبیت کی شدت کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی بلکہ جمعیۃ العلماء،مسلم مجلس مشاورت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے قیام کے پس منظر پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ آج کے مقابلے میں ماضی میں ہمارے مسلکوں کے نمائندہ علماء زیادہ متحد تھے اور ملت کے اجتماعی کاموں کے لیے ایک اسٹیج پر جمع ہوجایا کرتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ملت کے یہ اجتماعی ادارے بھی خاص شخصیات اور مخصوص اداروں میں سمٹ کر رہ گئے ہیں اور ان کی افادیت ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔مسلکوں اور گروہوں کی ترجیحات میں کوئی خاص فرق نہیں آیابلکہ خود رجوع الی القرآن کی تحریک سے وابستہ افراد بھی قرآن کی تفسیر کرتے وقت قارئین کو یہی مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ قرآنی احکام وقوانین پر مشتمل ان آیات کی تفصیلات فقہی کتابوں میں دیکھی جائیں اور ادھرفقہی کتابوں کا حال یہ ہے کہ قیل وقال کی ایک ایسی دنیا دکھائی دیتی ہے جس میں دو دو چار کی طرح کوئی مسئلہ صاف ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
رجوع الی القرآن کی یہ تحریک اپنے سفر کے دوران کئی ایک مشکلات سے دوچار ہوئی اور ان مشکلات نے اس کے مقاصدکو نقصان بھی پہنچایااور اس کے سمت سفر کو بھی متاثر کیا۔اصول تفسیر میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ قرآن مجید کی کسی آیت کی وہ تفسیر زیادہ معتبر ہوگی جو نبی اکرم ﷺ نے کی ہو۔قرآن کی تبیین کی ذمہ داری اللہ نے نبیﷺکے سپرد کی ہے لیکن چند ایک احادیث کو قرآن کی بعض آیات کے خلاف بتاکر ذخیرۂ حدیث کو مشتبہ بنانے کی کوشش کی گئی اور اس کے مقام کو اس حد تک کم کیا گیا کہ وہ تفسیری ماخذ میں دوسرے درجے کی چیز بن گئی۔اپنے موقف کو مضبوط ثابت کرنے کے لیے ان حضرات نے جن احادیث کا سہارا لیا ہے،وہ انگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہیں۔محدثین نے ان کے تعلق سے پیدا ہونے والے اشکالات دور کیے ہیں ۔اگر ان سے اطمینان نہیں ہورہا تھا تو توقف اختیار کیا جاتا ،یہ ضروری تو نہیں کہ ہر چیز ہر شخص کی سمجھ میں آئے۔پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چند احادیث کو بنیاد بناکر احادیث کے پورے ذخیرے کو مشکوک قرار دیا جائے اور اس کی ترتیب وتدوین،جرح وتعدیل اور اصول حدیث کے دیگر مباحث کو طنز واستہزاء کا موضوع بنایا جائے اور وہ بھی ان حضرات کے قلم سے جو علوم حدیث کی فنی نزاکتوں سے بالکل ناواقف ہیں۔قرآن میں اطاعت رسول کا مصداق اس کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے کہ حدیث کی حجیت کو تسلیم کیا جائے اور اس سے ہدایت اور رہنمائی حاصل کی جائے۔اسی طرح قرآن مجید کے کئی مقامات پر کتاب کے ساتھ حکمت کا تذکرہ کیا گیا ہے،کئی ایک علمائے سلف اس کی تشریح حدیث وسنت سے کرتے ہیں۔
برصغیرمیں رجوع الی القرآن کی تحریک کے ایک اہم ستون مولانا حمیدالدین فراہی رحمہ اللہ ہیں۔علی گڑھ میں قیام کے دوران انھوں نے دیکھا کہ قرآن کی تفسیر وتاویل میں مستشرقین،شیعہ حضرات اور مغرب زدہ متجددین جو طریقہ اپناتے ہیں اور اپنی رائے کے مطابق قرآنی آیات کی جو توجیہ کرتے ہیں، اس سے اسلام کے بعض مسلمہ اصول متاثر ہوتے ہیں۔ اللہ نے ان کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تفسیر قرآن کے کچھ بنیادی اصول ہونے چاہئیں جن کی پابندی کی جائے تو ان انحرافات سے بچا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے کئی ایک مجتہدانہ کام کیے اور بعض منحرف فرقوں کی غلطیوں کی نشان دہی کی،ان کی بعض تحقیقات سے اختلاف کیاجاسکتا ہے لیکن ان کی نیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں لیکن ابھی مولانا فراہی کی تحقیقات کا سفر جاری ہی تھا کہ ان کا انتقال ہوگیا اور ان کے کئی ایک علمی کام ادھورے رہ گئے۔ان کے کئی ایک ممتاز تلامذہ نے جن میں مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کا نام سب سے نمایاں ہے ،ان کی تحقیقات کو آگے بڑھایایا ان کے اصولوں کے مطابق قرآن کی مکمل تفسیر’’تدبر قرآن‘‘کے نام سے لکھی ۔مولانا فراہی کے متعین کردہ بعض اصولوں کی تطبیق میں ان کے بعض تلامذہ میں جو اختلاف نظر آتا ہے ،اس کی وجہ یہی ہے کہ خود مولانا فراہی کے یہاں دو دو چار کی طرح وہ اصول واضح نہیں تھے۔نظم اور عمود وغیرہ چیزیں غیر منصوص ہیں،ان کی حیثیت اجتہادی ہے اور کسی اجتہادی اصول سے منصوص کو رد کردینا قطعاً مناسب نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں کیا جاسکا اور خود کو فکر فراہی اور فکر اصلاحی کا ترجمان سمجھنے والے جاوید احمد غامدی نے اسلامی تہذیب کے بعض مظاہر،اسلام کے بعض مسلمہ قوانین اور اہل سنت کے متحدہ موقف کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔انھوں نے اپنے ویب سائٹ پر اپنے نام کے اوپر مولانا امین احسن اصلاحی اور ان سے اوپر مولانا فراہی کا نام لکھ کر جو زیادتی بلکہ فکری اور نظریاتی گناہ کیا ہے ،اس نے برصغیر میں رجوع الی القرآن کی تحریک کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اصلاحی بزرگوں اور اخوان کو اس کا نوٹس لینا چاہیے،آج کے اس جمہوری دور میں غامدی انحرافات سے اپنی برأ ت کا اظہار کرنے میں بہ ظاہر کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ غامدی صاحب کے فکری انحرافات کا دائرہ دن بہ دن وسیع ہوتا جارہا ہے اور جدید تعلیم یافتہ لیکن ملت کی زبوں حالی سے پریشان طبقہ غیر شعوری طور پر ان کے منفی نظریات سے متاثر ہوکر اسلام کی اساسیات اور ان کے مظاہر کی تضحیک واستہزا میں پیش پیش دکھائی دیتا ہے۔
کیا داڑھی،برقعہ،کرتا اور پاجامہ مسلم امہ کی ترقی کی راہوں کے اینٹ پتھر ہیں جن کو ہٹائے بغیر موجودہ فضا میں سانس نہیں لیا جاسکتا۔اظہار رائے اور دوسروں کو کوئی اذیت پہنچائے بغیر خورد ونوش اور آرائش وزیبائش میں اپنی مرضی سے انتخاب کی آزادی کا حق ایک مسلمان کو حاصل نہیں ہے۔ عورت کے عریاں رہنے کو اس کی آزادی کہا جاتا ہے لیکن برقع میں رہنے کے اس کے حق خود ارادی پر سوال کھڑے کیے جاتے ہیں۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ ایک عورت کو عام مجلسوں میں بے پردہ شریک ہونے کی وکالت کرتے ہیں لیکن ایک عورت اپنے گھر میں اپنے شوہر اور اپنے بچوں کی خدمت اور تربیت کے لیے خود کو اگر گھر کی چہاردیواری میں رہنے کو پسند کرتی ہے تو آپ اسے اس کی غلامی سے تعبیر کرتے ہیں اور یہاں اس کے انتخاب اور حق خود ارادی کے استعمال کو ظلم وجبر قرار دیتے ہیں۔
رجوع الی القرآن کی تحریک کا سفر اس عزم کے ساتھ شروع ہوا تھا کہ ہم مسلمانوں کو قرآن کی تعلیمات کی طرف واپس لائیں گے،قرآن کی ترجیحات کو ان کی دینی ترجیحات بنائیں گے،عقائد،عبادات، معاملات اور اخلاقیات کے باب میں قرآن کی رہنمائی کو اولیت دیں گے لیکن بعض متکلمانہ اور فلسفیانہ مباحث نے اس تحریک کا رخ موڑ دیا۔ قرآن پر فکر وتدبر کے نام پر کئی ایک صحیح احادیث کا انکار کیا گیا،معجزات کی عجیب وغریب تاویل کی گئی اور کئی ایک مباحث اور مسائل ایسے چھیڑے گئے جن سے مسلمانوں میں کئی قسم کی غلط فہمیاں پھیلیں اور قرآن کی طرف دعوت دینے والوں کی اپنی دینی اورعلمی حیثیت مشکوک ہوگئی ۔
کم وبیش ڈیڑھ صدی کی کوششوں کے باوجود آج تک مسلم معاشرے کو ہم یہ نہیں سمجھاسکے کہ وراثت کی تقسیم ایک دینی فریضہ ہے،خواتین کو وراثت سے محروم کرنا سنگین جرم ہے ،وصیت میں کسی کی حق تلفی جائز نہیں اور حق تلفی پر مبنی وصیت نامے کے ذریعے کسی کے حق پر قبضہ جمانا منہ میں انگارے لینے کے برابر ہے،قرض کا لین دین کرتے وقت تحریر تیار کرنا ضروری ہے لیکن آج ایک دوست دوسرے دوست کو قرضہ دیتے وقت اگر تحریر کی بات کہہ دے تو اسے دوستی اور مروت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔اختلاف کے وقت اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹنے کا حکم قرآن دیتا ہے لیکن آج مسلمان ان مسائل میں بھی غیر شرعی عدالتوں کا رخ کرتا ہے جن کا واضح حل ہماری مساجد میں موجود ہے۔وما ذبح علی النصب اور وما أھل بہ لغیراللہ کے واضح اور دوٹوک حکم کے باوجود کتنے مسلمان ہیں جو مزارات پر جانور ذبح کرتے اور وہاں تقسیم ہونے والی اشیائے خودر ونوش کو تبرک سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔ عقائد میں کمزوری،عبادات میں سستی،معاملات میں نفس پرستی اور اخلاقیات میں بے راہ روی جس طرح پہلے عام تھی ،آج بھی صورت حال وہی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآنی تعلیمات کو ایک ایک کرکے عام کیا جائے ،فقہی مسائل والی درجہ بندی کرکے ہم قرآن کے پیغام کو لوگوں تک نہیں پہنچاسکتے۔قرآن مجید نکاح کے وقت خوش دلی کے ساتھ مہر ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔مسلم معاشرے نے اس مہر کو معجل اور مؤجل میں تقسیم کرکے بڑی حد تک بے معنی کردیا ہے اوربعض حضرات شادی کے موقع پر دیے جانے والے زیورات کو ہی مہر بنادیتے ہیں اور ہمارا سماج کہاں اجازت دیتا ہے کہ مہر میں ملا ہوا زیور عورت بازار میں لے جاکر فروخت کردے اور اس سے حاصل کردہ رقم کو اپنی کسی ضرورت یا اپنے والدین کی بیماری پر خرچ کردے۔ اسی طرح بہت سی قرآنی تعلیمات کو ہم نے بے معنی بنا دیا ہے۔مسلم امہ کی سیاسی وحدت،اعدائے اسلام کے بالمقابل مکمل تیاری،ولاء اور براء اور اسلام کے غلبہ ونفاذ کی باتیں تو بعض سادہ لوح حضرات کو سیاسی لگتی ہیں اور ان کے خیال میں سیاسی گفتگو منہج سلف کے خلاف ہے۔ اگر ظل الٰہی کے ہر فرمان پر آمنا وصدقنا کہنا منہج سلف ہے تو اس سے قرآن کا کوئی تعلق نہیں،قرآن تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو امت مسلمہ کا مقصد وجود بتاتا ہے اور کوئی امت اپنے مقصد وجود کو فراموش کردے یا کسی تاویل کے ذریعے اس کی اہمیت ختم کردے تو اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
رجوع الی القرآن کی تحریک کا ایک بڑا مقصد مسلم امہ کی وحدت اور اسلام کا غلبہ ونفاذ تھا لیکن جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے ،اس راہ پر چلنے والے بیشتر مخلصین امت کے افکار وخیالات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا،ان کی نیتوں پر حملے کیے گئے بلکہ بعض حضرات کو اعدائے اسلام کا ایجنٹ قراردیا گیا۔محمد بن عبدالوہاب،شاہ اسماعیل شہید،سید جمال الدین افغانی،مفتی محمد عبدہ،حسن البنا شہید،سید قطب شہید اور مولانا مودودی رحمہم اللہ نے اپنی زندگیاں غلبۂ اسلام کے لیے وقف کردیں لیکن {ھو الذی أرسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ }کی تلاوت کرنے والی ملت آج بھی سیاست کو آلودگی قرار دے کر فقہ الاقلیات کی ترتیب وتدوین میں مصروف ہے۔آج جب کہ سیاست نے پوری زندگی کو اپنے دائرے میں لے لیا ہے،اس سے کنارہ کشی موت کے مترادف ہے ۔
ہمارے بعض بڑے علماء ،اتقیاء اور زہادکی تاویل یہ ہے کہ چوں کہ سیاست کئی طرح کی اخلاقی برائیوں اور کمزوریوں کا ملغوبہ بن گئی ہے،اس لیے صالحین اور صاف ستھرے لوگوں کو اس سے دور رہ کر دین اسلام کی خدمت کرنی چاہیے۔یہ فکر وخیال خواہ کتنا ہی بلند اور پاکیزہ دکھائی دیتا ہو،زمینی حقیقت سے پرے ہے۔آج دعوت وتبلیغ کا کام ہو یا رفاہی نوعیت کی کوئی خدمت بغیر سیاسی تحفظ کے کوئی کام آسان نہیں ہے۔
قرآن مجید کی اصولی تعلیمات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں پیدا ہونے والے ظلم وفساد،عدم مساوات اور بے انصافی کو دور کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اس ملت پر ڈالی ہے جو قرآن مجید کو اللہ کی آخری کتاب سمجھتی ہے۔خدمت انسانیت کی راہ میں اسے اپنی جان ومال کی قربانی بھی پیش کرنی پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔دنیا کے تمام انسانوں کو آزادی کے ساتھ رہنے اور سماج کی بہتری کے لیے اپنے خیالات پیش کرنے کا حق قرآن مجید ہر انسان کو دیتا ہے ۔اس میں کسی امیر غریب،بڑے چھوٹے اور مرد عورت کا کوئی امتیاز نہیں ہے لیکن دنیا کے کچھ جابر وظالم لوگوں نے آج عام انسانوں کو اپنا غلام بنالیا ہے ۔ایک استحصالی نظام ہے جو دنیا پر مسلط ہے،یہاں حق وانصاف کے لیے چہرے دیکھے جاتے ہیں ۔حیرت کی بات ہے کہ دنیا کو عدل وانصاف سے ہم کنار کرنے والے آج کاسۂ گدائی لے کر اسی نظام سے انصاف طلب کررہے ہیں جس نظام کا قبلہ درست کرنے کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔
قرآن مجید اپنی اصولی تعلیمات اور ہدایات کے لحاظ سے اپنی بالادستی چاہتا ہے ۔ وہ کسی کی ماتحتی میں رہ کر اپنی مکمل روشنی سے انسانوں کو فیض یاب نہیں کرسکتا۔وہ ایک مکمل نظام حیات رکھتا ہے جس میں زندگی کی تمام چھوٹی بڑی چیزیں شامل ہیں۔وہ جبر واکراہ کا قائل نہیں ہے اور نہ خود اپنے سلسلے میں کسی زورزبردستی کی اجازت دیتا ہے۔انسانوں کے تمام جمہوری حقوق اس کے سایے میں محفوظ ہیں۔ ضرورت ہے کہ آج کی دنیا میں قرآن مجید کو اسی حیثیت سے پیش کیا جائے۔
إنا للہ و إنا إلیہ راجعون اس مضمون سے جماعتِ اسلامی کے افکار سے جڑنے اور جوڑنے کی ناجائز کوشش صرف کی گئی ہے انکار سنت کی تعلیم دی گئی ہے بھلا بتایا جائے کیا احادیث ِ رسولﷺ قرآن کریم کی تفسیر نہیں ہیں ؟ بتایا جائے کہ کیا امیم احسن اصلاحی ‘مودودی ‘سید قطب ‘حسن بناء کے افکار کل کے کل اسلامی رہے ہیں ؟ ہم اگر جمال الدین افغانی ‘سید قطب وغیرہ کے افکار (رجوع إلی القرآن) پر قالم ہوگئے تو ہمیں کئی احادیث سے ہاتھ دھونا پڑے گا صحابہ کرام پر تبرا کرنا آسان ہوجائے گا‘صحابۂ کرام… Read more »
جی صحیح فرمایا ہے آپ نے صحیح، بہترین تنبیہ۔۔۔شکریہ
صحيح منهج کہاں ہے ؟
صحیح منہج کتاب و سنت کے علاوہ کہاں مل سکتا ہے
یہ مضمون ہے یا چیستاں؟ لکھنے والا خود کنفیوژ ہے اور اس سے زیادہ شائع کرنے والا، اللہ دونوں پر رحم کرے، ویب پورٹل نے فری لانسر کی وقعت کو کم کیا ہے، اس لئے کہ اب مضامین بنا کسی ادارتی نوٹ کے شائع کئے جاتے ہیں، ہر طرح کا الم غلم اور ہر طرح کا رطب و یابس اب فری لانسر پر مل جاتا ہے، بھائی! شائع کرو لیکن کنفیوژن دور کر کے، اگر معاملہ صرف ٹی آر پی کا ہو تو جاوید غامدی میں کیا برائی ہے؟ انہیں بھی شائع کرو، کم سے کم مولوی رفیق جیسی غلط… Read more »
السلام وعلیکم رجوع القرآن کی رشوت کی جو بھی وجہ رہی ہو اس سے قطع نظر ، غامدی صاحب کے افکار کا ماخذ بھی تو مولانا فراہی اور امین احسن اصلاحی کی آراء و تفسیر ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ غامدی صاحب نے ایک منفرد راہ نکالی ہے ۔ دوسری بات ،اس پورے مضمون میں رجوع علی القرآن کی آڈ می جو سنت و حدیث سے بے اعتناء برتی جاتی ہے ۔اس کا ذکر فاضل مصنف سے چھوٹ گیا ۔۔تدبر قران میں ۸۸ احادیث ہیں ۔اس سے زیادہ جاہلی ادب و ایل کتاب کی کتابوں کے حوالے ہیں… Read more »
wese dekha jaye to musannif ne baat to aj ke daur e hazir ke hisab se blkl durust kahi hai . masla sara is bat ka ki koi apne girebaan me dekhna nhi chahta islye sare masail aa khade hue hain. agar puri ummat e muslima ko muttahid krna hai to sb ko ek kitab yani Quran or Ek Rasul ki shariat yani shariat e Muhammadiya ki taraf laane ke lye humein firq bandi se nikalna zaruri hai … or Quran kya taleem deta hai sb ko usi traf lana hai ab koi bhi minhaj Quran ki taleemat or Sahriat… Read more »
اختلاف کوئی مذموم چیز نہیں ہے چاروں مسالک کے درمیان اختلاف تو تھا لیکن لڑائی جھگڑے نہیں تھے جبسےسلفی جماعت وجود پذیر ہوئی اختلاف کو کفر و شرک کا درجہ دینے لگی اہل علم کا اختلاف ان کی نظر میں حق و باطل اور کفر و شرک کے مساوی ہو گیا